نوجوان صحت مند زندگی، تعلیم و تربیت، ہمت و حوصلے، جستجو و لگن اور اعتدال پسندی سے ہی اپنے وطن کو ترقی دے سکتے ہیں
اگست کو اقوام متحدہ کے زیراہتمام نوجوانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ نوجوان کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا نصف حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں اس وقت نوجوان آبادی کا تناسب تاریخ کی سب سے بلند ترین سطح پر ہے۔ ہمارے ملک کی کل آبادی میں 68 فیصد لوگ تیس سال سے کم عمر اور 32 فیصد پندرہ سے بیس سال کی عمر کے درمیان ہیں۔اقوام متحدہ اورورلڈو میٹرز (Worldometers) کے تازہ اعداد وشمار کے مطابق اس وقت پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے جس میں سے تقریباً ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
نوجوانوں کے عالمی دن کا مقصد نوجوانوں کے مسائل کا حل نکالنا، ان کی ترقی کے لیے مواقع تلاش کرنا اور بیرون ملک ملنے والے مواقع اور خطرات سے آگاہ اور ازالے کے بارے میں شعور بیدار کرنا ہے۔ اس دن کے حوالے سے دنیا بھر میں نوجوانوں کی صحت اور ترقی سے متعلق کام کرنے والے ادارے مختلف تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ جن میں نوجوانوں کو پیش آنے والے مسائل اور ان کے حل پر بحث و مباحثہ کیاجاتا ہے اور ان کی ترقی کے لیے ملک میں اور عالمی سطح پر موجود مواقعوں کو تلاش کیاجاتا ہے تاکہ نوجوانوںٍ کی ترقی کے لیے بہتر اقدامات کیے جاسکیں۔
یہ فطرتی بات ہے کہ نوجوان اپنے اردگرد موجود ماحول میں تبدیلی کا بہترین وکیل ہوتا ہے اور اگر اس کی تربیت قرینے اور صحتمند ماحول میں کی گئی ہو تو وہ ایک مثبت اور بہترین تبدیلی کا استعارہ بن کر نمودار ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک نوجوان سماجی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی اصلاحات کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ ایک صحت مند اور توانا نوجوان ایک صحت مند اور توانا دماغ کا مالک اور ایک صحت اور توانا دماغ ایک صحت مند اور توانا معاشرے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔''تندرستی ہزار نعمت ہے'' صدیوں پرانا مقولہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ نعمتوں میں صحت و تندرستی ایک بیش بہا نعمت ہے۔
مستحکم اور پائیدار معاشرے کی تعمیر و ترقی میں صحت مند نوجوانوں کی صلاحیتوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ تعلیم اور صحت کا باہمی تعلق ہے کیونکہ صحت مند نوجوانوں کی تعلیم کے حصول میں بھرپور توجہ اور آگے بڑھنے کا جوش و ولولہ ہوتا ہے، جبکہ جسمانی طور پر کمزور نوجوانوں میں کاہلی و سستی غالب رہتی ہے۔ ان کا کسی بھی کام میں دل نہیں لگتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے معمولات پر نظر ثانی کریں۔ صحت اور کھیل طلبہ کی کردار سازی اور نفسیاتی تربیت میں مددگار ہوتے ہیں۔
جس طرح نصابی تعلیم، ذہنی صلاحیتیں اور بہتر کردار کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، اسی طرح جسمانی تعلیم نوجوانوں میں نظم و نسق، احساس ذمہ داری اور قائدانہ صلاحیتوں کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔ قدرت نے جہاں پاکستان کو بے شمار نعمتوں اور وسائل سے مالا مال کیا ہے، وہیں اس سرزمین کو ذہین دماغ اور بہترین صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں سے بھی نوازا ہے۔ نوجوان صحت مند زندگی، تعلیم و تربیت، ہمت و حوصلے، جستجو و لگن اور اعتدال پسندی سے ہی اپنے وطن کو ترقی دے سکتے ہیں۔ ایک اچھی صحت کے لیے ٹائم ٹیبل مرتب کرنا چاہیے۔ متوازن خوراک کے ساتھ پرسکون اور گہری نیند ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
ہمارا دماغ پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے۔ اگر دماغ بوجھل ہوتا ہے تو پورا جسم متاثر اورکام کی صلاحیتیں مدھم ہوجاتی ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم اور دماغ کو آرام دینے کے لیے رات بنائی تاکہ انسان رات کو اپنی نیند پوری کرکے صحت مند اور ہشاش بشاش رہے۔ جوانی زندگی کا بہترین دور ہوتاہے۔ یہی وہ عمر ہوتی ہے جب حوصلہ بلند، ہمت مضبوط اور ارادے توانا ہوتے ہیں۔بازوئوں میں قوت اور آنکھوں میں چمک ہوتی ہے۔ اس عمر میں ناقابل یقین کارنامے انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب نوجوان اپنی صحت و تندرستی پر بھرپور توجہ دیں۔ صحت مند رجحانات کی طرف راغب کرنا والدین اور اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے۔ یہ افراد نوجوانوں میں صحت کے بنیادی اصولوں اور مناسب غذا کے حصول کی آگاہی اجاگر کریں۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ اسلام میں ہر بات کی حکمت اور اہمیت ہے۔ صفائی ستھرائی کی وجہ سے انسان بے شمار بیماریوں سے بچ سکتاہے اور ذہن میں تعمیری سوچ اور اچھے خیالات جنم لیتے ہیں۔ اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف رکھیں۔
نوجوانوں کو صبح سویرے اٹھنے کی عادت کو اپنانا چاہیے۔ سورج کی پہلی کرن خوشی اور سکون دیتی ہے۔ اس کا اندازہ صبح جلدی اٹھنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ تمام کام بآسانی کرسکتے ہیں لیکن افسوس آج کل بہت سے غلط رواجوں میں سے ایک دیر تک سونے کا بھی عام ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق سوشل میڈیا اور الیکٹرونکس ڈیوائسز کا زیادہ استعمال انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے، جس میں آنکھوں اور پٹھوں کے امراض شامل ہیں۔ کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے زیادہ دیر تک ایک ہی حالت میں بیٹھے رہنا اور نظریں جمائے رکھنے سے گردن اور کمر کے اعصاب میں کھنچائو پیدا ہوجاتا ہے۔
نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کم عمری میں ہی آنکھوں کے امراض کا شکار ہورہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ کم روشنی میں کمپیوٹر اور موبائل فونز کا استعمال ہے جو نئی نسل میں عام سی بات ہے۔ نوجوانوں میں سوشل میڈیا کا بہت زیادہ رجحان بڑھنے کی وجہ سے ڈپریشن، ذہنی الجھنیں، نیند کی خرابی، موٹاپا، کولیسٹرول کا بڑھ جانا، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور دیگر جسمانی امراض میں دن بدن تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان کی نئی نسل میں موٹاپا تیزی سے پھیل رہا ہے۔یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ موٹاپے کا تعلق امیروں اور کھاتے پیتے طبقے سے ہے، وزن کی زیادتی میں مرغن غذائیں نہیں بلکہ غیر متوازن خوراک اور زندگی گزارنے کا انداز بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نوجوانوں میں فاسٹ اور جنک فوڈ اور مشروبات کا بکثرت استعمال بھی وزن میں اضافے اور موٹاپے کا باعث بن رہا ہے۔ نوجوان زیادہ جنک فوڈ، فاسٹ فوڈ، سوفٹ ڈرنکس، مٹھائیوں، چپس، فرائز اور پیزے کے استعمال سے گریز کریں۔ اپنی روزمرہ زندگی میں سبزیوں ، گوشت، مچھلی، تازہ پھل کا استعمال کریں۔ پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔
دل کے دورے نوجوان اور بظاہر صحت مند افراد کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ اگرچہ عمر کے ساتھ دل کے دورے کا خطرہ بڑھتا ہے، لیکن نوجوان آبادی کو متاثر کرنے والے دل کے دورے کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے۔ نوجوان اور صحت مند افراد میں دل کے دورے کی انتباہی، علامات کو پہچاننا، ممکنہ طور پر جان بچانے والے اقدامات کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دل کے دورے نوجوان اور بظاہر فٹ نظر آنے والے لوگوں میں بھی ہو سکتے ہیں۔ اس رجحان کے رونما ہونے کی مختلف وجوہات میںطرز زندگی کے عوامل شامل ہیں۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد بیٹھی زندگی گزار رہی ہے، غیر صحت بخش غذا کھا رہی ہے اور زیادہ تناؤ کی سطح کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ عوامل قلبی خطرے کے کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، یہاں تک کہ ان لوگوں میں بھی جو ظاہری طور پر صحت مند دکھائی دیتے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ افراد کی دل کی بیماری کی خاندانی تاریخ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے انہیں کم عمری میں دل کے دورے پڑنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ تمباکو نوشی، تفریحی منشیات کا استعمال اور بہت زیادہ شراب نوشی دل کے دورے کے خطرے کو نمایاں طور پر بڑھا سکتی ہے، یہاں تک کہ نوجوان اور صحت مند افراد میں بھی۔ بعض طبی حالات، جیسے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور کولیسٹرول بڑھنا، نوجوانوں میں دل کے دورے کا خطرہ بھی بڑھا سکتے ہیں۔
دماغی بیماریاں مختلف قسم کے عوارض پر مشتمل ہوتی ہیں جن کی شدت ہر شخص میں مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے کچھ دباؤ والی صورت حال کے عارضی اثرات ہو سکتے ہیں جبکہ کچھ بیماریاں دماغی بیماری اور ذہنی صحت کے فروغ کے بارے میں کم ہونے والے بدنما داغ کے ساتھ دائمی شکل اختیار کر سکتی ہیں۔تاہم، بچوں اور خاص طور پر نوعمروں میں دماغی صحت کی خرابیوں کی تشخیص کی بڑھتی ہوئی شرحیں ہیں۔ جسمانی تندرستی کے ساتھ ساتھ، نوجوانوں اور بچوں میں ذہنی تندرستی بھی ضروری ہے تاکہ وہ زندگی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں اور صحت مند انسان بن سکیں۔
کچھ عادات جو نوجوان آبادی میں دماغی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہیںان میں متوازن غذا ، باقاعدگی سے ورزش کرنا،اچھی جسمانی صحت اور سماجی سرگر میاں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ پانچ وقت نماز کی عادت ڈالیں۔ کھلی فضا، پارکس اور پرفضا مقامات پر ورزش کر یں۔ اگر جلدی اٹھیں گے تو بآسانی ورزش کو اپنے معمول میں شامل کرسکیں گے۔ آسان الفاظ میں جو لوگ جسمانی طور پر زیادہ متحرک نہیں ہوتے، ان میں مایوسی کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے،جبکہ ورزش یا کسی قسم کی جسمانی سرگرمی رکھنے والے اس ذہنی عارضے سے کافی حد تک محفوظ رہتے ہیں۔
کھیلوں میں حصہ لینے سے نوجوانوں کی صلاحیتیں ابھرتی ہیں اور وہ معاشرتی برائیوں سے بچ جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں کھیلوں کا انعقاد اشد ضروری ہے۔ اعلیٰ سطح پر کھیلوں کے انعقاد سے ملک کا نام بھی روشن ہوتا ہے۔ کھیلوں کے میدان آباد ہوں گے تو اتحاد و بھائی چارگی، امن کے قیام کے ساتھ معاشرے سے منفی سرگرمیوں کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔
صحت کو برقرار رکھنے کا ایک خاص اصول یہ بھی ہے کہ کام کے وقت کام اور آرام کے وقت آرام کیا جائے۔ بہت زیادہ کام کرنے سے بھی صحت گر جاتی ہے اور بہت زیادہ آرام کرنے سے بھی صحت قائم نہیں رہ سکتی۔اچھی غذا کھائیں اور چست رہیں۔ صحت مند طرزِ زندگی کے لیے اپنے متعلق اچھی سوچ رکھنا ضروری ہے۔
یہاں چار نقطے بیان کیے جاتے ہیں جو آپ کا صحت مند وزن برقرار رکھنے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں:
ہمیشہ چست اور مستعد رہیے، کھانے کے صحت مندانہ طریقے اپنایئے،اپنے کھانے کے لیے صحت بخش غذا کو چنیے، اپنے متعلق اچھا محسوس کیجیے۔نوجوان اپنے عزم و ہمت سے قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی صحت پر توجہ دیں اوراپنی صلاحیتوں کو مثبت انداز سے صرف کرکے اپنے ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کر سکیں۔
مضمون نگار نجی ہسپتال میںبہ حیثیت مائکرو بیالوجسٹ وابستہ ہیں اورمختلف اخبارات میں کالم نگار ہیں۔
[email protected]
تبصرے