ایک وقت تھا جب ہندو قوم پرستی یا ہندوتوا کے نظریے کی بازگشت چند حلقوں میں ہی سنی جاتی تھی لیکن آج یہ نظریہ پوری بھارتی سیاست کامحور و مرکز بن چکا ہے جس میں اہم کردار ملک کے تیسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم نریندر مودی کا ہے۔ انہوں نے بھارت کو ایک سیکولر ریاست سے ہندوتوامیں تبدیل کرنے کے لیے ہندو قوم پرستی کا نعرہ لگایا جسے بھارت کے مذہبی انتہا پسندوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ گزشتہ چند برسوں سے نریندر مودی کی ایما پر بھارت کو ہندو راشٹریہ میں بدلنے کے لیے بے شمار مذموم ہتھکنڈوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ مودی کی نفرت آمیز سیاست کے باعث بھارت کی تقسیم ناگزیر ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف بھارتی سکھ علیحدگی کی منظم تحریکیں چلا رہے ہیں تو دوسری طرف ناگالینڈ کے عوام بھارتی سرکار کے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں۔ مسلمان اور دیگر غیر مسلم اقلیتیں بھی حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔یہ سارا منظر نامہ اس بات کا عکاس ہے کہ بہت جلد بھارت ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔
نریندر مودی کا تعلق حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)سے ہے لیکن ان کے نظریات پر سب سے زیادہ اثر لگ بھگ سو برس قبل قائم ہونے والی دائیں بازو کی ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کا ہے۔1960 کی دہائی میں نریندر مودی اپنی نوجوانی کے دنوں میں اس تنظیم میں شامل ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب آر ایس ایس پوری قوت کے ساتھ ایک ہندو ریاست یا ہندو راشٹریہ کا نعرہ لے کر منظر عام پر آئی تھی۔ آر ایس ایس کے منشور کے مطابق اس تنظیم کا مقصد ہندوئوں کو مضبوط بنانا تھا۔ آج بھی ان کا مانناہے کہ بھارتی تہذیب اور ہندومت کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔ گویا آر ایس ایس کا نظریہ ہندو برتری پر مبنی ہے اور نریندرمودی اسی روش پر قائم بھارت کو طبقاتی تقسیم کی طرف لے جا رہے ہیں۔حکومت کی طرف سے مذموم ہتھکنڈوں کا استعمال اور منفی حربوں پر مبنی اقدامات مودی کی اس ضد کے عکاس ہیں جس کی بدولت بھارت سمیت خطے میں بد امنی، انتشار،افرا تفری اور بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔نریندر مودی کا بھارت کو ہندو راشٹریہ میں بدلنے کا مذموم منصوبہ اب مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے ۔حالیہ چند برسوں میں بھارت میں ہونے والے واقعات اور کارروائیاں اس منصوبے کی فعالیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔
ہندو راشٹریہ یا ہندوتوا؟
سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آخر کار یہ" ہندو راشٹریہ " ہے کیا؟عام طور پر اسے 'ہندوتوا' بھی کہا جاتا ہے۔یہ ایک نظریے کا نام ہے جس کو مکمل طور پر قابل عمل بنانے کے لیے بہت سارے اقدامات کیے جارہے ہیں تاکہ ملک میں ہر طرف اور ہر لحاظ سے ہندو بالادستی قبول کر لی جائے۔آسان الفاظ میں ہندو قوم پرستی میں انتہا پسندی کی حد تک چلے جانے کا نام ہندوتوا ہے۔آپ اسے ہندو قوم کی بالادستی کا متشدد نظریہ بھی کہہ سکتے ہیں۔'ہندوتوا 'اصطلاح کا استعمال سب سے پہلے 1923 میں 'ونائیک دمودر سارکر 'نے کیا تھا جس کے بعد قوم پرست ہندو رضاکار تنظیموں راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ(آر ایس ایس)، وشو ہندو پریشد اور ہندو سینا نے اس نظریے کو مزید تقویت دی ۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ بھارت کی کچھ پر اثر سماجی و سیاسی شخصیات ہندوتوا کو درست جبکہ کچھ اسے غلط قرار دیتی ہیں۔ ہندوتوا نظریے سے اختلاف رکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ ہندوستان صدیوں سے مختلف النوح قوموں کا مسکن رہا ہے اور وہاں بسنے والا ہر فرد ہندوستانی ہے چاہے وہ مسلمان ہو،عیسائی ہو، سکھ یا پارسی ہو یا پھر ہندوہی کیوں نہ ہو۔یہ ناقد اپنے دعوے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندوستان کی ترقی و خوشحالی میں مسلمانوں سمیت دیگر اقوام کا بھی حصہ رہا ہے۔چنانچہ یہ کسی صورت درست نہ ہو گا کہ نریندر مودی ہندو قوم پرستی کانعرہ لگا کر بھارت میں بسنے والی دیگر قوموں کے جذبات مجروح کریں۔اس طرح ان کے نزدیک ہندوتوا یا ہندو راشٹریہ کی اہمیت محض ایک بلبلے کی سی ہے جو چند لمحوں کا مہمان ہوتا ہے اور پھر ہوا میں تحلیل ہو جاتاہے۔قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے اب تک ہندوتوا نظریے کی مخالف قوتوں ، نظریات اور دلائل کو بزورقوت دبایا جاتا رہا ہے۔
سیکولر شناخت کا خاتمہ
گزشتہ کئی سالوں سے ہندوتوا کا کھلم کھلا پرچار کرکے بھارت کی سیکولر شناخت ختم کرنے کی کوششیں بھی کی جاتی رہی ہیں جس میں بی جے پی، آر ایس ایس اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہندو انتہا پسند بھارت کی سیکولر آئینی حیثیت ختم کر کے اسے ہندو ملک کا درجہ دینا چاہتے ہیں جبکہ ایسا کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ بھارت میں آج بھی کم و بیش بیس کروڑ سے زائدمسلمان بستے ہیں ۔ ان کے اپنے نظریات ، ثقافت اور تہذیبی روایات ہیں جنہیں بزور قوت ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح لاکھوں سکھ، عیسائی،پارسی اور دیگر اقلیتی اقوام بھارت کی اہم اکائیاں ہیں جنہیں پر تشدد کارروائیوں سے ہندوتوا کے ما تحت نہیں لایا جا سکتا۔ بھارت کی اپنی ایک سیاسی، مذہبی ،جغرافیائی ، تہذیبی اور سیکولر شناخت بھی ہے جو بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک اور رواداری کی تلقین کرتی ہے۔ لیکن دوسری طرف حال یہ ہے کہ ان اقلیتوں کا جینا دوبھر ہو چکا ہے جبکہ بھارت شہری قوانین میں ترامیم کے ذریعے ایسی تمام اقوام کو بنیادی شہری حقوق سے بھی محروم کرتا جا رہا ہے۔
نفرت، تعصب، تشدد اور خوف کی یلغار
بھارت میں اس وقت ہر طرف نفرت ، تعصب، تشدد اور خوف کی یلغار ہے اور ایسا صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ بھارتی حکمران جماعت ہندوتوا کی تکمیل چاہتی ہے۔ حال ہی میں نریندر مودی بھارت کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلمان مخالف بیانیے کا خوب استعمال کیا ۔اس سے قبل انہوں نے جان بوجھ کرمسلمان مخالف قوانین بنائے،شہریت کے قوانین میں تبدیلی کی اورکشمیرکے غاصبانہ انضمام کی راہ ہموار کی۔ بی جے پی کی جانب سے منظم انداز میں آزادیِ اظہار پر کریک ڈاؤن کیا گیا ، تنقیدی آوازوں کو من پسند سخت قوانین سے دبایا گیا اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے خصوصی اختیارات کا استعمال کیا گیا۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ مودی کے سابقہ دور حکومت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ حکومت کے نزدیک مسلمان بھارتی شہری ہی نہیں ہیں۔ 2014 میں جب نریندر مودی برسرِ اقتدار آئے تھے تو انہوں نے مسلمانوں کے لیے شہریت کے نئے قوانین متعارف کروائے جو بھارتی مسلمانوں کی شہریت منسوخ کرنے کی مذموم کوشش تھی۔ نریندر مودی کی سرپرستی میں ہی ایودھیا میں انتہا پسند ہندوئوں نے بابری مسجد پر حملہ کر کے اسے شہید کر دیا تھا اور 2023 میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بھی تعمیر کیا گیا۔ 2001 میں گجرات میں فسادات کروائے جن میں ایک ہزار بے گناہ افراد اپنی جان سے گئے۔ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔2019 میں بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ بعد ازاں شہریت کا متنازع قانون منظور کیا جس میں سوائے مسلمانوں کے بھارت منتقل ہونے والے دیگر مذاہب کے لوگوں کو شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
بھارت میں پر تشدد واقعات اور قتل و غارت گری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ چند روز قبل ایک برطانوی جریدے نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را نے 2020 سے اب تک پاکستان میں بیس شہریوں کو قتل کرایا ۔اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بھارت ماورائے آئین قتل میں ملوث ہے۔صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں بھی اِس کی مجرمانہ کارروائیاں جاری ہیں۔
نریندر مودی کی انتشار پھیلانے کی ان پالیسیوں کی تائید راہول گاندھی نے بھی کی ہے ۔انہوں نے بھارتی عام انتخابات کے بعد2 جولائی 2024 کو بطورِ قائدِ حزب اختلاف لوک سبھا میں اپنی پہلی تقریر کی جس میں وزیراعظم نریندر مودی پر کھل کر تنقید کی۔ راہول گاندھی نے دورانِ تقریر قرآنی تعلیمات کا حوالہ دیا اورعقیدت سے حضور نبی اکرمۖ کا ذکر کیا ۔ انہوں نے اسلام کی امن پسندی اور تشدد سے نفرت کا ذکر کیا۔اپنی دو گھنٹے کی تقریر میں انہوں نے بار بار نریندر مودی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ نفرت اور تشدد کے سہارے خوف پیدا کر کے تعصب کی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں۔راہول گاندھی نے لارڈ شیوا جی کی تصویر لہرا ئی اور کہا کہ ہندو مذہب کے عظیم قائدین اور مذہبی شخصیات نے تشدد اور نفرت کا پرچار کیااور نہ ہی کبھی ایسے اوچھے ہتھکنڈوں کوفروغ دیا۔ انہوں نے ایوان میں اسلامی تعلیمات پر مبنی ایک پوسٹر لہرایا اور بابا گرونانک کی تصویر بھی دکھائی۔ یہ تنقید اس بات کی عکاس ہے کہ مودی کی پر تشدد پالیسیوں اور مذموم ہتھکنڈوں سے خود بھارتی سیاسی حلقے کس قدر نالاں ہیں۔
سینگول تنازعہ
مودی کی انتہا پسند سیاست اور بھارت کو ہندو راشٹریہ میں تبدیل کرنے کی کاوشوں میں سینگول کا تنازع نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت کے اندر دائیں بازو کی بہت ساری سیاسی جماعتیں اور رہنما سینگول کو بادشاہت کی علامت سمجھتے ہیں تاہم چند روز قبل سماج وادی پارٹی کے نو منتخب رکن پارلیمنٹ آر کے چودھری نے اپنی رکنیت کا حلف اٹھا نے کے بعد سینگول کے بارے میں ایک ایسی بات کہہ دی جس نے جلتی پر تیل کا کام کر ڈالا۔ان کا کہناتھا : "سینگول ایک تامل لفظ ہے، جس کا ہندی ترجمہ ہے 'بادشاہ کا ڈنڈا'۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملک آئین سے چلے گا یا ڈنڈے سے۔"ان کے اس بیان پر بھارت کا حکمران طبقہ سیخ پا جبکہ دیگر سیاسی حلقوں میں ایک ہنگامہ بپا اور گہری تشویش پائی جا رہی ہے۔گویا انہوں نے براہ راست نریندر مودی کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اشارہ کیا کہ ان سمیت کروڑوں بھارتی عوام اس ڈنڈے یعنی خوف کی سیاست کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے ۔ خیال رہے کہ سونے سے مرصع، ہندو مذہبی علامات والے سینگول یا شاہی عصا کو جنوبی بھارت کے ہندو راجائوں کے اقتدار کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔قدیم ادوار میں ہندو راجہ سینگول کو شاہی تخت کے پاس نصب کرایا کرتے تھے۔ گزشتہ سال مئی میں جب بھارت کی نئی پارلیمنٹ کا افتتاح ہوا تو وزیر اعظم نریندر مودی نے سینگول کو ہندو مذہبی رسم رواج اور عقیدت و احترام کے ساتھ سپیکر کی کرسی کے پاس نصب کیا تھا جس کی اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں نے سخت مخالفت کی تھی اور اسے بھارت کو ہندو راشٹر اکی طرف لے جانے کی بی جے پی کی ایک اور کوشش قرار دیا تھا۔
کٹر ہندو ایم پی ایز کا انتخاب
دیگر مذموم کارروائیوں اور پالیسیوں کے ساتھ ساتھ ایک کوشش یہ بھی کی جا رہی ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ کو جلد از جلد مکمل طور پر ہندو راشٹریہ میں بدل دیا جائے جس کے لیے کٹر مذہبی ذہنیت کے ہندو ایم پی ایز کے انتخاب کی منصوبہ بندی زیر غور ہے ۔حال ہی میں بی جے پی کے ایک اہم سیاسی رہنما راجہ سنگھ لودھ نے لوک سبھا میں بھارت سے ہندو راشٹریہ کے لیے پچاس کٹر ہندو ذہنیت کے ایم پی ایز منتخب کرنے کی تجویز دی ہے جس پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ان کے مطابق ان ایم پی ایز کی بنیادی ذمہ داری ہو گی کہ وہ پارلیمنٹ میں بلا خوف وخطر ہندو راشٹریہ کامطالبہ کریں اور بھارت کو ہندوتوا ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے ہرطرح کی قربانی دینے کے لیے ہر وقت تیار رہیں۔
'ہندوتوا ' پر مبنی فلمیں
بھارت میں پچھلے کچھ سالوں میں ہندوتوا پارٹیوں کے نظریے کو تقویت دینے والی مسلمان مخالف فلموں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 11 مارچ 2022 کوریلیز ہونے والی پروپیگنڈا پر مبنی ایک فلم کا نام 'دی کشمیر فائلز' ہے جس میں 1990 کی دہائی میں کشمیر سے ہندو پنڈتوں کے اخراج کو دکھا کر مسلمانوں پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس وقت کشمیر کے مسلمانوں نے ہندو پنڈتوں پر ظلم و ستم کر کے انہیں وہاں سے نکال دیا تھا۔ ریلیز کے بعد بی جے پی نے اس فلم کی بھرپورحمایت کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ فلم نے کشمیری پنڈتوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کو بے نقاب کیا ۔امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت چند ہندو پنڈتوں نے مالی آسودگی کی خاطر دیگر ممالک کی شہریت لینے کے لیے وہاں سے نقل مکانی کی تھی ۔نتیجتاً بہت سارے ہندو پنڈت یورپی ممالک میں قیام پذیر ہو گئے تھے۔ بی جے پی نے اس فلم کو حکمران ریاستوں میں ٹیکس فری بھی قرار دیا تھا۔
دی کیرالہ سٹوری بھی ایک ایسی ہی فلم ہے جس میں ایک ایسی خاتون کی کہانی بیان کی گئی ہے جو نرس بننا چاہتی ہے۔وہ اسلام قبول کر کے پاکستان کی معروف خفیہ ایجنسی میں شامل ہوجاتی ہے اور پھر بھارت کے خلاف بر سرپیکار رہتی ہے۔ یہ فلم گذشتہ سال مئی میں ریلیز ہوئی تھی جسے بھارتیہ جنتا پارٹی نے خوب سراہا تھا۔اسی طرح 'آرٹیکل 370 'نامی فلم کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بارے میں ہے۔یہ کشمیر پر بی جے پی کے مؤقف کی حمایت کرتی ہے ۔ ان تمام فلموں کی اہم بات یہ ہے کہ ان میں مسلمانوں کو نشانہ یا ہدف تنقید بنایا گیا ہے جو کہ مودی کے مسلمان مخالف بیانیے کو ہوا دے کر ہندوتوا کی تکمیل کی طرف ایک اہم قدم ہے۔
یہ سارے اقدامات بھارتی حکمران جماعت کی مسلم دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ اس وقت بھارت ایک کڑے وقت سے گزر رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ماضی میں کئی مرتبہ بھارتی تہذیب نے بہت سے مشکل ادوار دیکھے ۔یہ دور قدیم سے غیر ملکی مہم جو حملہ آوروں اور لٹیروں کے حملوں کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ کئی مرحلوں پر اسے اپنے ظالم حکمرانوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لیکن کوئی بھی طاقت اس قدیم تہذیب کے تسلسل کو منتشر نہ کر سکی ۔ یہ تہذیب تشدد ، نفرت اور انتشار کے بجائے رواداری، بحث و مباحثے، نئے تصورات، نئے مذاہب اور باہمی احترام کی اقدار کے ساتھ گامزن رہی ۔حالیہ صورت حال کے مطابق بھارتی تہذیب کو ایک بار پھر دشوار گزار راہوں کا سامنا ہے۔یہاں پھلنے پھولنے والی رواداری، ہم آہنگی اور ثقافتی و مذہبی رنگا رنگی اور جمہوری اقدار 'ہندوتوا ' کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں ۔نظریاتی کشمکش پر مبنی مودی کی سیاست معاشرے میں انتشار کو ہوا دے رہی ہے جس کا لا محالہ نتیجہ بھارت کو جمہوریت کے راستے سے ہٹا کر اکثریتی مذہبی مملکت کی طرف دھکیلنے کی صورت میں نکلے گا ۔ ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں جب کبھی بھی بھارت میں اس طرح کا ٹکرائو ہوا ، ہمیشہ بھارتی تہذیبی سیکولر روایات اورمثبت آئینی تصورات ہی غالب رہے ۔ ابھی بھی غالب امکان ہے کہ ہزاروں سال کی تہذیب کا یہ تسلسل ہندوتوا کی بھینٹ چڑھنے کے بجائے یونہی قائم رہے گا۔
مضمون نگارقومی و بین الاقوامی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے