میں اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے تحفظ اور آگاہی کے لیے48 ممالک کی رضا مندی سے 30 دفعات پر مشتمل عالمی منشور جاری کیا تھاجس کے تحفظ، بہتری اور عمل در آمد کو یقینی بنانے کے لیے ایک مستقل کمیشن برائے انسانی حقوق بھی قائم کیا گیا۔ اس عالمی منشور میںبنیادی انسانی حقوق مثلاََبنیادی آزادی، مساوی حیثیت، آزادانہ نقل و حرکت، آزادی اظہار، باوقار زندگی گزارنے کی آزادی، سماجی تحفظ کا حق، مذہبی آزادی، تشدد اور ظلم و ستم سے تحفظ، غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک یا سزا کا نشانہ نہ بنائے جانے کو یقینی بنایا گیا ہے ۔عالمی منشور کی رُو سے 1947 میں قائم ہونے والا ملک بھارت تو ان تمام بنیادی آزادی کے قوانین کو جیسے بھول ہی گیا ہو اور بھارت نے فوراََ ہی کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا آغاز کر دیا او ر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی پس پشت ڈال دیا۔ بھارت کے اس اقدام سے نہ صرف کشمیریوں کا آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق سلب کیا گیا بلکہ اس سے کشمیریوں کی آزادی اظہار ِ رائے کو بھی یکسر نظر انداز کیا گیا جو جمہوری عمل کا اہم جزو ہے۔
جمہوریت ایک ایسے نظام کا نام ہے جس میں عوام کے حقوق ، جان و مال کا تحفظ اور عزت نفس کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس نظام میں بسنے والے تمام افراد کو مذہب ، نسل یا کسی فرق کی بنا پر کسی کو جانچا نہیںجاتا بلکہ تمام شہریوں کے حقوق یکساںاہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔بھارت دنیا کے سامنے جمہوریت کا پرچار کرنے والا ایسا ملک ہے جہاںنہ صرف انسانیت کی تذلیل عام ہے بلکہ سماجی تضاد کے باعث آبادی کا بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بھارت میں سماجی تضاد کے ساتھ ساتھ مذہبی تضاد بھی عروج پر ہے اور متعصب ہندئووں کی منفی ذہنیت کے باعث آج بھارت میں مسلمانوں کے لیے جگہ تنگ ہو کر رہ گئی ہے۔
بھارت نہ صرف اپنے ملک میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہا ہے بلکہ کشمیر جہاں بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے، میں بھی بنیادی حقوق سلب کر رہا ہے۔ گزشتہ 76برسوں سے بھارت کشمیر پر اپنے غاصبانہ قبضے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کشمیر ی عوام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہر طرح کے مظالم ڈھائے ہوئے ہے اور خصوصاََ گزشتہ 35 برسوں سے تو مظالم کی انتہا کر دی ہے جس کا اندازہ کشمیر میڈیا سروس کے ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنوری 1989 سے جنوری 2024 تک 96 ہزار 320کشمیریوں کو شہید کیا گیاجس کا آٹھ فیصد یعنی 7ہزار 341 کشمیریوںکو زیر حراست شہید کیا گیا۔ مذکورہ عرصے کے دوران 22 ہزار 976 خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ ایک لاکھ 7 ہزار 963 بچے یتیم ہوئے۔11 ہزار سے زائدخواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اورتقریباً دو لاکھ بے گناہ افراد کو حراست میں لیا گیا ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی جب دوسری مرتبہ بر سر اقتدا ر آئی تو اس نے 5 اگست 2019 کو انڈین آئین کی شق 370 ختم کرنے کا اعلان کیا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو نیم خود مختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے مودی حکومت کے اس فیصلے کے بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ۔سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے ہنگامی بنیادوں پر سماعتوں کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔بعد ازا ں انڈین سپریم کورٹ نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 370 آئین کی عارضی شق تھی اور یہ کہ ''جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔'' واضح رہے کہ اس فیصلے سے ایک سال قبل کشمیر میں بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی قیادت والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے حمایت واپس لے کرحکومت گرا دی تھی اور جموں و کشمیر میں براہ راست صدارتی راج نافذ ہو گیا تھا۔
بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیںوہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر لاگو نہیں کیے جا سکتے۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 35-A کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا تھا۔ بھارت نے آرٹیکل 370 اور35-Aختم کرنے سے قبل مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کر دیے تھے کیونکہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو قبول نہیں کریں گے۔ان آرٹیکلزکو ختم کرنے کے جہاں دیگر کئی مقاصد تھے وہاں ایک اہم مقصد خطے سے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنا بھی تھا۔ اس مقصد کے لیے بھارتی حکومت نے ہندوئوں کو کشمیر میں بسانے کے لیے اقدامات شروع کیے۔ سابق بھارتی فوجیوں اور دیگر کئی محکموں کے اہلکاروں کو کشمیر میں بسانے کے لیے انہیں سستے داموں رہائشی سہولیات فراہم کرنے کے اقدامات بھی کیے گئے۔ بھارت کے ان تمام اقدامات کا ایک ہی مقصد تھا کہ کشمیر سے مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا اور وہاں جاری آزادی کی جدوجہد کو کچلناتھا۔
بھارت نے راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی اور ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیر انتظام دو حصوں یعنی یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کر دیا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا حصہ جموں اورکشمیر پر مشتمل ہو گا۔اس بل کے مطابق جموں کشمیر سے لداخ کا خطہ الگ کر کے اسے بغیر اسمبلی والی یونین ٹیریٹری بنایا گیاجبکہ جموں وکشمیر کو اسمبلی والی یونین ٹیریٹری بنایا گیا۔تاہم یہ اعلان کرنے سے دو روز قبل کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ ٹیلیفون، موبائل اور انٹر نیٹ کی سروسز معطل کر دی گئیںاور معروف سیاسی و سماجی لیڈروں کو قید کر دیا گیا تھا۔
بھارت نے یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کروائے اور کشمیر میں مظالم مزید تیز کر دیے۔بھارتی افواج نے انسانیت کی تذلیل کے لیے پبلک سیفٹی ایکٹ، ٹیرارسٹ اینڈ ڈسرپٹو ایکٹویٹز اور آرم فورسز سپیشل پاورز جیسے کالے قوانین بنا رکھے ہیں۔پی ایس اے ایک ایسا قانون ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کوحراست میں رکھا جا سکتا ہے اور بھارتی پولیس نے اس قانون کا جواز بنا کر کشمیریوں کو کسی جرم کے بغیر حراست میں رکھنا شروع کر دیا جبکہ ٹی اے ڈی اے قانون کو جواز بناتے ہوئے لوگوں پر دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے اور اے ایف ایس پی قانون کے مطابق فوج کو ایسے اختیارات دیے گئے جس کے تحت وہ کبھی بھی کسی کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی کر سکتے ہیں اور اس قانون کی آڑ میں بھارتی افواج نے کشمیریوں کے گھروں میں گھس کر نہ صرف خواتین اور بچوں کو ہراساں کیا بلکہ چادر اور چار دیواری کے تقدس کو بھی پامال کیا۔
مقبوضہ کشمیرمیں جاری تنازعات اور ہنگامہ آرائی نے کشمیری معاشرے کے تقریباََ ہر پہلو پرتباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔تعلیم جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے، سے خطے کے بچوں کو محروم رکھنے کے لیے درسگاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جس کا اندازہ اس سروے سے لگایا جا سکتا ہے کہ خطے میں 1990 سے2023 تک اوسطاََ سالانہ 88یعنی کل 3000 سے زائد تعلیمی ادارے بند ہوئے۔ 90 کی دہائی کے بعد پیدا ہونے والے بچے مسلسل تشدد اور غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے سکول جانے کے بجائے گھروں میںٹھہرے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں 27 لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں اور بھارتی مظالم کے باعث خطے میں خواندگی کی شرح کم ہو رہی ہے۔
بھارتی درندگی اور سفاکیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور ایسے افراد خوراک جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہیں۔ خوراک کی محرومی کے باعث کشمیری بچوں کی اکثریت کم وزنی کا شکار ہے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر استثنیٰ حاصل ہے جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میںملوث بھارتی اہلکاروں کا احتساب ممکن نہیں۔ بھارتی استعماریت سے تنگ آکر پچھلے بیس سالوں میں 1700 سے زائدافراد نے خود سوزی کی ہے۔ کشمیر کے ہسپتالوں میں بھارت کی بربریت کا شکار ہونے والے ایک لاکھ سے زائد افراد داخل ہیں۔بھارتی فوج کے تشدد کے باعث اکثریت ذہنی مریض بن چکی ہے۔
مضمون نگار ایک قومی اخبار کے ساتھ وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے