یومِ شہدائے کشمیر، یومِ قرار دادِ الحاقِ پاکستان اور برہان وانی شہید کے بارے میں منعقدہ تقریبات کا احوال
عبدالواجدخان کے قلم سے
تحریک آزادی ِ کشمیر میں ماہ جولائی شہادتوں سے عبارت ہے۔ 1931 میں ڈوگرہ ظالم فوج کے ہاتھوں 22 کشمیری مسلمانوں کو اذان کی تکمیل پر شہید کیا وہ جولائی کی 13 تاریخ تھی۔ پاکستان بننے سے قبل 19 جولائی 1947 کو سری نگر میں ریاست بھر کے مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے قرارداد الحاق پاکستان متفقہ منظور کی گئی اور جولائی میں ہی عظیم کشمیری حریت رہنما برہان مظفر وانی کو شہید کیا گیا ان تینوں اہم ایام کی مناسبت سے آزاد کشمیر سمیت دنیا بھر میں کشمیریوں نے تقریبات، ریلیوں اور بھارت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جن میں سب سے پہلے تذکرہ 8 جولائی کا آتا ہے۔ 8 سال قبل تحریک آزادیِ کشمیر کے عظیم کمانڈر برہان مظفر وانی کو بھارتی فوج نے شہید کیا جن کی آٹھویں یوم شہادت کے موقع پر آزادکشمیر میں سرکاری و نجی سطح پر بڑی تقریبات اور احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، کشمیر لبریشن سیل کے زیر اہتمام مظفرآباد میں بڑا سرکاری پروگرام ہوا جس میں وزیر حکومت محترمہ امتیاز نسیم مہمان خصوصی تھیں جبکہ حریت قائدین انصار و مہاجرین نمائندوں سمیت سیاسی، دینی اور تاجر قیادت نے خطاب کیا، تاہم غیر سرکاری تنظیم اور تحریک آزادی کشمیر کے لیے سب سے زیادہ متحرک پاسبانِ حریت جموں کشمیر کے زیرِ اہتمام ریاست بھر میں ''یوم مزاحمت'' کی مناسبت سے پروگرام منعقد ہوئے۔مظفرآباد میں مرکزی پروگرام ہوا جس میں نہایت مستعد اور چاق چوبند 313 کشمیری نوجوانوں کے منظم دستے نے برہان وانی سمیت شہدائے کشمیر اور پاکستان و آزادکشمیر کے قومی پرچموں کو سلامی پیش کی۔ یہ ایک نہایت منفرد اور منظم پروگرام تھا۔ اس موقع پر پاکستان اور جموں کشمیر کے ترانے پیش کیے گئے۔ کشمیری نوجوانوں نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے بھارت کے خلاف مزاحمت کا حلف اٹھایا اور ''دوڑو آزادی کے لیے'' کے مقابلے میں شرکت کرکے اس عزم کی تجدید کی کہ تحریک آزادی کشمیر کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ مظفرآباد کے ختم نبوّت چوک پرجس کے ایک طرف آزادکشمیر اسمبلی، سپریم کورٹ وہائی کورٹ کی عمارتیں ہیں اور دوسری جانب یادگار شہداء جسے کشمیر مونومنٹ بھی کہا جاتا ہے، موجود ہے۔ کشمیری نوجوانوں نے پاکستان اور کشمیر کے پرچم تھام رکھے تھے، نوجوانوں نے برہان وانی شہید کی تصاویر والی ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں۔ شرکا نے برہان وانی شہید اور دیگر شہدائے کرام کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے بھارت کیخلاف مزاحمت کا حلف اٹھایا۔ کشمیری نوجوانوں نے ''بھارت سے لیں گے آزادی''، ''ہے حق ہمارا آزادی''، '' کشمیری مزاحمت زندہ باد زندہ باد ''، ''جس کشمیر کو خون سے سینچا وہ کشمیر ہمارا ہے ''، ''یہ جنگ ہے جنگ آزادی ''،'' برہان تیرے خون سے انقلاب آئے گا'' جیسے فلک شگاف نعرے بلند کیے۔ کشمیری نوجوانوں نے 'پاکستان سے رشتہ کیا لا اِلٰہ الااللہ 'جیسے نعرے بھی لگائے۔
جولائی کا دوسرا اور اہم ترین دن یوم شہدائے کشمیر ہے۔ یہ دن ہر سال 13 جولائی کو منایا جاتا ہے۔ یوں تو تحریک آزادیِ کشمیر کا آغاز 1886 سے ہوا مگر اس کو قوت اور جلا بخشنے والے 13 جولائی 1931 کے شہدا تھے جنہیں سری نگر جیل کے سامنے ایک مرد مجاہد عبدالقدیر خان کی رہائی کے لیے پرامن احتجاج کے دوران نماز ظہر کی اذان دینے کی پاداش میں ڈوگرہ مجسٹریٹ کے حکم پر سپاہیوں نے یکے بعد دیگرے گولیاں چلا چلا کر شہید کردیا تھا، مگر 22 شہادتوں پر اذان بھی مکمل ہوگئی اور باجماعت نماز بھی ادا کرکے کشمیریوں نے اسلامی تاریخ کاایک نیا باب رقم کردیا، ڈوگرہ فوجیوں کی وحشیانہ فائرنگ سے درجنوں مسلمان زخمی بھی ہوئے۔اس واقعہ پرآل انڈیا مسلم لیگ نے کشمیر کمیٹی قائم کی۔اس کمیٹی کے سربراہ شاعرمشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال تھے، جنھوں نے اپنے کلام کے ذریعے بھی ڈوگرہ سامراج کے ظلم کو اجاگر کیا ۔بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بھی اس واقعہ پر بہت رنجیدہ ہوئے اور انھوں نے کشمیری عوام سے تعزیت اور دکھ کا اظہار کیا۔ تاہم ڈوگرہ نے ہندو انتہا پسندوں کے اشارے پر کشمیریوں کو ستایا اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ کشمیری ہرسال13 جولائی کو یوم شہدائے کشمیر اس عزم کی تجدید کے ساتھ مناتے ہیں کہ شہدا کے راستے پر چل کر آزادی کشمیر کی عظیم منزل کو پائیں گے، یہ سانحہ معمولی نہیں تھا اور اسکا براہ راست ذمہ دارمہاراجہ ہری سنگھ تھا جس کے حکم کے بغیر پتہ تک نہیں ہل سکتا تھا، مگر ڈوگرہ حکومت کے بعد بھارت نے ظلم و ستم کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ بھارتی قابض فوج کی بربریت دیکھیے وہ آزادی کے حامی کشمیریوں کو یہ دن بھی منانے نہیں دیتی۔ آزادی پسندوں کواس یادگارشہداء پرجانے کی اجازت بھی نہیں۔ اس سانحہ عظیم کے بعد 1932 سے ہر سال آزادکشمیر،مقبوضہ کشمیر اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری اس دن کو یوم شہدائے کشمیر کے نام سے مناتے ہیں۔ اسی مناسبت سے امسال بھی سرکاری طور پر جموں و کشمیر لبریشن سیل کے زیر اہتمام یوم شہداء کے حوالے سے مظفر آباد،اسلام آباد، راولاکوٹ، باغ،سدھنوتی، میرپور، کوٹلی، بھمبر، نیلم و جہلم ویلی میں تقریبات اور بھارتی جبری قبضے کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں۔
ماہ جولائی کا اہم اور آخری یادگار ترین دن' یومِ قراردادِ الحاق پاکستان' ہے اگرچہ 19جولائی 1947 کا عظیم دن ہے جسے پہلے نمبر پر بیان کرنا چاہیے تھا مگر تاریخ کے اعتبار سے اسے 8 جولائی اور 13جولائی کی تاریخوں کے بعد تذکرہ کررہے ہیں۔ کشمیریوں کی تحریک حریت کا اہم ترین دن یوم قرارداد الحاق پاکستان ہے۔ یہ وہ عظیم دن ہے کہ جب پاکستان بننے سے قبل19 جولائی 1947 کو سری نگر میں سردار ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوئی تھی مگر انڈیا کو یہ فیصلہ ہضم نہ ہوا اور ڈوگرہ حکومت سے سازباز کر کے انڈین فوج کو کشمیر میں جبری طور پر داخل کر دیا گیا اور مسلم ریاست کو مقبوضہ بنا لیا گیا۔19 جولائی کے دن کشمیری عوام کی جانب سے سری نگر میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے جو تاریخی قرارداد منظور کی گئی اس میں جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کیا گیا تھا۔الحاق کی مذکورہ قرارداد کے مطابق 80 فیصد مسلم آبادی، ریاست کی زبان، ثقافت اور ریاست کے پاکستان کے ساتھ ملحقہ تعلقات کی وجہ سے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ناگزیر ہے۔اس سب کچھ کے بعد تقسیم ہند کے فارمولہ کے تحت کشمیر نے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا تھا۔بھارتی فوج کشی کے اس اقدام کے بعد ایک ایسے تنازع نے سر اٹھایا کہ جس کے نتیجے میں پاک بھارت جنگیں بھی ہوئیں اور اسلحے کی دوڑ بھی شروع ہو گئی۔جبکہ یہ کشیدگی خطے سے نکل کراقوامِ متحدہ تک پہنچ گئی۔بدقسمتی سے یہ عالمی ادارہ اب تک اس تنازع کو حل کرنے میں ناکام چلا آ رہا ہے۔خطے میں عالمی طاقتوں کے سیاسی اور معاشی مفادات کی وجہ سے اقوامِ متحدہ عضو معطل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ کشمیری اپنے آبائواجداد کی منظور کردہ قرارداد کی ہرسال 19 جولائی کو توثیق کرتے ہیں۔ یہ دن منانے کا مقصد بھارت کے غیر قانونی قبضے سے آزادی کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد کی تجدید کرنا ہے۔الحاق پاکستان کا خواب ایک دن ضرور اپنی تعبیر دیکھے گا۔جبر کی رات ضرور ختم ہو گی،رات چاہے جتنی بھی کالی ہو یا طویل، دن کو طلوع ہونا ہی ہوتا ہے، بلاشبہ اس وقت کشمیری ایک تاریک اور طویل رات سے گزر رہے ہیں، بھارت کا بدترین جبر سہہ رہے ہیں مگران شاء اللہ انہیں آزادی کا اجالا دیکھنا جلد نصیب ہوگا۔
قارئین کرام، امسال کشمیری عوام نے پہلے سے بھی بڑھ چڑھ کر 8 جولائی یوم شہادت برہان مظفر وانی، 13 جولائی یوم شہدائے کشمیر اور 19 جولائی یوم قرارداد الحاق پاکستان منایا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور آزادکشمیر کی حکومتیں مسئلہ کشمیر کے فوری حل اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم کے خاتمے کے لیے مؤثر اور ٹھوس اقدامات اٹھائیں تاکہ کشمیری سکھ کا سانس لے سکیں۔
مضمون نگار ایک کشمیری صحافی اور تجزیہ نگارہیں جو مظفرآباد سے شائع ہونے والے ایک روزنامہ کے ایڈیٹر ہیں۔
[email protected]
تبصرے