مواصلات اور دہشت گردی کا ساتھ انسانی تاریخ سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ چاہے وہ قدیم دہشت گرد تنظیمیں زیلٹ اور سیکاری ہوں یاقرون وسطی کے کروسیڈرز، مواصلات اور ابلاغیات دہشت گردی کا لازمی جزو رہا ہے۔ ویسے تو جرم اور دہشت گردی کی تخصیص مشکل ہے، کیونکہ دونوں ایک مجرمانہ فعل ہیں۔ لہٰذا تفریق صرف اس بات پر کی جا سکتی ہے کہ دہشت گردی کے زمرے میں آنے والے جرائم بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پھیلانے کا باعث بنتے ہیں اور اس خوف و ہراس کا بڑے پیمانے پر پھیلائو ہی واضح کرتا ہے کہ ذرائع مواصلات دہشت گردی میں کتنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی لیے عام مشاہدے میں آتا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات بہت عوامی نوعیت کے ہوتے ہیں اور شہرت اور زبان زدِ عام تذکرہ کے واضح محرکات ہوتے ہیں۔ بر عکس دیگر جرائم کے دہشت گردی کے واقعات انفرادی نوعیت کے نہیں ہوتے۔ دہشت گردی کا نشانہ نظریات، ریاست، ریاستی نظام، مذہب اور سماجی رویے ہوتے ہیں۔ بھلے ہی دہشت گردی کا ظاہری اطلاق انفرادی نوعیت کا ہو، مگر درپردہ نشانے پر اجتماعی نظام ہوتا ہے۔ اس کا بظاہر نشانہ بھلے ہی ایک عبادت گاہ، ایک مذہب، فرد یا عمارت ہو، اس کا فکری اطلاق ہمیشہ مجموعی ہوتا ہے۔
دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ بڑے پیمانے پر خوف پھیلانے کا باعث صرف اسی صورت میں بن سکتا ہے، اگر اس کی تشہیر کی جائے، اور یہ مواصلات کے بنا ممکن نہیں۔ چند لوگ جو دہشت گردی کے واقعے کے عینی شاہد یا متاثرین ہوتے ہیں وہ اپنے پرخوف تجربات کو پھیلاتے ہیں اور زبانِ زدِ عام کرتے ہیں، نتیجے میں معاشرے اور سماجی رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بیسویں صدی میں مواصلات اور دہشت گردی کے باہمی تعلق کو مواصلاتی دہشت گردی کا نام دیا گیا۔ بیسویں صدی کی مواصلاتی دہشت گردی ری ایکٹو سے پرو ایکٹو ہو گئی۔ سرد جنگ اس کا واضح ثبوت ہے جس میں مواصلاتی دہشت گردی کے نئے تجربات کیے گئے۔ جیسا کہ خوف اور دہشت پھیلانے کے لیے قتل و غارت کے بجائے ابہام اور بے یقینی کے بیج بونا، ماضی کی طرح ریاستوں اور معاشروں کو ہراساں کرنے کے لیے مار دھاڑ اور خون بہانے کے بجائے کمیونیکیٹو سٹرافنگ کی جانے لگی۔ یہ وہی دور ہے جس میں مواصلاتی ادارے اور این جی اوز کی بھرمار ہمارے سامنے آتی ہے جو بظاہر بے ضرر پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ خفیہ منصوبوں پر بھی کارفرما رہتے ہیں۔ جو چیز پہلے ذاتی مشاہدے اور تجربے کی بنا پر ماس سیلف کمیونیکیشن بنتی اب باقاعدہ ڈیزائن کر کے مہیا کی جانے لگی اور اس کے پھیلائو کے مواقع بھی مہیا کیے جانے لگے۔ اخبار ،تھیئٹر، فلم، ڈرامہ سب ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے لگے۔مختلف ممالک اپنے حریف ملک کے عوام کو اپنی روایات، نظریات اور سیاسی منظرنامے سے بدظن کرنے میں جَت گئے۔ بائیں اور دائیں بازو کی سیاست، سوشلزم، لبرلزم اور کیپٹلزم کی تفریق منصوبہ سازی کے تحت اور سہولت کاری کے طور پر ہونے لگی۔
انسانی ذہن اس بات کی اہلیت رکھتا ہے کہ اگر دلیل کو رائج قوانین کے علاوہ کسی اور منطق سے بھی جوڑا جائے تو وہ اسے جذب کر لیتا ہے۔ معلومات کا درست ہونا معنی نہیں رکھتا بلکہ ان کا پہلے سے موجود معلومات سے تعلق قائم کرنا کسی بھی مواد کو حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ترقی پذیر ملک کے معاشرے میں موجود اقتصادی اور سماجی رویوں کو کسی ایک نظریے کے تحت جوڑنا اور پھر اسی نظریے کو رد کرنا ایک غیرمنطقی سوچ ہے۔ مگر ابلاغی دہشت گردی میں اس کا بارہا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے اور اس کا واحد مقصد وہی ہے جو عسکری کارروائی میں سٹرافنگ کا ہوتا ہے جس سے دشمن کمزور ہو جاتا ہے اور حتمی حملہ آسان ہو جاتا ہے۔ ابلاغی دہشت گردی میں کیے جانے والے حملے بھی حریف کو کمزور کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ ابلاغی سٹرافنگ میں معاشرے کی اجتماعی سوچ کو مفلوج کرکے چھوٹے چھوٹے خانوں میں باندھ دیا جاتا ہے۔ نفرت اور غصے کو ہوا دے کر حملہ آور معاشرے کے اندر سے ہی تیار کیے جاتے ہیں اور پھر وہ حملہ آور اپنے ہی ملک، ریاستی نظام، مذہب اور سماجی قدروں کے دشمن بن جاتے ہیں۔ مگر درحقیقت وہ اس اصل دشمن کا ہتھیار ہوتے ہیں جس نے ابلاغی سٹرافنگ کے ذریعے انہیں حتمی حملے کے لیے تیار کیا ہوتا ہے۔ آج کے دور میں ابلاغی دہشت گردی بہت کم خرچ اور آسان ہو گئی ہے۔ ابلاغ کے ڈیجیٹل ہونے کی وجہ سے دشمن کی کاسٹ کم ہو گئی ہے۔ جو کام پہلے این جی او، اخبار اور فنونِ لطیفہ کے ذریعے بھاری معاوضے کے عوض کروایا جاتا تھا، اب ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل کمیونیکیشن کی وجہ سے اس کا خرچ نہ ہونے کے برابر اور دائرئہ کار لامحدود ہو گیا ہے۔ آج کے دور میں لاکھوں خرچ کرکے این جی او سپانسر کرنے کی ضرورت نہیں رہی جو کہ لامحالہ معاشرتی ذہن سازی کے ساتھ ساتھ اضافی سماجی کام بھی کرے گی۔
ڈیجیٹل کمیونیکیشن کے ہوتے ہوئے اب دشمن کو کرنا صرف اتنا ہے کہ ماہرین کی ایک ٹیم اکٹھی کرکے ان سے انواع و اقسام کا سٹرافنگ کا مواد تیار کرانا ہے اور پھر اسے ڈیجیٹل کمیونیکیشن کے پلیٹ فارم پر چھوڑ دینا ہے۔ مواد تیار کرنے کے مراحل میں اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ معاشرے کے حساس پوائنٹس کون سے ہیں، کتنے لوگ پڑھے لکھے ہیں، کتنے ان پڑھ ہیں، شہری آبادی کتنی ہے اور دیہاتی کتنی ہے، کون سا ڈیجیٹل پلیٹ فارم کس عمر کے لوگوں میں زیادہ مقبول ہے۔ یہ ایک نہایت پیچیدہ عمل ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اب نسبتاً کم لاگت میں دشمن کمیونیکیشن وارفیئر کا ایسا اسلحہ بنا لیتا ہے جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی عدم موجودگی میں ممکن نہیں تھا۔ اگر آج ہم اپنی صورت حال کا جائزہ لیں تو واضح ہو جائے گا کہ دشمن کیسے مرحلہ وار ڈیجیٹل کمیونیکشن سے ڈیجیٹل ٹیررازم (دہشت گردی) پھیلا رہا ہے۔ ہمارے سماجی رابطے کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ایسے مواد سے بھرے ہوئے ہیں جو ہماری اخلاقی اور سماجی رویوں اورنظریات کی نفی کرتے ہیں۔ خبر اور بیان اس طرح سے دلچسپ یا سنسنی خیز بنایا جاتا ہے کہ توجہ کا مرکز بن جائے اور پھر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز خود جن بنیادی عوامل پر کام کرتے ہیں اور کیسے منفیت، تحقیر اور سنسنی کو زیادہ پھیلاتے ہیں، یہ ایک الگ بحث ہے اور نتیجے میں معاشرے میں بے یقینی، ہیجان اور نفرت کا ماحول بنا دیا گیا ہے اور مرحلہ وار حملہ آور ہوتے ہوئے اس نفرت کے ماخذ کی تشخیص بھی مہیا کر دی گئی ہے اور تشخیص کی دوا بھی دریافت کر لی گئی ہے۔ ایک عام انسان جوکہ ابلاغیات کے اصول و قواعد نہیں سمجھتا تو وہ بہرطور ایسے مواد سے اثر انداز ہوتا ہے۔
اب اگر سوال یہ اٹھایا جائے کہ کیا اس نفرت اور انتشار کو روکا جا سکتا تھا، کیا معاشرے کو اس خوف اور بے یقینی سے بچایا جا سکتا تھا تو جواب ہے کہ ہاں۔ درست اور بروقت اقدام اٹھاکر اس عفریت کو روکا جا سکتا تھا۔ معاشرے میں کھلم کھلا ریاست کے خلاف، ریاست کی سالمیت کی خلاف بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے۔ دہشت گردوں کو ہیروز بناکر پیش کیا جا رہا ہے، ہر وہ سوچ جو ملک میں بد امنی او انتشار کا باعث بنی، اس کی بے جا تشہیر کی جا رہی ہے اور سیاست دان بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور صرف ایک ادارہ جو پہلے روایتی طریقے سے دہشت گردی سے نبرد آزما تھا اب ڈیجیٹل دہشت گردی سے بھی دست و پیماں ہوگا، کیونکہ اس نتیجے پر پہنچا جا چکا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں روایتی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل دہشت گردی پر بھی اپنی پکڑمضبوط کرنا پڑے گی۔ آپریشن عزم استحکام اس بات کا غماز ہے کہ مسئلے کی جڑ تک پہنچا جا چکا ہے۔کنوینشنل دہشت گردی کے خاتمے کی کاوشیں تو جاری ہی ہیں۔ آپریشن عزمِ استحکام کے ذریعے ڈیجیٹل دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھرپور لائحہ عمل مؤثر انداز میں رائج کیاجائے گا ۔ اور پرامید بات یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدلیہ کی شمولیت کو بھی بالآخر یقینی بنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے ڈیجیٹل سہولت کار شدید پس و پیش کر رہے ہیںکیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ ملک کی سالمیت کے خلاف کسی بھی طرح کی سہولت کاری، چاہے وہ مالی معاونت ہو، نظریاتی ہم آہنگی ہو یا ڈیجیٹل سماجی رابطے کی صورت میں ہو، اب اسے نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
مضمون نگار ایک ریسرچر اور ماہر بین الاقوامی امور ہیں۔ ان کے مضامین ملکی اور غیرملکی جرائد میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے