خطے میں بالادستی کے خواہشمند بھارت کے اپنے اندرجو فالٹ لائنز موجود ہیں جن کواپنی جنتا سے چھپانے کے لیے بھارتی حکومتیں ہمیشہ جھوٹ کا سہارہ لیتی آئی ہیں۔ پھرچاہے وہ نکسل ہوں مسلمان یا پھر سکھ، بھارت میں اقلیتوں کا جینا شروع سے ہی دوبھر رہا ہے۔ جب کبھی اقلیتوں نے اپنے حقوق اور تحفظ کے لیے آواز بلند کی، بھارتی سرکارخواہ وہ کسی بھی پارٹی کی ہو، اس نے جابرانہ رویہ اختیار کیا ۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ انڈین اسٹیٹ پالیسی ہی اقلیتوں کو جبر و استبداد سے دبانا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال تو مسلمان اقلیت پر ڈھائے جانے والے مظالم ہیں جو بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد سکھ اقلیت ہے جو بھارتی جابرانہ پالیسیوں کا شکار ہے۔
برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے ہی سکھ ہندوؤں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے تھے۔ان کی اس سوچ کے پیچھے ان کی منفرد مذہبی شناخت اور رسم و رواج ہیں۔ 1947 کی تقسیم کے بعد بھی سکھ برادری میں یہ ہی سوچ پروان چڑھتی رہی کہ وہ ہندو اکثریت سے جداگانہ اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت جو ہندو اکثریتی ووٹ کے بل بوتے پربنتی ہے، اس نے طاقت کے نشے میں روز اول سے سکھوں کو دبانے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ ان کے مذہبی جذبات تک کو اندرا گاندھی نے اپنے پائوں تلے روند ڈالا۔
موجودہ دور میں مودی کی ہندو فاشسٹ حکومتی پالیسیوں نے سکھ کمیونٹی کو بے چینی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جب جب کسان مودی کی زرعی پالیسی اور بے جا نئے قوانین کے خلاف کھڑے ہوئے مودی سرکار نے انہیں خالصتانی کہہ کر سکھ کمیونٹی کو نشانہ بنایا۔ حالانکہ کسان رہنما متعدد بار کہہ چکے کہ کسانوں کے احتجاج سے خالصتان تحریک کا کوئی واسطہ نہیں۔ اس حکومت کی ایسی متعصبانہ ا ور انتہا پسندانہ سوچ اور اقلیت کش پالیسیوں کی وجہ سے سکھ بھارت کے خلاف ہوتے جارہے ہیں۔
نریندر مودی نے اقلیتوں کو ڈرانے دھمکانے اور بزور طاقت انہیں ہندو اکثریت میں مدغم کرنے کی جو روش اختیار کررکھی ہے اس کا دائرہ کار اب بھارت کی سرحدوں سے باہر نکل کردنیا میں غنڈہ گردی پھیلارہا ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کے تحت جمال خاشقجی کے قتل کی طرز پر نارتھ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ ، پاکستان ، آسٹریلیا میں مقیم سکھ رہنمائوں کو کرائے کے قاتلوں کے ذریعے ختم کرنا ہے۔
سات لاکھ سے زائد بھارتی کینیڈا میں رہتے ہیں جو کسی بھی ملک میں بسنے والے بھارتیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان میں سے دو فیصد سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ انڈیا سے بڑی تعداد میں لوگ کینیڈا جانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ لیکن مودی سرکار نے کینیڈا کی اس مہمان نوازی کا جواب وہاں کا امن خراب کر کے یوں دیا کہ وہاں کے رہاشی سکھ لیڈر ہر دیپ سنگھ نجر کو 18جون 2023کو ایک گردوارے کے باہر قتل کروادیا۔ ہٹ دھرمی اور بے شرمی کی حد یہ ہے کہ بھارت کینیڈا پر خالصتان تحریک کے حامی دہشت گردوں کو پناہ دینے کا مضحکہ خیز الزام لگا رہا ہے۔ بھارت نے ہردیپ سنگھ نجر کا تعلق ببر خالصہ انٹرنیشنل سے جوڑ رکھاہے اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس کی فنڈنگ کا الزام پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی پر لگایا ہوا ہے یعنی ایک تیر سے دو شکار کیے جارہے ہیں۔
لیکن کینیڈا بھارت نہیں جہاں حکومتی سرپرستی میں ریاست اپنے ہی شہریوں کو نشانہ بنائے۔ لہٰذا ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے فوراً بعدہی کینڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے واضح الفاظ میں اس قتل میں بھارتی حکومت اور ریاست کے ملوث ہونے کا اشارہ دیا جس پر بھارت حسب روایت سیخ پا ہو گیا اور الٹا کینیڈا پر الزام تراشی شروع کردی تاکہ اپنے اس شرمناک اور بے جا قدم کو صحیح ثابت کرسکے۔ بھارت میں یہ گمان پروپیگنڈے کی صورت پیش کیا جاتا ہے کہ ٹروڈو کو اپنی حکومت چلانے کے لیے کینیڈین سکھوں کی حمایت کی ضرورت ہے اس لیے کینیڈا کی حکومت نے نجر قتل کیس کو اتنا اچھا لا۔ نجر پر ایک ہندو یوگی پر حملے کا الزام بھی تھا اور ان کی گرفتاری میں معاونت پرنقد انعام بھی رکھا ہوا تھا۔ جبکہ دوسری طرف کینیڈین پارلیمنٹ میں کینیڈین نیشنل ہردیپ سنگھ نجر کی برسی پرایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ یہ فرق ہے کینیڈا اور بھارتی بیانیے میں۔وقت نے ثابت کردیا کہ ٹروڈو نے محض ہوا میں تیر نہیں چلایا تھا بلکہ ان کے پاس ٹھوس ثبوت تھے جب ہی تو رواں برس مئی میں کینڈین پولیس نے تین بھارتی باشندوں کو گرفتار کیا جن کا براہ راست تعلق ہردیپ سنگھ قتل کیس سے ہے۔
ہردیپ سنگھ نجر کا قتل صرف ایک قتل نہیں بلکہ یہ یکے بعد دیگرے سکھ رہنمائوں کو ختم کرنے کی سازش ہے جس کے مزید تانے بانے امریکہ میں رہائش پذیرسکھ رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش سے ملتے ہیں۔ اس اقدام قتل کی سازش میں امریکی خفیہ اداروں نے بڑے ڈرامائی انداز میں ایک بھارتی نژاد شخص کو جمہوریہ چیک سے گرفتار کیا۔ اس کی شناخت نکھل گپتاکے نام سے ہوئی جو بھارتی حکومت کی سی سی ون کیٹیگری کے ساتھ رابطے میں تھا۔ یہ شخص انسانی اسمگلنگ ، اسلحہ کی اسمگلنگ منشیات فروشی وغیرہ میں بھی ملوث رہا ہے۔ یہ براہ راست بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی 'را' سے منسلک ہے۔ یہ ایک اعلیٰ بھارتی عہدیدار سے بھی احکامات لیتا رہا ہے- اس کو امریکی عدالت کی طرف سے ڈیٹنشن سنٹر بھیجا جا چکا ہے۔ اس کے جو آڈیو پیغامات عدالت میں بطور ثبوت پیش کیے گئے ان میں سے ایک آڈیو میں گپتا کو کہتے سنا جاسکتا ہے کہ ہمارے بہت سے ٹارگٹ ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ اب ہمیں انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک جگہ نکھل گپتا گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کا حکم دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر پنوں کے ساتھ اور بھی لوگ ہوں تو سب کو مار دو۔ وہ مزید کہتا ہے کہ آگے جا کے ہر مہینے دو سے تین ایسے کام کرنا ہوں گے جن کے اچھے پیسے ملیں گے۔ اس نے پنوں کے قتل کے امریکی ڈالرز طے کیے تھے۔ اس نے اسی کرائے کے قاتل کو جون کے اختتام سے پہلے تین سے چار سکھ رہنمائوں کو قتل کرنے کا پیغام بھی پہنچایا۔
آپ اگر ان کیسز میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ایسی تحقیقاتی رپورٹس کو پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ مودی سرکار ایک بھرپور ٹارگٹ کلنگ مہم چلا رہی ہے جس کا واحد مقصد اقلیتوں کو دھمکا کر چپ کروانا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ نریندر مودی اور اجیت ڈوول 'را' کی ان کارروائیوں کی طرف سے اندھیرے میں ہوں کیونکہ' را' کو تو چلانے والے ہی بھارتی وزیراعظم ہے۔ جب گرپتونت سنگھ پنوں کیس پر امریکی دبائو آیا تو بھارت نے ایک مشکوک انکوائری کر کے مضحکہ خیز نتیجہ دنیا کے سامنے پیش کردیا کہ یہ تو 'را' کے ایک عہدیدار کی حرکت تھی جس کو 'را' سے نکال دیا گیا تھا۔ یہ فضول بات ناقابل قبول ہے کیونکہ 'را' مودی کی چھتری تلے سکھ رہنمائوں کو جان بوجھ کر بیرون ملک ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا رہی ہے جس میں پچھلے ایک سال میں تیزی آئی ہے۔ مئی 2023میں پاکستان میں خالصتان کے حامی لیڈرلکھ بیر سنگھ کا قتل کیا گیا تھا اس کے علاوہ پرم جیت سنگھ پنجر کو اس وقت قتل کردیا گیا جب وہ لاہور میں اپنے معمول کے کام انجام دے رہے تھے۔ اس کے بعد نجر قتل کیس پھر پنوں کیس اسی تسلسل کا حصہ ہیں جن کے تحت خالصتان تحریک کے راہنمائوں کو ختم کرنا ہے تاکہ سکھ برادری کے حقوق کو چھین کر ان کو بالکل بے دست وپا کردیا جائے۔ یاد رہے کہ بھارت ایسی کارروائیاں نیپال، ماریشس اور آسٹریلیا میں بھی کررہا ہے۔ 'را' اپنے کارندوں کے ذریعے آسٹریلیا میں مقیم بھارتیوں کی جاسوسی میں بھی ملوث ہے۔ جس کی ذرا سی بھی ہمدردی خالصتان سے ہے اسے ہراساں کیا جاتا ہے۔ انگلینڈ میں مقیم اوتارسنگھ کھنڈا ایک اور سکھ رہنماہے جس کی اچانک موت پر بھی بھارت کی جانب انگلیاں اٹھیں کہ انہیں زہر دے کر قتل کیا گیا ہے۔ بھارت نے اس الزام سے انکار کردیا لیکن سکھ کمیونٹی مطمئن نظر نہیں آئی۔
مودی سرکارہر اس سکھ لیڈر کو قتل کرنے کے در پہ ہے جو سکھوں کو سائڈ لائن کرنے کی سرکاری پالیسی پر تنقید کرتا ہے۔ در حقیقت خالصتان تحریک کی جڑیں 1947سے ملتی ہیں جب بھارتی حکومت نے ہرمعاملے میں پنجاب کو پیچھے کرنا شروع کردیا۔ پنجاب کو انتظامی بنیادوں پر دوحصوں میں توڑ دیا گیا۔ چندی گڑھ کو پنجاب سے الگ کردیا گیا۔ نہری پانی کی تقسیم کا نیا نظام نافذ کیا گیا جس کے تحت پنجاب کو صرف 23فیصد پانی ملنا تھا۔ یہ سب خالصتان تحریک کے محرکات میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی آ ئین کے آرٹیکل2 کی شق 25بی انتہائی متنازع ہے ۔ اس کے تحت مذہبی انفرادیت کو پابند سلاسل کر کے جین مت، بدھ مت کے پیروکاروں اور سکھوں کو ہندو قرار دیا گیا ہے۔ سکھ جوڑوں کو اپنے رسم و رواج سے شادی کرنے کے بعد بھی اپنی شادی کوسپیشل میرج ایکٹ 1954 یا ہندو میرج ایکٹ 1955میں رجسٹر کروانا لازمی ہے۔ سکھوں کی جانب سے بار بار احتجاج کرنے کے باوجود یہ قانون جوں کا توں ہے ۔ یہ سب خالصتان تحریک کی بنیادیں مضبوط کرتا چلا گیا۔ سکھوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے جب سکھ رہنمائوں نے آنند پور صاحب قرارداد حکومت کے سامنے رکھی تاکہ ایک معاہدے پر پہنچا جاسکے تو اندرا گاندھی نے اسے خالصتان سے جوڑدیا اور بجائے اس کے کہ سکھوں کے تحفظات کو دور کیا جاتا اس قرارداد کو سکھ بول بالا کہہ کر ایک طرف پھینک دیا گیا۔ جب کہ سکھ برادری اسے اپنی دادرسی کا ذریعہ گردان رہی تھی۔ اس طرح سکھ لیڈران نے اپنا مذہبی اور ثقافتی تشخص برقرار رکھنے کے لیے سکھوں کے حقوق کی بات کی تو انہیں بھارت کے دشمن دہشت گرد کہہ کر دبایا گیا۔ خالصتان تحریک کو ہوا خود بھارتی حکومتوں کے جبر و ااستبداد نے دی ہے۔ گولڈن ٹیمپل کی بربادی کے بعد سکھ کمیونٹی کو سخت کریک ڈائون کا نشانہ بنا یا گیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد جس طرح اس وقت کی کانگریسی حکومت نے ہندو جتھوں کو سکھوں کے قتل عام کی کھلی چھوٹ دی اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ حکومتی سرپرستی میں سکھ آبادیوں پر حملے کیے گئے۔ انہیں گھروں سے نکال کر زندہ جلایا گیا۔ تقریباً اٹھارہ ہزار سکھ اس خونریزی کی نذر ہوئے ان میں سے تین ہزار کے لگ بھگ دہلی اور گرد و نواح میں مارے گئے۔
اس قتل عام نے خالصتان تحریک کو مزید جلا بخشی۔ آپریشن وڈروز کے تحت ہزاروں سکھوں کو غائب کردیا گیا ۔ کچھ کوخصوصی عدالتوں سے سزائیں ہوئیں جبکہ کچھ ابھی تک لاپتہ ہیں۔ یہ وہ ظلم و ستم اور منظم نسل کشی تھی جس نے سکھ کمیونٹی کو بھارت کے خلاف کرنے میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ حکومتی غنڈہ گردی اور ریاستی جبر کے ڈرسے جن سکھوں نے دوسرے ممالک کا رخ کیا وہ اپنے ساتھ خالصتان کے نظریات اور اس بربریت کی داستانیں بھی لے گئے ۔ بیرون ملک مقیم سکھ برادری پہلے ہی بھارت کی ناقص پالیسیوں سے دل برداشتہ تھی۔ انہیں صرف اور صرف خالصتان ہی واحد امید کی کرن دکھائی دیتی تھی۔ 1984 میں جو اذیت سکھ برادری نے اٹھائی اسے دوسری اور تیسری نسل تک منتقل ہونے میں دیر نہ لگی۔ یوں یہ تحریک سکھ برادری کی انٹرنیشنل تحریک بن گئی۔
اسی لیے آج کی نوجوان سکھ نسل مودی کے رویے سے بیزار نظر آتی ہے۔ ہم اس نسل میں بھی خالصتان کے لیے وہی جذبہ دیکھ رہے ہیں جو ان کے باپ دادا میں تھا۔ اب خالصتان کا نظریہ اور اس کی ترویج نئی پود کے ہاتھ میں ہے۔ نوجوانوں میں بے حد مقبول ایک سکھ رہنما امرت پال سنگھ سندھوہیں۔ یہ حالیہ الیکشن میں لوک سبھا کے ممبر منتخب ہوئے ہیں اورمشہورسکھ لیڈر جرنیل سنگھ سے بے حد متاثر ہیں۔ بھارت حسب معمول امرت پال کا تعلق بھی آئی ایس آئی سے جوڑ کر نوجوان سکھوں کے اس پسندیدہ لیڈر کو دہشت گرد قرار دے کر گرفتار کرچکا ہے۔ اس گرفتاری کے خلاف پوری دنیا میں سکھ برادری نے سڑکوں پرنکل کر احتجاج کیا۔ لندن میں اس شدت کا ردعمل سامنے آیا کہ لوگوں نے بھارتی ہائی کمیشن سے بھارتی جھنڈا اتا ر پھینکا۔ یہ سکھ کمیونٹی میں پھلتا پھولتا وہ رد عمل ہے جس سے مودی سرکار آنکھیں چرا رہی ہے۔ بھارت حسب عادت اور حسب روایت اس کا الزام آئی ایس آئی پر لگا کر اپنی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ خالصتان تحریک بھارتی حکومتوں کے اپنے کرتوتوں کا شاخسانہ ہے اور خالصتان کے حق میں ہونے والے ریفرنڈم بھارتی بربریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ گرو پتونت سنگھ پنوں نے اپنے قتل کی سازش بے نقاب ہونے کے بعد جو بات کہی وہ پوری سکھ برادری کے جذبات کی نمائندگی کرتی ہے۔ وہ اپنے قتل کی سازش کی بھارتی تحقیقات کو مذاق گردانتے ہوئے کہتے ہیں کہ سکھ بھارتی تشدد کا جواب الفاظ سے دے رہے ہیں، اور بھارتی گولیوں کا جواب ووٹ سے دے رہے ہیں۔
سکھ کمیونٹی کے اس جذبے کو دبانے کے لیے' را' کے اعلیٰ عہدیداران نے مودی کی شہ پر مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں خصوصاً موساد کی نقل میں غیر ملکی سرزمین پر سکھ رہنمائوں کے قتل کی منصوبہ بندی کی اور بڑی رقم دے کر جرائم پیشہ افراد اور کرائے کے قاتلوں سے کام لینا شروع کردیا- پھر اس سازش کو بھارتی میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے بھارت کی سکیورٹی کا روپ دیا۔ اگرچہ بھارت کی یہ چال الٹی پڑنا شروع ہوگئی لیکن ان ہائی پروفائل ماورائے عدالت قتل کیسز کے بعد بھی مغرب اور امریکہ، بھارت پر ہاتھ ہلکا رکھے ہوئے ہیں۔اگر یہاں بھارت کی جگہ پاکستان ہوتا تو یہ ممالک چیخ چیخ کر انسانی حقوق کا ڈھول پیٹ رہے ہوتے لیکن کیونکہ مغرب کو اربوں کی آبادی کی تجارتی منڈی عزیز ہے اور امریکہ کو چین کے مقابلے پر کھڑا کرنے کے لیے بھارت کی ضرورت ہے اس لیے مودی کا کھیل جاری ہے۔ عالمی طاقتوں کو یہ دہرا معیار ترک کرکے 'را' کی ان دہشت گردانہ کارروائیوں کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ مودی اپنی اس بار کی حکومت میں اقلیتوں کے خلاف مہم جوئی سے باز رہیں۔
مضمون نگار فری لانس صحافی ہیں۔ حالاتِ حاضرہ اور سماجی و سیاسی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے