کیپٹن فراز الیاس شہید کے حوالے سے رابعہ رحمن کی تحریر
کیپٹن فراز الیاس شہید کے والد صوبیدار میجر(ر) الیاس سے ملاقات ہوئی، چہرے کی جھریوںمیں فخر کا پیغام واضح نظرآرہاتھا، وہ جس استقامت اور عزم کے ساتھ اپنے بیٹے کی شہادت پہ تابوت کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چل رہے تھے وہ پیغام تھا دشمنوںکے لیے کہ ہم تمہیں قدموں تلے روندنے کے لیے قربان بھی ہوتے رہیں تو غم نہیں۔
صوبیدار میجر (ر)الیاس انتہائی فرض شناس اور ایماندار سپاہی ہیں۔ وطن سے جتنی محبت رکھتے ہیں ان کا اندازہ ان کے بیٹوں کے بدن پہ سجی وردیاں بتاتی ہیں، بڑا بیٹا اویس الیاس سول جج ہے، کیپٹن ایاز الیاس، پھر کیپٹن فراز الیاس (شہید)،حمزہ الیاس عبدالہادی فارمیسی ڈیپارٹمنٹ میںہے اور چھوٹا بھائی عبدالاحد الیاس حافظ قرآن بن رہاہے۔ کیپٹن فراز الیاس شہید کاگھر لاہور میں رائے کلاں،پوسٹ آفس مصطفی آباد،تحصیل وضلع قصورمیں ہے، اتنے شیرجوان بیٹے کے والدین سے ملنے کے لیے دل بہت بے چین تھا۔ ان کے گھر جانے کا وقت طے ہوا جیسے ہی ان کے گائوں کی طرف گاڑی نے موڑکاٹا تو فضائیں کہنے لگیں۔
شہادت ہے مطلوب مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
اطراف میں لہلہاتے کھیت تھے کچھ دور کچی پگڈنڈی سیدھے ہاتھ کو مڑ رہی ہے اور اس کے اوپر بورڈلگاتھا، کیپٹن فراز شہید کی آخری آرام گاہ۔ اپنے شہید سے ملے بنا آگے بڑھنے کو دل نہیں ماناتوسبزجھنڈے تلے مدفون اس شہیدکی تازہ قبر پہ فاتحہ خوانی کی اور پھر گائوں کے رخ ہوئے۔کیپٹن فراز الیاس شہید کے بھائی کیپٹن ایاز گلی کے کونے میں ہمارا انتظارکررہے تھے۔
دروازے سے داخل ہوئے تو کیپٹن فراز الیاس شہید کے والد اور والدہ چارپائی پر بیٹھے تھے، گائوں کی تہذیب وہاں پہ رچی بسی نظرآرہی تھی، سادگی، اپنائیت اور مہمان نوازی اس بات کامنہ بولتا ثبوت تھی کہ یہاں کے پرورش کردہ بیٹے بیٹیاں کتنے انمول ہونگے۔
والدہ شمیم اختر سے گفتگو ہوئی تو وہ کہنے لگیں کہ کیپٹن فراز الیاس شہید لاہور میں پیدا ہوا، میں الیاس صاحب کے تبادلے کے دوران ان کے ساتھ ہی بچوں کو لے کر ہراسٹیشن پہ رہی، چھوٹے سب بچوں نے آرمی پبلک سکول لاہور سے تعلیم مکمل کی، جب ہم اپنے گائوں میں ہوتے تو یہاں سے روزانہ پیدل میں ان بچوں کو سڑک تک لے جاتی وہاں سے بس پہ بیٹھ کر یہ سکول جاتے، ایک دن بھی میرے بچے دیر سے نہیں پہنچے، باقی بچوں سے مختلف میرا کیپٹن فراز الیاس شہید بیٹا سکول میں اساتذہ کا سب سے پسندیدہ شاگرد ہواکرتا تھا، چھوٹی جماعتوں کے اساتذہ سے لے کر بڑی جماعت تک کے اساتذہ اس سے رابطے میں تھے،کیپٹن فراز الیاس شہید میرا انمول ہیرا تھا، وہ ایسا سمندر تھا جس میں اس کے گرد کے تمام دریا گرتے تھے۔ وہ محبت تھا، وہ ایثار تھا ، وہ احساس تھا، وہ مسکراہٹ تھا، وہ غمخوار تھا، وہ راز دار تھا، وہ دوست تھا اور سب کا مددگار تھا، وہ اللہ کی طرف سے مستحقین کیلئے وسیلہ تھا، گائوں کے علاوہ جہاں بھی جاتا مسکین اور بے یارومددگار لوگوں کو تلاش کرتا اورپھر ان کا بن جایاکرتاتھا۔
