سپاہی حمزہ ظہیر کے حوالے سے نسیم الحق زاہدی کا مضمون
پاک فوج کے جوان اپنی بہادر ی اور صلاحیتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں ۔یہ جذبہ شہادت ہی ہے جو پاک فوج کو دنیا کی دیگر افواج سے ممتاز بناتا ہے۔یہ بہادر نوجوان ملک کی بقاء کے لیے اپنی زندگیاں دے کر باقی قوم کی زندگی کو یقینی بناتے ہیں۔ وطن کا ایک اور سرفروش، سپاہی حمزہ ظہیراپنی جان کی قربانی دے کر قوم کو حیات دے گیا۔سپاہی حمزہ ظہیر فیصل آباد کے علاقہ غلام محمد آباد میں جون 2001ء کو ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے بہن بھائیوںمیں سب سے بڑے تھے دو بھائی اور دوبہنیں ان سے چھوٹی ہیں ۔ان کے والد کی ٹائر وں کی دکان ہے ۔گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول غلام محمد فیصل آباد سے 2020ء میں امتیازی نمبروں کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ شہید کے والد سید ظہیر عباس بخاری بتاتے ہیں کہ ان کے بڑے بھائی سید غلام شبیرجوکہ پاک فوج سے بطور حوالدار ریٹائرڈ ہیں ،ان سے شہید حمزہ ظہیر کوکافی زیادہ لگائو تھا اور اس کی وجہ پاک فوج تھی۔ حمزہ ظہیر کو بچپن سے ہی پاک فوج میں جانے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ حمزہ ظہیرنے میٹرک کے فوراً بعد آرمی بھرتی سنٹر فیصل آباد میں ٹیسٹ دیا جس میں وہ پاس ہوگیا۔جس دن اس کو آرمی میں سلیکشن کالیٹر موصول ہوا تھا وہ دن ہماری زندگی کاسب سے یاد گار دن تھا ۔حمزہ کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ اس نے پورے خاندان میں مٹھائی تقسیم کی اور07جولائی 2021ء کو آرمی ٹریننگ سنٹربونجی گلگت کے لیے روانہ ہوا ۔حمزہ پہلی بار گھر سے اتنی دور جارہا تھا اس کی والدہ اس کے اتنا دور جانے پر کافی اداس تھیں اور اس کی چھوٹی بہنوں نے تو رو رو کر برا حال کرلیا تھا۔میں بڑا حوصلہ کرکے اپنے لخت جگر کو پہلی بار اتنی دور بھیج رہا تھا مگر اس بات کی خوشی تھی کہ حمزہ پاک فوج میں قوم وملک کی حفاظت کے لیے جارہا تھا۔
ٹریننگ کے بعد 30دسمبر2021ء کواس کی بطور سپاہی پہلی پوسٹنگ این ایل آئی رجمنٹ لاہور میں ہوئی ۔شہید کے والد بتاتے ہیں کہ دوران ٹریننگ حمزہ سے رابطہ کرنے میںسنگلز کی وجہ سے کافی مشکل آتی تھی، جب لاہور میں پوسٹنگ ہوئی تو ہم سب بہت خوش تھے کہ حمزہ قر یب آگیا ہے مگر ایک ماہ گزارنے کے بعد ان کی یونٹ کو بلوچستان پسنی گوادر میں بھیج دیا گیا۔شہید کے والد بتاتے ہیں کہ شہید پانچ وقت کا پکانمازی اور ایک ایسا محب وطن تھا جسے اپنی دھرتی سے عشق تھا جس کی ابتداء بھی وطن تھا جس کی انتہا بھی وطن تھا۔ ایک پرخلوص ،محبت کرنے والا اور دوسروںکے دکھ درد باٹنے والاانسان تھا۔ ایک مرتبہ چھٹی پر جب گھر آیا تو اپنی والدہ سے کہنے لگا کہ امی جان!شہادت بہت بڑا مرتبہ ہے اور یہ قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے آپ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے شہادت کی موت نصیب فرمائے،اس بات پر اس کی والدہ اور اس کی بہنیں رونے لگیں۔ حمزہ میرا بیٹا ہونے کے ساتھ ساتھ میرا بہترین دوست بھی تھا ایک دن دکان پر آیا اور کہنے لگا کہ ابو!اولاد کی پہچان ہمیشہ اپنے باپ سے ہوتی ہے مگر آپ دیکھ لیجیے گا کہ لوگ آپ کوبیٹے کے نام سے جانیں گے کہ وہ دیکھو شہید حمزہ کے ابو جارہے ہیںاور میرا حمزہ یہ ثابت کرگیا کہ اچھی اولاد واقعی والدین کی عزت میں اضافہ کرواتی ہے، یہ بات کرتے ہوئے وہ رونے لگے۔شہید کی والدہ بتاتی ہیں کہ شہید حمزہ نے مجھے بچپن سے لیکر جوانی تک کسی بھی معاملے میں کبھی تنگ نہیں کیا ،انتہائی سادہ طبیعت کا مالک تھا۔ کھانے میں جو بھی دے دیا خاموشی سے کھا لیتا ،کبھی جوتوںیاکپڑوں وغیرہ کے لیے تنگ نہیں کیا،کبھی کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سے مجھے شرمندگی اٹھانا پڑی ہو،پورے خاندان میں حمزہ کو پسند کیا جاتا اور اس کے اخلاق کی مثالیں دی جاتی تھیں ۔شہید حمزہ پہلی اولاد ہونے کے ناتے مجھے بہت زیادہ پیارا تھا ،اس سے آگے شہید کی والدہ سے بات نہ ہوسکی اور وہ اپنے لخت جگر کی تصویر کو بانہوں میں لے کر رونے لگیںاور کہنے لگیں کہ پاک فوج کے خلاف باتیں کرنے والے کیا جانیں کہ جوان بیٹوں کی لاشوں کو اٹھانا بوڑھے والدین کے لیے کتنا تکلیف دہ اور مشکل ہوتا ہے۔مجھے فخر ہے اس بات پر کہ میرے بیٹے نے اپنی جان کی قربانی دے کر سیکڑوں مائوں کی گودوں کو اُجڑنے سے بچا لیا ہے۔
شہید حمزہ کے والد بتاتے ہیں کہ ہم سب گھر والوں کی شدید خواہش تھی کہ حمزہ کی شادی ہوجائے ،اسکی والدہ اور بالخصوص چھوٹی بہنیں بار بار حمزہ کوشادی کا کہہ رہی تھیں۔ وہ آخری بار چھٹی پر جب گھر آیا تو ہم نے بہت زور دیا کہ اس کی منگنی ہوجائے مگر حمزہ نے کہا کہ اگلی بار لمبی چھٹی پر آئونگا تو پھر آپ کرلیجیے گا۔وہ آخری بار جاتے ہوئے محلے میں سب دوستوں کو کہہ کر گیا تھا کہ اب کے بار میں شہید ہوکر سبز ہلالی پرچم میںلپٹا ہوا آئو ںگا اور دیکھ لینا کہ میرے سینے پر گولیاں لگی ہوںگی۔شہید کے والد بتاتے ہیں کہ شہید حمزہ نے انہیں شہادت سے چند دن پہلے بتایا کہ وہ 6نومبر 2023ء کو پورے چالیس دن کی چھٹی پر آرہا ہے ۔اس خبر پر پورے گھر میں خوشی کا سماں تھا ۔شہید کی والدہ اوربھائی اور بہنیں بڑی شدت سے 6نومبر کاانتظار کررہے تھے ،اس بار شہید کی منگنی کی رسم ہونی تھی۔شہید کے والد نے بتایا کہ 2نومبر 2023ء کو رات تقریباً سات ساڑھے سات بجے مجھے کال آئی کہ آپ کا بیٹا حمزہ دہشت گردوں کے حملے میںبڑی بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگیا ہے اور ہم ان کا جسد خاکی لے کر آرہے ہیں۔ایک لمحے کے لیے میں حالت سکتہ میں چلا گیا ،پھر میں نے خود کو سنبھالا رب تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے میرے بیٹے کو شہادت کے لیے چنا ۔میں نے بڑی ہمت کرکے یہ خبر گھر والوں کو سنائی۔ رونا ایک فطری عمل ہے اورجو والدین اپنے بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کے خواب دیکھ رہے ہوں ان کو جوان بیٹے کی لاش اٹھانی پڑ جائے تو ان کا کیا حال ہوگامت پوچھیے۔
شہید کے والد سید ظہیر عباس بخاری بتاتے ہیں کہ میرے بیٹے حمزہ ظہیرشہید اور دیگر فوجی جوانوں کی نماز جنازہ پسنی میں ادا کی گئی جس میں اعلیٰ فوجی افسران اور جوانوں نے شرکت کی۔ اس کے بعدشہید کے جسد خاکی کو سبز ہلالی پرچم میں لپیٹے C130طیارے کے ذریعے پسنی سے PAFسرگودھا ائیر بیس پر لایا گیا ،وہاں سے پھر ایمبولینس کے ذریعے فیصل آباد لایا گیا۔شہید کے والد بتاتے ہیں کہ لوگوںنے منوں پھولوں کی پتیوں کے ساتھ شہید کااستقبال کیا ،لوگوں کی محبت کا یہ عالم تھا کہ گھر سے قبرستان تک کا پندرہ منٹ کا فاصلہ تین گھنٹوں میں طے ہوا ۔شہید سپاہی حمزہ ظہیر کے جنازے میں سیاسی وسماجی شخصیات ، پولیس افسران سمیت سیکڑوں افراد نے شرکت کی ۔شہید کی تدفین پورے فوجی اعزاز کے ساتھ کی گئی ،گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔وطن کا ایک اور بیٹا وطن کی سلامتی اور بقاء کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے دھرتی سے اپنی وفا کا حق ادا کرگیا۔شہید کے والد بتاتے ہیں کہ بے شک ہر والدین کو اپنے بیٹیبہت عزیز ہوتے ہیں مگر مجھے اپنا وطن اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ عزیز ہے ،اگر وطن کی سلامتی اور بقاء کے لیے وطن کو میری جان کی بھی ضرورت پڑے تو میں ہر وقت حاضر ہوں ۔
میرے محبوب وطن تجھ پہ اگر جاں ہو نثار
میں یہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایۂ تن
جس قوم کے جوانوں اور شہداء کے والدین کا یہ جذبہ ہو، اس ملک پر کبھی آنچ نہیں آسکتی۔۔۔
دل سے نکلے گی نہ مرکر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی۔
مضمون نگارمختلف قومی اخبارات ا ور رسائل میں لکھتے ہیں ا ور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے