وطن عزیز 14اگست1947ء کو دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اسلامی ریاست کے طورپر ابھرا۔ ایک عظیم مقصد کے تحت وجود میں آنے والا دنیا کا یہ واحداسلامی ایٹمی ملک ہے جس کی بنیاد لاالٰہ الاللہ ہے ۔اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے اور خاص طور پر نسل نو کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ تحریک پاکستان کے مجاہدین اور اکابرین نے پورے خلوص اور جاں گسل محنت و جدوجہد کے بعد یہ وطن حاصل کیا تھا۔اگر موجود ہ دور میں پاک وطن کو کچھ چیلنجز اور مشکلات درپیش ہیں تویہ ہماری اپنی نااہلی اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ اکابرین نے تو ہمیں ایک آزاد وطن حاصل کرکے دے دیا تھا ، اس کے بعد اسے سنوارنا ہمارا کام تھا۔
قارئین! ہمہ قسم کی نعمتوں سے مالامال اورجغرافیائی اعتبار سے دنیا کے اہم ترین مقام پر واقع اس ملک کی قدر کرنا اور اس کی بہتری کے لیے کام کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وطن کی حفاظت اور اس کی تعمیر وترقی کے لیے ہر شہری کمربستہ ہو جائے اور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ملکی سلامتی کے لیے آگے بڑھے ۔آج یہ دھرتی جن نامساعد حالات میں گھری ہوئی ہے اسے مستحکم بنانے کے لیے ایک بار پھر اسی جذبے کی ضرورت ہے جو تحریک پاکستان کے موقع پر کارفرما تھا۔وطن کی حفاظت کے ضامن ادارے تو اپنا فرض پورا کرر ہے ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ بھارت سے ملحقہ لائن آف کنٹرول سے لے کر افغانستان اور ایران کی سرحدوں تک سکیورٹی فورسز وطن دشمنوںکے خلاف برسرپیکار ہیں اورآئے روز جوان اپنی قیمتی جانوںکانذرانہ پیش کرکے سبز ہلالی پرچم کو بلند رکھے ہوئے ہیں ۔جب ایک جوان یاافسرشہید ہوتا ہے تو اس کی پوری فیملی متاثر ہوتی ہے لیکن آج تک ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے اس تیز ترین دور میں بھی کوئی ایسا ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا جس میں کسی شہید کی فیملی کی جانب سے کبھی مایوسی کااظہار کیا گیا ہو۔بے شک جب تک وطن پر مرمٹنے والے ایسے ہیروز اور ان کے باہمت والدین اور بچے موجود ہیں، اس وطن کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ذیل کی سطور میں ہم شہدائے افواج پاکستان کے چند ورثاء کے تاثرات پیش کر رہے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہیدوں کے یہ بچے اور والدین کس حد تک اپنے وطن سے محبت کرتے ہیںاور وطن کی خاطر دی گئی اپنے پیاروں کی قربانیوں کوسراہتے ہیں ۔
کیپٹن اسفندیار بخاری شہید کے والد ِ محترم ڈاکٹر فیاض بخاری نے کہا کہ ہزاروں بوڑھے، بچے اور جوان تشکیل پاکستان کی کوششوں میں زندگی کی بازی ہار گئے، سیکڑوں جوان لڑکیاں اپنی عزت وعصمت حصولِ وطن کے لیے قربان کرگئیں۔ مخلص اور مسلم لیڈر کی بے لوث اور مسلسل جدوجہد رنگ لائی اور14 اگست1947 کو پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوگیا۔
گزشتہ 76 برسوں سے ''افواجِ پاکستان '' کے جوان، پاکستان کو قائم رکھنے کے لیے مسلسل اپنا پاکیزہ خون دیے جارہے ہیں۔ میرا پسر عزیز کیپٹن اسفندیار بخاری دو سال تک وطن دشمنوں سے برسرِ پیکار رہا اور پھر معرکۂ بڈھ بیرپشاور میں دلیرانہ کمانڈ کرتے ہوئے فتح کو وطن کی جھولی میں ڈالتے ہوئے امر ہوگیا۔ یاد رہے کہ اس آپریشن میں اُس کی ڈیوٹی نہ تھی۔بحیثیتِ پدر شہید میرا قوم کو پیغام ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کے اس اقدام کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کریں تاکہ ہمارے جوان اپنا فرض یونہی نبھاتے رہیں۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کو ہمیشہ قائم رکھے اور خوشحال بنائے ۔ آمین
کارگل میں جامِ شہادت نوش کرنے والے کیپٹن عمار شہید کی والدہ نے کہا کہ یہ ملک صرف فوج اور اس کے بہادر غازی اور شہداء کی وجہ سے قائم ہے۔انہوںنے کہا کہ ہر سال 14 اگست ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ آزادی کی ایک قیمت ہے جس کو برقرار رکھنے کے لیے افواجِ پاکستان کے سپوت اور قوم قربانیاں دے رہے ہیں۔ میرا بیٹا بھی دفاعِ وطن کی خاطر جان نچھاور کرگیا، مجھے اس پر فخر ہے۔ انہوںنے کہا کہ ہمیں ہر وہ اقدام بجا لانے چاہئیں جس سے ہمارا ملک مشکلات اور کٹھن مراحل سے نکل کر ایک باوقار ریاست کا روپ دھار سکے۔
حوالدار قیصر غفور شہید کی بیٹیوں زہرہ قیصراورفائزہ قیصر نے ''ہلال''سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ''ہم جہاں بھی جاتی ہیں بڑے فخر کے ساتھ بتاتی ہیں کہ ہم شہید ِ پاکستان کی بیٹیاں ہیں اورلوگ بہت شفقت سے ہمارے ساتھ پیش آتے ہیں۔ہمارا عزم ہے کہ ہم تعلیم حاصل کر کے پاک فوج کی میڈیکل کور جوائن کریں اور اپنے بہادر والد کی طرح اس ملک کی خدمت کریں۔ پاکستان کی حفاظت صرف پاکستانیوں کا ہی نہیں، دنیا کے ہر مسلمان کا فرض ہے۔ پاک فوج کے جوانوں اور افسروںکی شہادتوں کی بدولت آج یہ ملک محفوظ ہے۔ پاکستانی عوام کو شہداء کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ صرف ان کی وجہ سے ہم اپنی زندگی سکون سے گزار رہے ہیں اور ہیروز کی وجہ سے دشمنانِ انسانیت ابھی تک اپنے ناپاک مشن میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یوم آزادی کے موقع پر ہمارا پیغام ہے کہ ہمیںہر صورت آزدی کی قدر کرنی چاہیے۔ آزادی کی قدرہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ہماری طرح کئی بچوں نے اپنے باپ کو کھویا ہے۔ کئی بہنوں نے بھائیوں کو کھویا ہے۔ہم پاک وطن کے لیے ہر لحظہ دعاگو ہیں''۔
کیپٹن حافظ کاشان علی نویدکی بلندحوصلہ والدہ شہناز لیاقت فخر سے بتاتی ہیں کہ ''پاکستان ہمار ا وطن ہے ۔ اس سے محبت کرنا اور اس کی سلامتی کے لیے کوششیں اوردعائیں کرنا ہم پر فرض ہے۔ میرا بیٹا پاک وطن کی خاطر جنوبی وزیرستان میں لڑتے ہوئے غازی بنا اورپھر لائن آف کنٹرول(بھمبرسیکٹر) پر سبزہلالی پرچم کی خاطر دشمن سے لڑتا ہوا جام شہادت نوش کرگیا۔ میں رب ذوالجلال کا شکر ادا کرتی ہوں کہ ایک حافظ قرآن اور شہید کی ماںہوں۔ اس یوم آزادی کے موقع پرمیرا قوم کے نام یہی پیغام ہے کہ یہ وطن بہت قیمتی ہے ،یہ آزادی ہم نے بہت بڑی قیمت دے کر حاصل کی ہے اور ابھی تک ہمارے بچے اس ملک کی خاطر جانیں قربان کر رہے ہیں۔پوری قوم کو چاہیے کہ اپنے وطن کی بہتری کی خاطر کام کریں اور ہرگز کوئی ایسی سرگرمی نہ دکھائیں جس سے ملک کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو''۔
کیپٹن ڈاکٹر شرجیل شاہد شنواری شہید کے والدِ گرامی میجر(ریٹائرڈ) شاہد نور نے کہا کہ ہمارے یہ شہداء ہمارا سرمایہ ہیں، یہ ہماری بقا و سلامتی کی ضمانت و علامت ہیں، یہ شہدا ء ہمیں وطن عزیز پر تن من دھن قربان کرنے کا حوصلہ اور جذبہ دیتے ہیں، یہ شہدا ہمارے ضعیف والدین کے بڑھاپے کا سہارا ہیں، یہ شہدا ہمارے بچوں کے مستقبل کی ضمانت ہیں۔مجھے بحیثیت والد اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے۔انہوںنے کہا کہ آج بھی ملکی سلامتی اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے اپنے شہدا ء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شہادتوں اور قربانیوں کا یہ مقدس اور لازوال سلسلہ جاری و ساری ہے۔ شہید کبھی نہیں مرتا اور تا حیات یاد رکھا جاتا ہے، ہمارا فرض ہے کہ ہم بحیثیت باشعورقوم شہدا پاکستان کے خاندانوں کے ہرفرد کو یاد رکھیں اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔ دعا ہے کہ پاک پرودگار افواج پاکستان اور سکیورٹی اداروں کے ان سپاہیوں کو سربلند رکھے جو برف زاروں، ریگزاروں، اور کہساروں پر اہلِ پاکستان کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھتے ہیں۔
حوالدار تیمور حسین شہید کے بھائی عمران بٹ کاکہناتھا'' ہم سب لوگ اس بہادرجوان کی شہادت پر غمزدہ ہیں لیکن اللہ کاشکر بھی ادا کرتے ہیں کیونکہ موت کاایک وقت تو مقررہے۔اگر ہمارا بھائی پاک فوج میںنہ بھی جاتا تو پھر بھی موت تو اسے آنی تھی ،ہمارے لیے فخر کی بات یہ ہے کہ آج ہمارے گھر کو شہیدکاگھرانہ کہاجاتا ہے اور لوگ ہماری عزت کرتے ہیں۔ہمار ا بھائی پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوا اوریہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے۔اس یوم آزادی کے موقع پر میں اس ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لیے ہر دم دعا گوہوں ۔ہمیں ملک کو عظیم تر بنانے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے''۔
سپاہی معراج ربانی شہیدکی ضعیف والدہ اوران کے بڑے بھائی محمدعتیق ربانی اپنے بہادر بھائی اور بیٹے کی داستان فخر سے بیان کرتے ہیں تو بہت پُرجوش ہوجاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ'' معراج ربانی پاک فوج میں اپنی مرضی سے گیا تھا۔اس نے فوج جیسی نوکری بڑی ہمت اور جرأت کے ساتھ کی ۔معراج ربانی نے کرم ایجنسی میں آپریشن المیزان میں دادِشجاعت دیتے ہوئے اپنی جان وطن پر قربان کی۔ہم سب اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے بیٹے نے مملکت خداداد کی بقاء اور سا لمیت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔وہ جب بھی چھٹی آتا اپنے دوستوں میں بیٹھ کر فخریہ طور پر اپنے فوجی کارنامے بیان کرتا۔ یوم آزادی کا یہی تقاضا ہے کہ ہم اکابرین تحریک پاکستان اور وطن کی حفاظت کرنے والے معراج شہید جیسے بہادرجوانوں کی قدر کریں اور شہیدوں کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کرتے رہیں۔''
میجر شجاعت حسین کے والد طالب حسین اور والدہ ثریّا پروین نے اپنے جذبات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ''تحریک پاکستان کے موقع پر مجاہدین آزادی نے قیام وطن کی جنگ لڑی اور اب ملکی سرحدوں کے محافظ جوان اس وطن کی بقاء اور سلامتی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس ملک کی حفاظت میں ہمارا خون بھی شامل ہے اور ہمارے لخت جگر نے وطن پر قربان ہو کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔ شجاعت جیسے بیٹے روز روز پیدا نہیں ہوتے ۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے پاک فوج کی تاریخ بتا رہی ہے اور معرکہ وادیٔ شوال اور معرکہ انگور اڈہ کے حیرت انگیز حقائق بتا رہے ہیں۔ ''
کیپٹن بلال خلیل شہیدکے والد محمد خلیل شاہد اور چھوٹے بھائی بلاول خلیل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا''ہم نے اپناخوبصورت بیٹااوربھائی پاکستان پر قربان کردیا۔ اس کاکھلتا چہرہ آج بھی یاد آتاہے تو ہمیں بہت اداس کرجاتاہے۔ایک بارہم نے اس کے پاس گن دیکھی توہم نے کہاآپ توڈاکٹرہو۔آپ کابندوق سے کیاکام؟ کہنے لگا پاک فوج میں جتنے بھی لوگ ہیں یہ سب سے پہلے ایک سولجراور فائٹرہوتے ہیں اس کے بعد کچھ اور۔ ہرسال جب بھی یوم آزادی آتا ہے ہمیں ان ہیروز کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے اپناتن من دھن اس دھرتی پر قربان کیا۔بلال شہید بھی انہی ہیروز میں شامل ہے،جو قومیں اپنے ان ہیروز کے تذکروں کو زندہ رکھتی ہیں انہیں کوئی زوال نہیں آسکتا''۔
پاک فضائیہ کے سپوت خالد نویدشہید کے بیٹے موحد نویدجب اپنے بابا کو یاد کرتے ہیں تو اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آتے ہیں۔ محمدموحد بتاتے ہیں :''جب میرے بابا نے اپنی جان اس وطن پر قربان کی تب میری عمر صرف دو سال تھی ۔ میں بہت کم عمر ی میں ان کی محبت اورشفقت سے محروم ہوگیا تھا۔میں اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس ملک کی خدمت کروں گا ۔یوم آزادی ہم سے ایک نئے جذبے کا تقاضا کرتا ہے''۔
نائیک مختار حسین سیال شہید کے بڑے بیٹے افتخار حسین سیال کہنے لگے '' ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔ہمارے والد نے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ والد صاحب کورخصت ہوئے دس سال کا عرصہ بیت گیا ہے مگرا ج بھی ان کی جدائی کازخم روزِاوّل کی طرح تازہ ہے ۔ہم دعاگو ہیں کہ ان شہیدوں کی لازوال قربانیوں کے صدقے اللہ کریم اس وطن میں امن قائم فرمادے۔ نائیک مختار حسین سیال شہید کے چھوٹے بچوں زین عباس اور جون عباس نے اپنے جذبات کااظہارکرتے ہوئے کہا''یہ ملک ہمیں جان سے بھی پیارا ہے۔ہماری دعا ہے یہ دھرتی سلامت ہے''۔
میجر علی رضا شہید کے بڑے بھائی سید آفتاب رضااوروالدہ محترمہ نے کہا کہ ''ہمیں تو پاک دھرتی کی بہت قدر ہے کیونکہ اس کی بقاء کے لیے ہم نے اپنا لخت جگر قربان کیا ۔یوم آزادی عزم ، ہمت ، استقامت اور قربانیوں کی یادیں دلاتا ہے۔ہمارے بیٹے نے اس وطن کے تحفظ اور بقاء کی خاطر قربانی دی اور ہمیشہ کے لیے امرہوگیا۔ شہید نے اپنی مرضی سے انفینٹری کاانتخاب کیا اورپنجاب رجمنٹ کاحصہ بن گئے ۔ اس کے بعد وہ ایس ایس جی میں شامل ہوئے اور چراٹ ٹریننگ سنٹر میں کمانڈو کی خصوصی تربیت حاصل کی۔ شہید کی والدہ کہنے لگیں جب بیٹے کے سینے پر ''کمانڈو''کا بیج لگا تو میں بہت خوش ہوئی تھی کہ میرا بیٹا کمانڈو بن گیا ہے۔14اگست کے موقع پر ہمارا قوم کے نام پیغام ہے کہ آزادی اور اپنے وطن کی قدر کریں اور استحکام وطن کی خاطر لڑنے والے سپوتوں اور ان کے پسماندگا ن کو بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیں''۔
مضمون نگار شعبہ صحافت کے ساتھ منسلک ہیں
[email protected]
تبصرے