والد کہنے لگے کہ کیپٹن فراز الیاس شہید جب چھوٹا تھا تو اس وقت سے ہی میرے فوجی جوتے اٹھاکر صاف کرتا اور سینے سے لگاتا، پھر مجھے پہناتا تو میں سوچا کرتا تھاکہ یہ ننھی سی عمر میں فوجی جوتے چومتاہے، میں اس کو فوجی وردی پہنائوں گا،یہ میرے ملک کی حفاظت کرے گا۔
بھائی کیپٹن ایاز کہنے لگے کہ ذمہ داریاں تو اس نے کبھی بانٹی ہی نہیں تھیں بلکہ ہم اس کی چھٹی پر آنے کے دنوںمیں سارے کاموں کی فہرست بناکر رکھتے کہ فراز آئے گا تویہ کام کرے گا، ماں کی اپنی فہرست ہوتی، بہنوں اور بھائی کی اپنی، ہر بات پہ وہ کہتا آپ فکر نہ کریں امی میں نے آناہے اور آپ کے سارے کام ہوجانے ہیں۔
بہنوںصائمہ اور عاصمہ کا لاڈلا بھی اور دوست بھی، بڑی بہن صائمہ سے تو دل کی ہربات کرتاتھا۔رمضان المبارک میں ساری افطاری کیپٹن فراز شہید بنا کردسترخوان بچھاتا اور ماںسے کہتاکہ بس آپ آکر بیٹھ جائیں۔گھر کا سودا اس کے ہوتے ہوئے کبھی ختم نہیں ہواکرتا تھا۔ وہ توماں کے ساتھ باورچی خانے میں بیٹیوں کی طرح کام کرواتے تھے۔ماں کہنے لگی کہ اللہ نے نہ جانے مجھے کیسا خوبصورت تحفہ عطاکیا تھا مگر اس نے بہت جلد اپنا تحفہ واپس لے لیا۔
کیپٹن فراز الیاس شہید8مئی2018ء کو141لانگ کورس کے ساتھ پی ایم اے گئے اور4اپریل2020ء میں پاس آئوٹ ہوئے، ان کے گھر والے ان کی پاسنگ آئوٹ پر کرونا وبا ء کی وجہ سے نہ جاسکے اور وہ پی ایم اے سے کھاریاںمیں تعینات ایک آرڈیننس کی یونٹ میںبھیج دیئے گئے۔
وہ دو سال اپنی یونٹ میںایڈجوٹنٹ اور کوارٹرماسٹر رہے، انہوں نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھایا، انہوں نےYoung Officers Course، Young Course InfantryاورOrdianceشاندار کامیابی سے مکمل کیے۔ پھر وہ لکی مروت آپریشن ایریامیں بھیج دیئے گئے۔ ابھی انہیں وہاں گئے ہوئے 9ماہ ہوئے تھے، سلطان خیل گائوںمیں کچی قمر ان کی پوسٹ تھی، جہاں تقریباً80لوگ موجود تھے وہاں سینئر موسٹ کیپٹن فراز الیاس ہی تھے۔یہاں پر کچھ دنوں پہلے ہی فائرنگ ہوئی تھی جس میں ان کا ایک جوان زخمی ہوا تویہ اپنے جوان کو اٹھاکر لائے جوکہ اب صحت یاب ہوچکاہے، کیپٹن فراز الیاس شہید انتہائی قابل منتظم تھے، جس طرح گھروالے کیپٹن فراز الیاس شہید کے انتظامی امور کی کارکردگی پر آفرین کیاکرتے ہیں اسی طرح اپنی پوسٹ پر بھی وہ اعلیٰ پائے کے منتظم، انتہائی حلیم اور انسان دوست کے طور پر جانے پہنچانے جاتے تھے۔
9جون کوجب یہ حادثہ ہوا تھااس وقت وہ Relief Rotationکے لیے ٹیم لے کر نکلے تھے، یعنی کے چھٹی جانے والوں کو لانا تھا اور چھٹی سے واپس آنے والوں کو پوسٹپر چھوڑنا تھا، وہ راستہ صرف فوجی گاڑیوں کا تھا وہاں سول گاڑی نہیں چلتی تھی ، وہاں پر ہیIEDنصب تھی جسے اڑایا گیا، یہ تین گاڑیاں تھیں۔کیپٹن فراز الیاس شہید ہمیشہ سب سے آگے ہواکرتے تھے اس دن بھی ان کی گاڑی پہلے نمبر پہ تھی، پس وہی نشانہ بن گئی، اس میں7لوگ تھے جوکہ شہادت پاگئے۔
اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
کیپٹن فراز شہید کے جنازے میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف ،کور کمانڈر لاہور اور اعلیٰ سول اور فوجی حکام کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں عوام الناس نے شرکت کی ۔ شہید کیپٹن فراز کے والد نے کہا کہ وہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے بہت شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے جواں سالہ بیٹے کے جنازے کو نہ صرف کندھا دیا بلکہ تدفین تک وہاں موجود رہے اور ہمارے گاؤں کو ماڈل ولیج بنانے کے ساتھ ساتھ سڑک کی ازسرنو تعمیر کا اعلان بھی کیا اور اس کے ساتھ گاؤں اور مذکورہ سڑک کو کیپٹن فراز شہید کے نام سے منسوب کرنے کا بھی اعلان کیا۔
کیپٹن فراز الیاس شہید کا ماں انتظارکررہی تھیں کہ اس بار اس نے آنا تھا توگھرکا ACلگواناتھا، بھائی ایاز کی کار ٹھیک کروانی تھی، گھرمیں سولر لگوانے کے لیے اس نے بینک سے کاغذات تیار کروا رکھے تھے، ماں نے کیپٹن فراز الیاس شہید کے لیے بہت سے کام روک رکھے تھے۔سارے کام ہی ادھورے رہ گئے تھے، بہن بھائیوں کی محفلیں سونی ہوگئیں، بہنوں کے دل اُجڑ گئے۔ ماں کہنے لگیں میرا روزہ تھا۔9جون کومیں صبح ہی جلدی جلدی کام کررہی تھی، دس گیارہ کے قریب میرا دل گھبرانے لگا، میں نے ایاز سے کہا بیٹا فراز سے بات نہیں ہوئی۔
مجھے تو خبر ہی نہ تھی کہ میرا فراز تو اللہ کے دربار میں حاضری دینے جا پہنچا تھا۔ ادھر میرے بیٹے اویس نے بھائی فراز شہید کو کال کی تو فراز شہید نے کال نہ اٹھائی، وہ گھبرا گیا اور کرسی پہ بیٹھ گیا، پانی مانگا دل اس کا بہت گھبرا رہاتھا اس نے کہاکہ مجھے لگ رہاہے کہ فراز نہیں رہا۔ وہ بھائی تھا، واقعی تھوڑی دیر بعد کال آگئی وہ خبر سچ ثابت ہوئی۔ ماں تو بس منتظر تھی کہ میرا بیٹا فراز آئے اورمیں اس کا ماتھا چوم سکوں،انہیں کیا پتہ تھا کہ وہ یہ ماتھا آخری بارچومیں گی۔کیپٹن فراز شہید کی بڑی بھابھی مسز اویس نے ان بچوں کو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی طرح پالااب وہ رو رو کے بے حال ہوجاتی ہیں، بہنوں کا دل نہیں لگتا مگرماں کہتی ہیں کہ وہ میرا انمول ہیرا تھاہمارا اس گائوںمیں کیپٹن فراز شہید کے بغیر دل نہیں لگتا، کھیت کھلیان، چرندپرند یہ گلیاں سب فراز شہید کو پکارتی ہیں اب ان فضائوںمیں اسی کا نام سنائی دیتاہے۔لیکن ہمارے خاندان کے سبھی لوگوں کا سر بھی فخر سے بلند ہوگیا ہے کہ ہمارے کسی جگر گوشے نے وطن کی سلامتی کویقینی بنانے کے لیے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ اﷲ شہید کے درجات بلند کرے۔
مضمون نگار ایک قومی اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
[email protected]
تبصرے