بھارت نے 5سال قبل اپنے آئین سے آرٹیکل 370 نکال کر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ بھارتی حکومت کا5اگست 2019 ء کے غیر آئینی اقدام کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کم کرنا اور بھارتی باشندوں کو آباد کرناہے۔ اس غیر آئینی اقدام کے بعد بھارت مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو تیزی سے تبدیل کررہا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت مقبوضہ کشمیرکے عوام کو بھارت سے ایک الگ شناخت حاصل تھی جسے مودی سرکار نے بیک جنبش قلم ختم کر دیا ۔ بھارت 1947 میں جموں وکشمیر پر ناجائز فوجی تسلط قائم کرنے کے بعد کشمیری عوام کو مستقل طور پر محکوم بنانے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت سے محروم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ 5اگست2019کو آئین کے آرٹیکل 370کے تحت مقبوضہ کشمیر کو حاصل''خصوصی حیثیت'' ختم کرنا اس کی توسیع پسندانہ پالیسی کا حصہ ہے ۔ بھارت کشمیر کی سرزمین پر جبری اور ناجائز فوجی تسلط کو برقراررکھنے کے لیے اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لا رہا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کی کشمیر پالیسی ہٹ دھرمی اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ اگرچہ مودی سرکار کے اس اقدام سے تحریک آزدیٔ کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے لیکن کشمیری عوام نے مودی سرکار کے اس اقدام کے سامنے ''سرنڈر'' نہیں کیا۔کشمیری عوام کی تحریک آزادی کی93سالہ تاریخ ہے جو کم و بیش پوری صدی گزرنے کے باوجود ختم نہیں ہوئی بلکہ5اگست2019ء کے اقدامات کے بعد تیز تر ہوئی ہے۔ کشمیری عوام ''اب یا کبھی نہیں'' کے جذبے سے بھارت سے آزادی حاصل کرنے کی جدو جہد کر رہے ہیں ۔
26اکتوبر1947کو مہاراجہ ہری سنگھ اور بھارت سرکار کے درمیان مقبوضہ کشمیر کو آئینی طورپر خصوصی حیثیت دینے کا معاہدہ ہوا تھا جس کے بعد 17اکتوبر1949ء کو آئین کا آرٹیکل 370 نافذ کیا گیا اس وقت بھارت کا آئین بھی تیاری کے مراحل میں تھا۔ 26جنوری1950ء کو بھارتی آئین نافذ ہوا۔بھارت اس دن کی مناسبت سے ''یوم جمہوریہ '' مناتا ہے جب کہ پوری دنیا میں کشمیری اس دن کو ''یوم سیاہ'' کے طور پر مناتے ہیں۔بھارت کی جنتا پارٹی دائیں بازو کی متشدد جماعت ہے۔ وہ شروع دن سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی مخالف تھی۔ اس نے 2019 ء کے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں مقبوضہ کشمیر کو آئینی طورپر بھارت کا اٹوٹ انگ بنانے کے لیے آرٹیکل 370 اور 35اے کو ختم کرنے کا اعلان کیا جسے اس نے 5اگست2019ء کوپورا کر دکھایا۔ اس منصوبے پر عمل درآمدکے خلاف کشمیری عوام کی طرف سے ممکنہ شدید رد عمل کو روکنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں طویل عرصہ کے لیے کرفیو لگا دیا جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین محمد علی گیلانی سمیت پوری کشمیری قیادت کو جیلوں، عقوبت خانوں اور گھروں میں نظربند کردیا گیا۔ بیشتر قائدین کی وفات دوران قید ہوئی۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری ہے مقبوضہ کشمیر کو ایک بڑے قید خانہ میں تبدیل کر دیا گیا ۔ مقبوضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی قابض فوج تعینات ہے۔ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے باوجود کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی جوش و جذبے سے جاری ہے ۔ بھارت کشمیر میں ہندوتوا کی پالیسی پر عمل پیرا ہے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کا خاتمہ اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ کشمیریوں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ مودی سرکار ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے مزید اقدامات کرے گی۔ بھارت کے 2019ء کے غیر قانونی اقدام کے بعد اب بھارت میں مقیم ہندو مقبوضہ کشمیر میں زمین اور جائیداد خریدنے کے علاوہ نوکری اور شہریت بھی حاصل کررہے ہیں۔ بھارتی حکومت نے 2020 ء میں کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے اجراء سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے جس کے بعد اب تک لاکھوں بھارتیوں کو مقبوضہ کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں جس سے کشمیرکی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب کم کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے ۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کو ختم کرنے سے مقبوضہ کشمیرکی ہیئت ترکیبی کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا لیکن بھارتی حکومت نے آئین کے آرٹیکل370کو ختم کر کے وہاں کانسٹی ٹیوشن (ایپلی کیشن ٹو جموں و کشمیر)آرڈر 2019'' خصوصی آرٹیکل نافذ کیا ہے جس کے تحت اب مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیر انتظام کرنے سمیت وہاں پر بھارتی قوانین کا نفاذ بھی کیا جا رہا ہے۔ مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کر دیا ہے اور اسے براہ راست وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دے دیا گیاہے جہاں اسمبلی کا کوئی وجود نہیں ہوگا۔ بھارت کے آئین میں کشمیر کے حوالے سے دو آرٹیکل شامل تھے۔ آرٹیکل ۔1کے تحت جموں و کشمیر بھارت کی ایک ریاست ہے جب کہ دوسرا آرٹیکل370تھا۔ اگرچہ یہ آرٹیکل عارضی تھا لیکن اس کے تحت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تسلیم کیا گیا تھا۔ 14مئی1954ء کو ایک صدارتی آرڈیننس جاری کر کے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو مزید واضح کر دیا گیا تھا،اسے ''دی کانسٹی ٹیوشن ایپلی کیشن ٹوجموں و کشمیر 35اے'' کا عنوان دیا گیا اور اسے بھارتی آئین میں شامل کر دیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 35اے کے تحت مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی دیگر ریاستوں کے شہریوں کو مستقل شہریت سے محروم کر دیا گیا تھا۔ دراصل یہ آرٹیکل اس وقت کشمیری قیادت کے دبائو پر بھارتی حکومت کو آئین میں شامل کرنا پڑا۔ اس آرٹیکل میں مقبوضہ کشمیر کے مستقل شہری کی وضاحت کر دی گئی تھی اور مقبوضہ کشمیر میں زمین کی خریداری کے بارے میں بھی وضاحت دی گئی تھی جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کا پیدائشی ہی وہاں زمین خرید سکتا ہے۔ کم و بیش 70سال قبل یہ اقدام کشمیریوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔ انہیں جو آئینی ضمانت فراہم کی گئی اسے مودی سرکارنے بیک جنبش قلم ختم کر دیا۔ مودی سرکار کی یہ پیش بندی کشمیر میں ممکنہ رائے شماری سے قبل مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے، مستقبل قریب میں بھارت سرکار مقبوضہ کشمیرکی مسلم اکثریت ختم کرنے کے بعد کسی وقت بھی رائے شماری کا ڈرامہ رچانے پر آمادگی کا اظہار کر سکتی ہے۔
بھارت سرکار نے آئین کے آرٹیکل 370کی صرف ایک شق برقرار رکھی ہے جس کے تحت صدر مملکت تبدیلی اور حکم جاری کرنے کا مجاز ہو گا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے داخلہ امور وزیر اعلیٰ کے بجائے براہ راست وفاقی وزیر داخلہ کے تحت آگئے ہیں جو لیفٹیننٹ گورنر چلا رہا ہے۔ بظاہرمودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام کرنے کا فیصلہ علاقے میں سکیورٹی کی صورت حال اور مبینہ طور پر سرحدپار سے ہونے والی دہشت گردی کی آڑ میں اٹھایا ہے مگر گزشتہ 5سال سے کشمیری، بھارت سرکار کے اس منصوبے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ سرینگر سے لے کر نیویارک تک ہر فورم پر کشمیری عوام نے اپنااحتجاج ریکارڈ کرایا ہے لیکن بھارت ہندوتوا کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے ۔
قبل ازیں بھارت کے تمام مرکزی قوانین ریاستی اسمبلی کی منظوری کے بغیر نافذ العمل نہیں ہو سکتے تھے اب جموں و کشمیر میں خود بخود نافذ ہو رہے ہیں اس طرح جموں و کشمیر کا پورا علاقہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے دائرہ اختیار میں آگیا ہے۔ جموں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی مدت 6سال سے کم کر کے5سال کر دی گئی ہے۔ اب مقبوضہ کشمیر میں تعزیرات ہند نافذ العمل ہو گئی ہے۔ تقسیم ہند کے وقت جموں و کشمیر کے حکمران راجہ ہری سنگھ نے ابتدا میں خود مختار رہنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن بعد ازاں بھارت کے دبائو میں آکر مشروط طور پر بھارت سے الحاق پر رضامندی ظاہر کر دی تھی۔ اس صورت حال میں بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کا اضافہ کر کے وفاق اورجموں و کشمیر کے تعلقات کا تعین کر دیا گیا اور اس آرٹیکل کے تحت جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں خصوصی حیثیت دی گئی ۔ ریاست جموں و کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعظم شیخ عبد اللہ اور وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے درمیان 5ماہ کے مذاکرات کے نتیجے میں آرٹیکل 370کو آئین میں شامل کیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 370کے خاتمہ کے بعد ریاست کو اپنا پرچم رکھنے کا اختیار بھی ختم کر دیا گیا۔ 5سال گزرنے کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں صورت حال معمول کے مطابق نہیں۔ کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے پوری ریاست فوج کے حوالے کر دی گئی ہے اس کے باوجود تحریکِ آزادی کی شدت میں کمی نہیں آئی۔ کشمیری جوانوں نے قوم کے لیے اپنا آج قربان کر کے تاریخ میں جرأت و بہادری کی ایک نئی داستان لکھی ہے۔ کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کا آغاز13جولائی1931سے ہوا جو 93سال گزرنے کے باوجود جاری ہے۔ اگرچہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جبر کی سیاہ رات طویل ہو گئی ہے لیکن کشمیریوں نے بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ بھارتی افواج کو کشمیری حریت پسندوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے ۔ پاکستان 5اگست2019 ء کے بھارتی حکومت کے اقدامات کے خلاف پوری دنیا میں آواز اٹھا رہاہے۔ جب تک کشمیر کے عوام کو اپنی قسمت کا خود فیصلہ کرنے کا حق نہیں مل جاتاجدو جہد جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی قابض فوج تعینات ہے۔ بھارت نے اس سال مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات کی تیاری مکمل کررکھی ہے۔ کشمیر اسمبلی کی نئی حد بندی کی گئی ہے یہ سب کچھ مقبوضہ کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں اس وقت بھی ہزاروں افراد جیلوں میں ہیں۔ ہزاروںحریت رہنمائوں اور آزادی پسند کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ بھی شبیر احمد شاہ بھی شامل ہیں۔ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک بھی جیل میں ہیں، وہ دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض بھی جیل میں قید ہیں۔ تحریک آزادی کے بعض کارکنوں کو موت اور عمر قید کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔
1949 سے جموں وکشمیر میں لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین تعینات ہیں۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی تعیناتی کشمیر کے متنازع ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ 5 اگست2019کے بعد مقبوضہ علاقے میں بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی فورسز نے 5 اگست 2019 سے اب تک غیر قانونی کارروائیوں کے دوران 900 کشمیریوں کو جعلی مقابلوں اور فوجی کارروائیوں میں شہید اورلگ بھگ 25 ہزار کشمیریوں کو گرفتار کیا۔ آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد جائیدادوں کی قرقی کا سلسلہ جاری ہے۔ مودی حکومت 2019 سے لے کر اب تک مقبوضہ علاقے میں 600 سے زیادہ جائیدادوں کو سیل کرچکی ہے۔ 4 ہزار سے زائد جائیدادوں کو ضبط کرنے کے لیے بھارتی وزارت داخلہ کی فہرست میں شامل کردیاگیاہے۔ 5 اگست 2019 کے بعد سے اب تک 160 سے زائد سرکاری ملازمین کو بھی نوکری سے برطرف کیا جاچکا ہے۔
ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والے غیر کشمیریوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن 5 اگست 2019 کے بعد مجموعی طور پرتقریباً 38 لاکھ افراد کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کا اجراء مقبوضہ کشمیر کے قانونی رہائشی فریم ورک میں نئے داخل ہونے والوں کی ایک قابل ذکر تعداد کی نشاندہی کرتا ہے۔
مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔ ایک اخبار کے ساتھ بطورِ کالم نویس منسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے