کیپٹن حسین جہانگیر شہید سے متعلق محبوب حیدر سحاب کا مضمون
افواجِ پاکستان کا طرہ امتیاز ہے کہ اس کا ہر جوان اور افسر اپنے دل میں شہادت کی تمنا لیے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ مملکتِ خداداد پر جان قربان کرنے والے تمام جوانوں اور افسروں میں شہادت کی اُمنگمشترک ملے گی۔ اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے شاعرِ مشرق نے کیا خوب ارشاد فرمایا ہے
شہادت ہے مقصود مطلوب مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشورِ کشائی
کیپٹن حسین جہانگیر شہید کی والدہ گرامی اس حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے بیان فرماتی ہیں کہ میری تین بیٹیوں کے بعد بے شمار دعائوں اور اللہ کی خاص کرم نوازی سے 18 فروری 1999 کو حسین جیسے چاند سے بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ وہ ربِ ذوالجلال کی طرف سے میری آغوش میں ایک انمول تحفے کی طرح عطا کیا گیا تھا اور مجھ ماں کو خواب میں واضح طور پر بتا دیا گیا تھا کہ یہ ہماری امانت ہے جسے پرورش کے لیے تمہیں سونپا جارہا ہے۔ تم نے پورے دو سال اسے دودھ پلانا ہے۔ اس کے بعد پیدا ہونے والے بیٹے اور اس سے پہلے کی تین بیٹوں نے 8-9 ماہ سے زیادہ ماں کا دودھ نہیں پیا۔
حسین کی زندگی میں خوابوں کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ ابھی یہ 12 سال کاتھا کہ عاشورہ کے دن اسے سخت بخار ہو گیا۔ یہ رضائی اوڑھ کر لیٹ گیا اور خواب میں اسے حضرت امام حسین کی زیارت نصیب ہوئی۔ جس کا تذکرہ اس نے بیدار ہونے کے بعد فخر سے کیا اور ساتھ ہی اس کا بخار اتر چکا تھا۔ اس روز سے ہم نے اپنے اس نورِنظر کو پیارا حسین بابا کہنا شروع کردیا۔
حسین جہانگیر بچپن ہی سے بڑا شرارتی، ذہین اور نڈر بچہ تھا۔ لیکن شرارتوں میں اس کا منفی تخریبی کارروائیوں کے بجائے ہمیشہ مثبت رحجان رہا۔ سارے اساتذہ اس کی بے حد تعریف کرتے جب پڑھائی شروع کرتا تو سب سے پہلے سکول کا کام ختم کرتا اوراپنا سبق یاد کرلیتا۔ اپنی کتابیں، سکول یونیفارم، اپنے کپڑے اور جوتے وغیرہ ہر چیز بڑی ترتیب اور سلیقے سے رکھتا۔ مختلف کھیلوں میں حصہ لینے کا اسے بہت شوق تھا اور اِس شوق کوپورا کرنے کے لیے وہ ہر روز صرف ایک گھنٹہ پڑھائی کر کے اپنے امتحان کی تیاری وقت سے پہلے ہی کر لیتا تھا۔
بچپن ہی سے اس کے فوج سے لگائو کا یہ عالم تھا کہ اگر بازار میں اسے کوئی کھلونا مثلاً ٹینک، بکتر بنڈ گاڑی اور بندوق وغیرہ ملتی تو وہ اسے خرید لیتا اور اسے بہت سنبھال کر استعمال کرتا۔
حسین جہانگیری نے اپنی ابتدائی اور ہائی سکول کی تعلیم الھدیٰ گرائمر سکول رحیم یار خان سے مکمل کی، میٹرک امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد پنجاب گروپ آف کالجز رحیم یار خان میں داخلہ لے لیا اور وہاں بھی پڑھائی اور کھیل دونوں میدانوں میں سب سے آگے رہنے کی کوشش میں بدستور لگا رہا۔ کرکٹ کاشیدائی تھا اور فاسٹ بائولنگ کا ماہر، یہاں تک کہ وہ انڈر 16 فاسٹ بالنگ، رحیم یار خان سے منتخب ہو گیا۔ کیونکہ وہ پنجاب گروپ آف کالجز میں کرکٹ کا کپتان بھی رہا اس لیے سارے اساتذہ اور دوست اسے کیپٹن کہتے تھے اور بحیثیت کپتان کے اس نے اپنے کالج کو ٹرافی بھی جتوائی۔ بچپن میں حسین بابا جہانگیر کی والدہ اسے شاعر مشرق کے کلام خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ کی لوری دیتی تھی۔ بڑے ہو کر حکیم الامت علامہ اقبال کی یہ نظم سن کر بے خود ہو جاتا اور خود بھی گنگنانے لگتا۔ اپنے چھوٹے بھائی محمد بلال خان سے فرمائش کر کے یہ نغمہ سنتا تھا۔
اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
محمد بلال خان کی آواز بہت اچھی تھی۔ لہٰذا وہ اس سے بھی بار بار علامہ اقبال کی نظم خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ سننے کو کہتا اور پھر مستی میں سر شار ہو کر اظہار کرتا کہ مجھے ایسا لگتا ہے یہ نظم میری روح میں طلا تم بپا کیے رکھتی ہے۔ پاکستان سے اس کی محبت جنون کی حد تک تھی، وہ اپنے چھوٹے بھائی محمد بلال خان سے کہتا کہ یہ ملک اللہ اور اس کے رسولۖ کے نام پر قائم ہوا ہے اور اس کے لیے جان نثار کرنا کوئی مہنگا سودا نہیں، باپ سے ادب کے ساتھ جوشیلے انداز میں کہتا بابا جانی جب آپ نے میرا نام حسین بابا رکھ دیا تو دل سے ہر قسم کا ڈر اور خوف نکال دیجیے۔ میں کہتا کہ میں باپ ہوں ناں اس لیے تمہاری طرف سے فکر مند رہتا ہوں اور یہ ایک قدرتی امر ہے۔ اللہ تمہیں ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھے۔
حسین بابا جہانگیر کے اڑھائی سال چھوٹے بھائی محمد بلال خان نے اپنے آنسوئوں کو ضبط کرتے ہوئے بتایا کہ نجانے کیوں وہ جلدی جلدی مجھے مختلف چیزیں سکھارہا تھا، مثلاً کرکٹ کیسے کھیلتے ہیں، سائیکل کیسے چلاتے ہیں، موٹر سائیکل ایسے چلائی جاتی ہے اور کار ڈرائیو کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے، گرمی کی جھلستی ہوئی دھوپ میں ہم گھنٹوں کرکٹ کھیلتے رہتے۔ یہاں تک کہ وہ امتحانات کے دنوں میں بھی مجھے کھیلنے کے لیے بلا لیتا۔ وہ شروع ہی سے فوج میں جانے کے لیے پر جوش تھا۔ ابھی وہ نویں جماعت میں ہی تھا کہ اس نے مجھے بتایا میں اللہ کی خاطر شہید ہونا چاہتا ہوں۔ ہمارا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے اس لیے حضرت امام حسین کو اپنے لیے نمونہ عمل سمجھتا تھا اور ان ہی کی طرح خدا کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنا چاہتا تھا۔ پہلی مرتبہ وہ ISSB میں ناکام ہو گیا۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری، مزید جوش و خروش کے ساتھ تیاری کی اور دوسری مرتبہ وہ ISSB کے لیے ملیر کینٹ کراچی گیا اور جب منتخب ہو گیا تو اس کے گالوں پر خوشی کے آنسو آ گئے اور مجھے ہنستے ہوئے بتایا کہ میں فوج کے لیے منتخب ہو گیا ہوں، بلال خان نے بتایا کہ میں خود اپنے والد کے ساتھ اسے پی ایم اے کاکول چھوڑنے کے لیے گیا۔
یہ 26 مارچ 2018 کا مبارک دن تھا جب حسین بابا جہانگیر 141 پی ایم اے لانگ کورس کی تربیت مکمل کرنے کے لیے ایبٹ آباد کاکول میں اپنے جنون کی تکمیل کے لیے پہنچ چکا تھا۔ اور دو سال بعد 14 اپریل 2020 کو پاسنگ آئوٹ پریڈ ہوئی۔ اس دوران ملک میں کرونا کی وبا پھیلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ہم اس کی پاسنگ آئوٹ میں شریک نہیں ہو سکے۔ اس کی پہلی پوسٹنگ جھاڑی کس کشمیر میںتعینات پنجاب رجمنٹ میںہوئی۔ یہ کسی بھی سیکنڈ لیفٹیننٹ کے لیے ایک منفرد تجربہ تھا۔ پاسنگ آئوٹ کے بعد اب وہ بالکل مختلف قسم کا انسان تھا۔ کبھی کبھار وہ بتاتا کہ لائن آف کنٹرول پرہماری فوج کو کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور حسین کے ساتھیوں نے بھی بتایا کہ وہ ہر قسم کی مشکلات کا مسکراہٹ کے ساتھ سامناکرتا ہے اوہ پھر وہاں سے وہ کورس کے لیے کوئٹہ چلا گیا، پھر اس کے بعد SSG کی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعدلائٹ کمانڈو بٹالین میں فرائض سر انجام دینے لگا۔ مارچ 2023 میں اس کو کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے دی گئی، اس دوران کیپٹن حسین بابا جہانگیر نے شمالی وزیرستان کے پر خطر علاقے میں کئی اہم آپریشنوں میں حصہ لیا۔
پی ایم اے کاکول اور شمالی وزیرستان سے جب بھی اسے چھٹی ملتی وہ اپنے نانا اور نانی کے پاس راولپنڈی چلاجاتا اور اگر چھٹی زیادہ ملتی تو والدین اور بھائی بہنوں سے ملنے رحیم یار خان آجایا کرتا تھا۔ جہاں وہ خصوصی طور پر اپنے چھوٹی بھائی سے شہادت کے موضوع پر گفتگو کرتا۔ 2023 میں عیدِ قرباں کے موقع پراسے چھٹی نہیں ملی تو والدہ، بہنیں اور بھائی اس سے ملنے کے لیے پشاور چلے گئے جہاں وہ اینٹی ٹیرارسٹ پلٹون میں ڈیڑھ سال سے پلٹون کمانڈر کی ڈیوٹی خوش اسلوبی سے ادا کر رہا تھا۔ وہاں اس نے گھر والوں کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ پشاور کینٹ میں جو یادگارِ شہداء پر نام لکھے ہوئے ہیں وہ سب اسے زبانی یاد ہیں اور نہایت جذباتی انداز میں اس نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب کسی خطرناک آپریش میں مَیں دشمن پر حملہ آور ہوتا ہوں تو ہر مرتبہ ایک شہید کا نام لے کرکہتا ہوں یہ میرے اس شہید کا بدلہ ہے جسے میں اب چکا رہا ہوں اور یہ میرے فلاں شہید کی طرف سے انتقام ہے اور مجھے اس طرح اپنے ہر شہید کا قرض چکانا ہے۔
اس نے لائٹ کمانڈو بٹالین میں شمولیت کے بعد کئی کامیاب آپریش کیے، جب وہ گھر آتا تو اپنے چھوٹی بھائی کے ساتھ کمرے میں سوتا اوراسے سمجھاتا کہ اب زیادہ ذمہ دار بنو، مجھے شہادت چاہیے۔ کون سی گولی پر میرا نام لکھا ہے مجھے پتا نہیں لہٰذا میری شہادت کے بعد ماما، بابا اور بہنوں کو تم نے سنبھالنا ہے۔ محمد بلال خان معصومیت سے جواب دیتا بھائی آپ انشا اللہ کامیاب اور غازی بن کر لوٹیں گے۔ لیکن اس نے ہمیشہ یہی کہا کہ میں شہادت کا درجہ حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ بالآخر 26 مئی 2024 کو میرے بہترین دوست اور بھائی کے بارے میں مجھے یہ افسوسناک خبر سننے کو ملی جس کے بارے میں اگلے روز آئی آیس پی آر نے بھی اس خبر کی تصدیق میں بیان جاری کیا کہ پشاور کے ضلع حسن خیل کے علاقے میں انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنکیا گیا جس میں پانچ دہشت گرد مارے گئے۔ آپریشن کے دوران پاک فوج کے دستے نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا مؤثر انداز میں پتہ لگایا اور پانچ دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا جبکہ تین دہشت گرد بری طرح زخمی ہوئے۔ البتہ فائرنگ کے تبادلے کے دوران 25 سالہ کیپٹن حسین بابا جہانگیر جو دلیرانہ انداز میں دستے کی قیادت کر رہے تھے اور 36 سالہ حوالدار شفیق اللہ نے جامِ شہادت نوش کیا۔
کیپٹن حسین بابا جہانگیر کے والد محترم بیان کرتے ہیں کہ میرے بیٹے نے کلامِ پاک کی تعلیم معظمہ نور بی بی سے حاصل کی تھی اور ہر روز باقاعدگی سے اس کی تلاوت ذوق و شوق سے کرتا تھا اور اب اکثر جب میں اس شہید کی قبر کے سرہانے بیٹھتا ہوں تو قرآن شریف کی تلاوت کرتا ہوں اور درود شریف بھی پڑھتا ہوں۔ کافی نوجوان بچے مجھ سے آکر کہتے ہیں کہ انکل آپ ہمارے لیے بھی دعا کریں کہ ہم فوج میں آپ کے بیٹے کیپٹن حسین بابا جہانگیر کی طرح منتخب ہو کر ملک و ملت کی خدمت کرتے ہوئے شہید ہو جائیں۔ درحقیقت حسین بابا کی شہادت نے رحیم یار خان کے جوانوں کو حب الوطنی اور شہادت کے جوش و جذبے سے سر فراز کر دیا ہے۔
مضمون نگار قومی و ملی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے