عصر حاضر میں دنیا کے بیشتر ممالک میں رائج نظام حکومت کو جمہوری طرز حکمرانی کہا جاتا ہے۔ جمہوری طرز حکمرانی میں ہر ایک مخصوص مدت کے بعد جو اکثر ممالک میں چار سال اور بعض میں پانچ یا چھ سال پر مبنی رہتی ہے، عام انتخابات کے ذریعے عوام اپنے منتخب شدہ نمائندوں کو ایوان نمائندگان میں بھیجتے ہیں جہاں عددی اکثریت کی بنیاد پر ملک میں رائج قوانین اور آئین کے مطابق حکومت سازی کا عمل ترتیب پاتاہے جس کے بعد اگلی مدت تک ملک کے نظم و نسق کو چلانے کے لیے یہ منتخب جمہوری حکومت اپنے فرائض منصبی ادا کرتی ہے۔ یاد رہے کہ ان ممالک میں عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے اراکین کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں غیرمنتخب افراد بھی ریاستی و سرکاری عملداری کے لیے کل وقتی طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ان افراد کو عام طور سے عوامی سہولیات و سماجی انصاف کی فراہمی اور انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے غیرمنتخب ارکان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ریاست اور سرکار کے وہ مستقل ملازمت کے حامل اہلکار ہوتے ہیں جو منتخب اراکین کی بنائی ہوئی پالیسیز اور ان کی جانب سے لیے گئے مفاد عامہ کے فیصلوں پر عمل درامد کے لیے ریاستی معاون اور عملدار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ایسے ممالک جہاں جمہوری نظام میچور ہو چکا ہے، وہاں عام طور پہ منتخب اراکین اور غیر منتخب ارکان کے درمیان آئین اور قانون کے تابع ایک مثالی ورکنگ ریلیشن شپ نظر آتی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ جمہوری نظام حکومت کو کیوں کر دنیا کے بیشتر ممالک میں ایک مستند نظام حکومت سمجھا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر جمہوریت کے ارتقا پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ وہ نظام ہے جو کئی سو سال سے ترقی یافتہ ممالک میں مختلف مدارج اور تجربات سے گزرتے ہوئے اپنی موجودہ شکل کو پہنچاہے۔ مغربی اور مستحکم جمہوریتوں میں عمومی طور پر جہاں الیکشن، ووٹ اور جمہوریت کا عمل مسلسل، مستند، معتبر اور مضبوط ہو چکا ہے اور نظام بہت روانی سے چلتا ہے۔ بہر طور گزشتہ ایک دہائی کے دوران ڈیٹا سائنس،آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے مزیّن سوشل میڈیا کو فروغ حاصل ہوا جس میں ڈیٹا سائنس اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس انسانوں کیذہن سازی اور قوت فیصلہ پر غیر محسوس انداز سے اثر انداز ہونے کی ایک نہایت مؤثر صلاحیت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ یہ سلسلہ اس عملی مثال سے سمجھنا آسان ہوگا کا آپ کے موبائل پر جو سوشل نیٹ ورکس ہیں جیسے کہ فیس بک، یوٹیوب اور ٹک ٹاک وغیرہ ان پر مختلف اشیاء ضرورت، خور و نوش اور سامانِ تعیش کے سستے داموں ہوم ڈلیوری کے ساتھ فروخت کے اشتہارات اکثر صارفین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
مختلف قسم کی تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا پر دستیاب اور گردش کرنے والے اشتہارات خاص کر جب وہ ڈیٹا سائنس اور مصنوعی ذہانت سے مزیّن ہوتے ہیں، وہ اور زیادہ مؤثر ہو جاتے ہیں اور کئی مرتبہ وہ ایسے افراد کو بھی خریداری کی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو عام حالات میں ان اشیا کی خریداری کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ڈیٹا سائنس اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے ٹارگٹ شدہ سوشل میڈیا صارفین کی کسی بھی بارے میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت پراثر انداز ہوتے دیکھ کر دنیا میں کئی افراد، طبقات، گروہوں یہاں تک کہ حکومتوں میں اس بات کا ادراک پیدا ہوا کہ اسی ڈیٹا سائنس اور مصنوعی ذہانت سے مزیّن سوشل میڈیا کا استعمال عوام کی سیاسی سوچ، نظریات اور ووٹ کے حوالے سے فیصلہ سازی کی صلاحیت پراثر انداز ہونے کے لیے بھی آزمایا جا سکتا ہے جس کے بعد ہم نے دیکھا کہ دنیا بھر میں، امریکہ سے لے کر پاکستان تک اور یورپ سے لے کر بھارت تک جہاں جہاں بھی انتخابات کا معاملہ درپیش رہا، سیاسی جماعتوں نے اپنی مہمات اور وسائل کا ایک بڑا حصہ سوشل میڈیا پر ڈیٹا سائنس اور مصنوعی ذہانت سے مزیّن اور پاپولسٹ بیانیوں سے لبریز کیمپین چلانے کے لیے استعمال کیا۔ بلا شبہ جمہوریت میں عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ پارلیمانی نظام سیکڑوں سال سے ایک بہترین طرز حکمرانی سمجھا جاتا ہے لیکن آج کے دور میں ڈیٹا سائنس اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے مخصوص پاپولسٹ نظریات اور جارحانہ رجحانات کے حامل بیانیہ بہت تیزی سے رائے عامہ کو متاثر کرتے نظر آئے ہیں۔
امریکی انٹیلی جنس کے مطابق، 2016 کے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کی سنگین بازگشت سنائی دے رہی تھی جس کے بظاہر مقاصد میں ہیلری کلنٹن کی صدارتی مہم کو سبوتاژ کرنا، ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کو آگے بڑھانا اور امریکہ میں سیاسی اور سماجی اختلافات کو ہوا دیکر سماجی تقسیم کو بڑھاوا دینا شامل تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ 'پروجیکٹ لکھتا' (Project Lakhta) نامی اس روسی آپریشن کا حکم صدر ولادیمیر پیوٹن نے براہ راست ہیکنگ اور ڈس انفارمیشن مہم کے ذریعے ہیلری کلنٹن کی مہم کو نقصان پہنچانے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو رشیا گیٹ کے نام سے مشہور اسکینڈل کا مرکز بننے میں مدد دینے کے لیے دیا تھا۔ امریکی صدارتی انتخابات کے بعد کہ جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب رہے، تیار ہونے والی 448 صفحات پر مشتمل 2019 کی مولر رپورٹ (Mueller Teport)میں ٹرمپ مہم اور روسی حکام کے درمیان 200 سے زائد رابطوں کا جائزہ لیا گیا لیکن یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ٹرمپ یا ان کے ساتھیوں کے خلاف کسی سازش یا ہم آہنگی کے الزامات قانونی چارہ جوئی کے لیے ناکافی رہے ہیں ۔ اسی طرح ہمیں یاد ہے کہ 2018 کے دوران برطانیہ میں کیمبرج اینالیٹیکا نامی ایک سیاسی مشاورتی فرم تھی جو فیس بک، کیمبرج اینالیٹیکا ڈیٹا سکینڈل میں بدنام ہوئی، اس کمپنی نے فیس بک کے لاکھوں صارفین سے ان کی رضامندی کے بغیر انکا ذاتی ڈیٹا حاصل کیا اور اسے ووٹر پروفائلز بنانے کے لیے استعمال کیا۔ برطانیہ میں عام انتخابات پر اثر انداز ہونے والا یہ سکینڈل خبروں کی زینت بنا اورسکینڈل کے باعث فیس بک کے ڈیٹا پرائیویسی بابت طریقوں پر بڑے پیمانے پر تنقید ہوئی، جبکہ اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد کیمبرج اینالیٹیکا نامی فرم نے اپنا کاروبار بند کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
پاکستان میں بھی 2018 سے 2021 کے دوران اچانک وسیع پیمانے پر ایک جارحانہ سوشل میڈیا مہم کا آغاز ہوا جس نے زرخیز ذہنوں کو تقسیم کرنے والے پاپولسٹ بیانیے کے ساتھ عوام اور ملک کو انتہائی تیزی سے سیاسی عدم استحکام کے بھنور میں پھنسا دیا جس کے فوری بعد معاشی بدحالی سے عوام کا دم گھٹنے لگا۔ مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا سائنس سے مزیّن اس سوشل انجینئرنگ کو رائے عامہ کی نفسیاتی کنڈیشننگ کے لیے استعمال کیا گیا۔ ڈیٹا سائنس اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس الگاردمز کے جدید امتزاج کے ساتھ بیانیے کا یہ سیلاب اس قدر شدید تھا کہ پاکستانیوں کی اکثریت اس سے متاثر ہوئی اور عوام میں تقسیم پیدا ہو گئی جس سے معاشرے کے سماجی تانے بانے تک متاثر ہوئے، خاندانوں میں بھی یہی تقسیم دیکھنے میں آئی، بھائیوں اور دوستوں نے آپس میں تلخ بحث شروع کر دی، جس کے بعد سماجی ماہرین کے سامنے عوامی رائے کو منظم سائنسی ہیرا پھیری کی مدد سے نظام کو ہائی جیک کرنے کے خوفناک مقاصد سامنے آئے۔
امید ہے کہ جلد ہی وہ وقت آئے گا جب عوام کی توجہ اس لوپ ہول کی طرف مبذول کروائی جاسکے گی اور وہ جان سکیں گے کہ ڈیٹا سائنس، مصنوعی ذہانت اور سوشل میڈیا کے امتزاج کے ساتھ،بعض عناصر نے ان کے شعور اور ان کے ووٹ دینے کے فیصلے کو بڑی حد تک متاثر کیا ہے اور اگر پاپو لزم، ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے اس مہلک امتزاج اور اس سے جڑی باریکیوں کو درست طور پر نہیں پرکھا اور سمجھا گیا تو پھر جمہوریت ہی کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے اور آزادانہ عوامی ووٹ کا تصور دم توڑ دیگا اور دنیا کی طاقتور حکومتیں ڈگمگاتی دکھائی دیںگی۔
مضمون نگار تجزیہ کار ہیں اور ایک ٹی وی چینل کے ساتھ بطورِ اینکر وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے