بھارتی مسالے ،غیر معیاری دوائیاں بھی جان لیوا،کئی ممالک نے پابندی لگا دی
شراب نوشی اور سگریٹ نوشی تو صحت کے لیے مضر ہے ہی لیکن اب ماہرین صحت نے بھارتی مسالوں کو بھی صحت کے لیے مضر قرار دے دیا ہے ۔جس طرح شراب نوشی اور سگریٹ نوشی سے کینسر ہو سکتا ہے اسی طرح بھارتی مسالوں سے کینسر کا امکان ہے ۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے دنیا کہہ رہی ہے۔ اگر آپ اپنے کھانوں میں ذائقے کے لیے بھارتی مسالوں کا استعمال کررہے ہیں تو فوراً بند کردیں کیوں کہ یہ آپ کے کھانوں کو چٹخارے دار بنانے کے بجائے آپ کو بیمار اوربے وقوف بنا رہے ہیں ۔
حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرنا ،سچائی کو چھپانے کے لیے خوب مرچ مسالہ لگانا، جھوٹ اور پروپیگنڈے کا سہارا لینا ، پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا وتیرہ رہا ہے لیکن پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے والے بھارت کا پاکستان کو عدم استحکام کرنے کا خواب خواب ہی رہا اور انشا اللہ رہے گا۔ کسی کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں الجھانا تو آسان ہے لیکن چٹ پٹی باتیں بنا کر کھانوں کو چٹ پٹا بنانے والے مسالے بیچنا آسان نہیں ۔ بھارتی کمپنیوں کی دو نمبری دنیا کے سامنے نہ صرف اُجاگر ہو چکی ہے بلکہ موت بھی بانٹ رہی ہیں۔ بھارتی کمپنیوں کی جانب سے تیارکردہ کھانسی کے زہریلے سیرپ کی گونج ابھی تھمی نہیں تھی کہ بھارتی مسالہ جات کے غیر معیاری ہونے کا شرمناک سکینڈل بھی سامنے آگیا۔ بھارت میں بنائے جانے والے کھانسی کے سیرپ سے 2021 میں گیمبیا اور ازبکستان میں کم از کم 89 بچے موت کی وادی میں چلے گئے۔ جس کے بعد اقوام متحدہ نے بھارتی کھانسی کے سیرپ پر پابندی لگا دی ۔ازبکستان میں تو بچوں کی اموات کا معاملہ عدالت تک جاپہنچا۔ سماعت کے دوران ازبک پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ بھارتی دوا ساز کمپنی کے سی ای او نے زیادہ منافع کے لالچ میں کھانسی کے سیرپ میں زہریلے اجزا کی ملاوٹ کی ۔ پراسیکیوٹر نے کمپنی کے سی ای او سنگھ راگھویندر پرتار پر رشوت دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ بھارتی کمپنی کے سی ای او نے کھانسی کے سیرپ کی ازبکستان درآمد کے لیے 33 ہزار ڈالر رشوت دے کر کوالٹی ٹیسٹ بھی معاف کروالیا ۔ یہ ہی نہیں بلکہ بھارتی کمپنی نے ٹیکس فراڈ کے لیے سیرپ کی قیمت بھی زیادہ ظاہر کی ۔ بھارتی سیرپ سے بچوں کی ہلاکتوں کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد امریکا، یورپی یونین اور دیگر کئی ممالک نے بھی بھارتی کمپنی کا لائسنس معطل کردیا۔عالمی ادارہ صحت نے عراق میں الرٹ جاری کیا کہ بھارتی کمپنی کے تیار کردہ کھانسی کے سیرپ سے ہوشیار رہیں کیوں کہ اس سیرپ میں شامل زہریلے اجزا موت کا سبب بن سکتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا تھا کہ' بھارتی کمپنی کا کولڈ آٹ سیرپ غیرمعیاری ہے جس میں ڈائی ایتھلین، گلائی کول اور ایتھلین گلائیکول کی حدسے زیادہ مقدار شامل ہے'۔
کھانسی کے زہریلے سیرپ کے بعد مسالہ جات نے بھی بھارتی ساکھ کی قلعی کھول دی ۔ بھارت کو اپنے جن مسالوں پر فخر تھا وہی شرمندگی کا باعث بن گئے۔ سب سے پہلے سنگاپور کو بھیجے جانے والے مچھلی مسالے میں کیڑے مار دوائی کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ جس پر سنگاپور نے ایورسٹ کری مسالہ کی ساری کھیپ واپس کردی۔ کیڑے ماردوا یعنی ایتھیلین آکسائیڈ کا کئی ممالک میں کھانے کی مصنوعات میں استعمال سختی سے منع ہے۔ ایتھیلین آکسائیڈ (Ethylene Oxide)کا ایک خاص حد سے زیادہ استعمال سرطان پیدا کر سکتا ہے جو عام طور پر جراثیم کش اور اسٹیرلائزنگ ایجنٹ کے طور پر جراثیموں کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ یورپی یونین اس کے استعمال کو 0.1 ملی گرام فی کلو تک استعمال کی اجازت دیتی ہے۔امریکی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کا کہنا ہے کہ کئی برسوںتک ایتھیلین آکسائیڈ کے باقاعدہ استعمال سے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جس میں چھاتی کا کینسر بھی شامل ہے۔ ہانگ کانگ میں بھی کھانے میں ایتھیلین آکسائیڈ کے استعمال پر مکمل پابندی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہانگ کانگ نے بھی گزشتہ ماہ 'ایم ڈی ایچ'کے تین مسالوں مدراس کری مسالہ، کری مسالہ اور سامبر مسالہ جب کہ ایوریسٹ کے فش کری مسالہ کی فروخت روک دی ۔ نیپال اورمالدیپ نے بھی ان بھارتی مسالہ جات پر پابندی عائد کر دی۔بھارتی کمپنیوں کے اس گورکھ دھندے کا جب گہرائی سے مطالعہ کیا گیا تو پتا چلا کہ دنیا کو بے وقوف بنانے کا یہ کام کئی برسوں سے جاری ہے۔
گزشتہ پانچ برس کے دوران یورپین یونین فوڈ سکیورٹی اتھارٹی نے 500 سے زائد بھارتی مسالہ جات پر پابندی عائد کی جب کہ امریکا نے گزشتہ سال ایم ڈی ایچ کے 30 فیصد سے زائد مسالے زہریلے پن اور کیمیکل کی ملاوٹ کے باعث بھارت واپس بھیج دیئے ۔ امریکی ماہرین کا کہنا تھا کہ بھارتی مسالوں میںسالمونیا (Salmonella) پایا گیا ہے۔ سالمونیلا ایک زیرہلا بیکٹیریا ہوتا ہے جس سے فوڈ پوائزنگ ہوتی ہے۔ قے،دست، بخار،ڈائریا جیسے امراض لاحق ہو جاتے ہیں ۔ یہ بیکٹیریا انسانی اعصاب کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں نہ صرف بھارتی مسالہ جات بلکہ میوے، ڈرائی فروٹ، فروٹس،سیریل ،بیچ ،سبزیاں اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء بھی غیر معیاری قرار پا چکی ہیں۔ بھارتی مسالوں کے غیر معیاری ہونے کا یہ پول صرف اس وجہ سے کھلا کیوں کہ دیگر ممالک کی فوڈ اتھارٹی آنکھیں کھول کر کام کر رہی ہیں ۔ ان حقائق کی نہ تو بھارتی میڈیا نے نشاندہی کی اور نہ ہی بھارتی سرکار نے شہریوں کو خبردار کیا۔ سوشل میڈیا پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ان خبروں کے آنے کے باوجود مودی سرکار کی ڈھٹائی کم نہ ہوئی۔ ان مسالوں میں کیڑے مار ادویات (pesticides ) کی مقدارکو دس گنا زیادہ بڑھا کر ایک سو چالیس کروڑ لوگوں کی زندگیوں کو دائو پر لگا دیا ۔ ایورسٹ کمپنی سے جب پوچھا گیا کہ ان کے مسالے غیرمعیاری کیوں نکل رہے ہیں ؟ توانہوں نے صاف صاف کہا کہ ہمیں تو اپروول بھارتی اسپائس بورڈ نے ہی دی ہے۔ یہ ہی نہیں دونوں بھارتی کمپنیوں نے اس بات کا بھی دعویٰ کیا کہ ان کی مصنوعات کھانے کے لیے محفوظ ہیں۔ ایم ڈی ایچ نے تو اس بات کا دعویٰ کر ڈالا کہ وہ اپنے مسالوں میں کوئی بھی ایتھیلین آکسائیڈ استعمال نہیں کرتی۔ دونوں کمپنیوں کا کہنا تھا کہ ہم اپنے خریداروں اور صارفین کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اپنے مسالوں کو ذخیرہ کرنے، پروسیسنگ کرنے یا پیک کرنے کے کسی بھی مرحلے پر ایتھیلین آکسائیڈ کا استعمال نہیں کرتے۔
'ایم ڈی ایچ' اور 'ایوریسٹ'کی مصنوعات بھارت میں بہت مقبول ہیں ۔ یہ یورپ، ایشیا اور شمالی امریکہ کے ممالک میں بھی فروخت کی جاتی ہیں لیکن جب ان دو مشہور برینڈز پر ملاوٹ کا داغ لگا تو بھارت بھرمیں کھلبلی مچ گئی ۔بھارت کے ریگولیٹر نے پائوڈر مسالے بنانے والے تمام مینوفیکچرنگ یونٹس میں وسیع پیمانے پر معائنہ کرنے، ان کے نمونے لینے اور ٹیسٹنگ کا حکم دیا ۔خاص طور پر ان پروڈکٹس پر توجہ دی گئی جو ملکی و غیر ملکی سطح پر فروخت کی جاتی ہیں ۔اسی دوران بھارتی تھنک ٹینک 'گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشی ایٹو' کی رپورٹ سامنے آئی ۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ عالمی سطح پر برآمدی اشیا کی اسکروٹنی کے بڑھتے رجحان نے بھارت کی نصف سے زائد مسالہ جات کی برآمد کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اگر دیگر ملکوں کی طرح چین نے اسی طرح کے اقدامات اٹھانا شروع کر دیے تو بھارتی مسالہ جات کی برآمد میں 'حیران کن حد'تک کمی آ سکتی ہے۔ زیون مارکیٹ ریسرچ کے مطابق بھارت مسالوں کا سب سے بڑا ایکسپورٹر، پروڈیوسر اور کنزیومر ہے۔ 2022 میں اس کی مصنوعات کی مقامی مارکیٹ کی ویلیو 10 ارب 44 کروڑ ڈالر تھی۔بھارت کے مسالہ جات بورڈ کا کہنا ہے کہ سال 2022-23 میں چار ارب ڈالر کے مسالے برآمد کیے گئے تھے۔بھارت میں ایم ڈی ایچ اور ایوریسٹ کے علاوہ مسالہ جات بنانے والی کمپنیوں میں مدھوسودن مسالہ، این ایچ سی فوڈز، ٹاٹا کنزیومر پروڈکس اور آئی ٹی سی بڑے مینوفیکچرز میں شامل ہیں۔
جہاں بھارت اتنے مسائل سے دوچار ہے وہیں مودی سرکار اپنے انتہا پسند مذموم سیاسی مقاصد کی تکمیل میں مصروف ہے ۔اس کے برعکس پاکستانی مسالوں کا جادو پوری دنیا میں سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ پاکستانی مصنوعات کے صرف پاکستانی ہی نہیں غیر ملکی بھی معترف ہیں ۔
کھانوں کو ذائقہ دار بنانے میں مسالوں کا اہم کردار ہوتا ہے، یہ کھانوں کو نہ صرف ذائقہ بلکہ رنگ اور خوشبو بھی بخشتے ہیں۔ تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ رومن دور ہو یا قرونِ وسطی ، پوری دنیا میں مسالوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور اس سے یورپ سے لے کر ایشیائی ممالک تک کی معیشتیں متاثر ہوئیں۔ مسالوں کی مانگ میں اضافے نے پہلی بار تجارت کے نئے عالمی راستوں کو شکل دی اور عالمی معیشت کے بعض ایسے ڈھانچے تیار ہوئے جو آج بھی زیر استعمال ہیں۔ مسالوں پر جن کا قبضہ تھا ان میں دنیا کی دولت کے بہائو کے رخ کو اپنی جانب موڑنے کی طاقت تھی۔ 1498 میں پرتگال سے تعلق رکھنے والے سیاح واسکو ڈی گاما نے افریقہ کے جنوب سے ہوتے ہوئے یورپ کے راستے بھارت کا پہلا سمندری راستہ طے کیا ۔ اس سفر کا مقصد ان مقامات کے براہ راست راستوں کا پتہ لگانا تھا جہاں مسالوں کی بے پناہ دولت موجود تھی تاکہ مسالوں کے حصول میں کسی آڑھتی پر انحصار نہ کرنا پڑے۔بھارت کے جنوب میں واقع مالابار ساحل پر واسکو ڈی گاما کی آمد نے یورپ اور شمالی مشرقی ایشیا کے درمیان مسالوں کی براہ راست تجارت کی بنیاد ڈالی۔ یوں ایشیا کے مسالے یورپ جانے لگے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ یورپ میں لوگوں کے کھانے کا مزا تھوڑا چٹخارے دار ہو گیا لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ مسالے دولت مند اور طاقتور کہلانے کا نیا طریقہ بن گئے۔آج کے دور میں مسالوں تک سب کو رسائی حاصل ہے وہ ہر بازار، ہر دکان اور ہر ریستوران میں دستیاب ہیں۔ ایک وقت تھا جب واسکو ڈی گاما کے سمندری سفر میں مہینوں لگتے تھے اور آج چند گھنٹوں میں مسالے دنیا کے ایک حصے سے دوسرے میں لائے جا سکتے ہیں ۔
مضمون نگار صحافی ہیں۔ حالاتِ حاضرہ اور سماجی و سیاسی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے