برعظیم پاک و ہند میں 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مسلم اقتدار کا چراغ گل ہو گیا۔ مسلمان حاکم تھے لیکن اپنی نااہلی کی وجہ سے محکوم بن گئے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے چال بازیوں سے قدم جمائے اور مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوئوں اور سکھوں کو اپنے ساتھ کر لیا۔ احساسِ زیاں رکھنے والے مسلمان ان حالات سے بہت دل برداشتہ ہوئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب ہمیشہ دانش وروں کے اذہان میں جنم لیتے ہیں۔ سر سید احمد خان نے ایک تحریک کی صورت مسلمانوں کو بیدار کیا۔ آزادی کی دہلیز تک پہنچنے میں 90سال کی مسلسل جدوجہد رنگ لائی۔ پاکستان 14 اگست1947ء کو معرض وجود میں آیا۔ شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمدا قبال کے خاکہ میں بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے حقیقت کا رنگ بھر دیا۔ اُن کی ولولہ انگیز قیادت نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ قیامِ پاکستان کے وقت ہم بے سروسامان تھے۔ مہاجرین کی آباد کاری، پاکستان میں موجود غیر مسلم اقلیتوں کے مسائل ، سرکاری دفاتر کی آباد کاری ، دفاعی ترجیحات اور دیگر رکاوٹیں حکومت کے سامنے تھیں۔ 10لاکھ مسلمانوں کا لہو اس نوزائدہ مملکت کے سر پر سایہ بنا ہوا تھا۔ مسلمانوں نے ان سب مسائل کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح 11ستمبر 1948ء کو ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ اس دکھ نے پاکستانیوں کو رنجیدہ کر دیا۔ قوم کرب و الم کا شکار تھی کہ بھارت نے اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر حملہ کر دیا۔ پاک فوج نے اس حملے کو نہ صرف پسپا کیا بلکہ پڑوسی ملک پر یہ بات واضح کر دی کہ ہم زندہ قوم ہیں اورملکی سلامتی کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرسکتے۔
14اگست1947ء کو لیلتہ القدر کی نعمتوں میں مسلمانوں کو پاکستان ایک نعمت خداوندی کی صورت میں ملا۔اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو لاتعداد نعمتوں سے سر فراز کیا۔ مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جتنی قربانیاں دیں، اللہ پاک نے اس سے کہیں زیادہ انعام و اکرام سے نوازا۔ اللہ کریم محنت کرنے والوں کا دوست ہے۔ اللہ رحیم کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا۔ انگریز' ہندو اور سکھ پاکستان کے مطالبے کو خواب کہتے تھے لیکن یہ خواب حقیقت ثابت ہوا جسے دنیا نے تسلیم کیا۔ اس خواب کی تعبیر کے لیے جو قربانیاں دی گئیں وہ انسانی تاریخ کا اہم باب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان میں سبھی کچھ ہے۔ لہلہاتی فصلیں' سرسبز کھیت' دل فریب و دل پذیرنظارے' فلک بوس چوٹیاں' پُرکشش وادیاں' برف پوش پہاڑیاں' گنگناتی ندیاں' گیت گاتی آبشاریں' صحت افزا مقامات' قیمتی معدنیات' جواہرات' سوئی گیس' ٹھاٹھیں مارتا سمندر' رواں دواں دریا' مسکراتی فضائیں' آزاد ہوائیں' مست خرم بہاریں' نکھرتی چاندنی' مجاہدین کا بانکپن' گلوں کا حسین پیرہن' حقیقتوں کی نغمگی' درختو ں کی شگفتگی' جذبہ زندگی' تابندگی' حقِ بندگی' پُرلطف شبِ تاریک ، صبح روشن میرے وطن کی مانگ کا سندور ہیں۔
آزادی کے بعد پاکستان نے مجموعی طور پر اپنا تشخص بڑی تیزی کے ساتھ پوری دنیا میں قائم کیا۔ بلامبالغہ عالم اسلام پاکستان کو اپنا دوست سمجھتے ہیں۔ مغربی دنیا ہماری صلاحیتوں کا اعتراف کر رہی ہے۔ ہماری جیو اور جینے دو کی حکمتِ عملی کامیابی سے رواں دواں ہے۔ خارجہ پالیسی کے بل بوتے پر لا تعداد پاکستانی دنیا کے مختلف خطوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مشرق وسطی' وسط ایشیا اور دنیا کے دیگر خطوں میں پاکستان نے ایک پُرامن ملک کی حیثیت سے اپنا سکہ منوایا۔اسی طرح پاکستان نے اپنے خلاف ہونے والی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا اور1965ء کی جنگ میں اپنے سے دس گنا بڑے ملک سے نبرد آزما ہو کر مجاہدوں نے میدان بدر کی یاد تازہ کر دی۔ 1971ء کی جنگ میں بھی جرأت و شجاعت کا مظاہرہ کرنے میں کوئی کمی نہیں تھی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک سیاسی چال اور بھارتی جارحیت کی وجہ سے ہوئی۔بصورت دیگر فوج یا عوام کے جذبہ بہادری میں کوئی کمی نہیں تھی۔
قیام پاکستان سے پہلے غیر ملکی تسلط میں مسلمان اقتصادی طور پر کچلے ہوئے تھے۔ یہ پاکستان کا کمال ہے جس نے ہمیں اپنی معیشت دی' کارخانے اور فیکٹریاں عطا کیں۔ آج ہم خوشحال اور فعال ہیں۔ پاکستان کے طفیل ہی لمبی لمبی اور قیمتی کاریں' بنکبیلنس' آسماں سے باتیں کرتی کوٹھیاں' بڑے بڑے عہدے' اونچے اونچے مرتبے' شاہی انداز زندگی اور آزاد فضا میسر آئی۔ہندو کی سرشت ہے کہ جہاں وہ اقلیت میں رہے نہایت بااخلاق' سگھڑ' حلیم الطبع رہے لیکن جہاں اکثریت میں رہے وہاں انھوں نے وہ ظلم ڈھائے کہ ہلاکو خان اورچنگیز خان بھی مات کھا گئے۔ پاکستان نے ہمیں تعلیم دی' نوکریاں دیں۔ قیامِ پاکستان سے آج تک پاکستان میں ثقافت' سیاست' تجارت' کھیل' تعمیرات' صحافت' سیاحت' سفارت' مواصلات' بلدیات' معدنیات' نوادرات' ابلاغیات' اقبالیات' ادبیات' لسانیات' ماحولیات اور دیگر شعبہ جات میں بے مثل ترقی ہوئی ہے۔
موٹر وے کی تعمیر سے تجارتی انقلاب آرہا ہے۔سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل، میٹرو بس ، اورنج ٹرین اور سی پیک (چائنہ پاکستان اکنامک کوری ڈور)جیسے قومی منصوبوں نے خوش حال پاکستان کا راستہ ہموار کیا ہے ۔ غیر ملکی وفود خوب صورت اور تعمیرات کے فن سے مزین سڑکیں دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ پاکستان کے طفیل فاصلے سمٹ گئے ہیں۔ سرگودھا سے لاہور کا سفر پانچ گھنٹے کا ہوا کرتا تھا ، آج دو گھنٹوں سے بھی کم وقت میں سمٹ آیا ہے ۔ موٹر وے کی وجہ سے پشاور سے کراچی تک کا سفرآسان ،آرام دہ اور کم وقت میں ہونے لگا ہے ۔ کئی بڑی بڑی شاہراہوں پر کام مکمل ہونے سے معیشت میں مزید خوش حالی کی توقع ہے ۔ کالا باغ ڈیم کو اگر سیاسی آنچ نہ دی جائے تو اس کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ ملک کے کئی بڑے شہروں میں پل' کارخانہ جات اور تعلیمی اداروں کی تعمیر ہو رہی ہے۔ سمندری تجارت کے علاوہ ڈرائی پورٹ کی وجہ سے بہت سی سہولتیں میسرہیں۔ ہوائی سروس نے پوری دنیا کو پاکستان سے رابطے کی زنجیر میں جکڑ رکھا ہے۔
کھیلوں کی دنیا میں بھی پاکستان کسی سے کم نہیں ہے۔ ہاکی ، کرکٹ ،سنوکر ، سکواش ، کبڈی، باکسنگ اور کئی دیگر کھیلوں میں پاکستان اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ 25مارچ1992 پاکستان نے کرکٹ کا ورلڈکپ جیت کر ہمارا سر فخر سے بلند کیا۔ 4دسمبر1994ء کو پاکستان نے سڈنی میں منعقدہ ہاکی کاآٹھواں عالمی ہاکی کپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ یاد رہے! پاکستان نے یہ اعزاز 1971ء ،1978ء اور1982ء میں بھی حاصل کیا تھا۔ اتوار21جون 2009ء کو لندن میں منعقدہ دوسرے ورلڈ ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ ٹورنامنٹ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے سری لنکا کو 8وکٹوں سے شکست دے کر ٹورنامنٹ جیت لیا۔ اتوار 18جون 2017ئ،کو پاکستان نے اپنے روائتی حریف بھارت کوکرکٹ میچ میںعبرت ناک شکست دے کر چیمپیئنز ٹرافی جیت لی۔ پوری دنیا میں پاکستان کی اِن فتوحات سے ہماری صلاحیتوں کا اعتراف کیاگیا۔
قیام پاکستان کے وقت چند ہسپتال ، گنتی کے سکول ، چند بینک ، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کی تعداد بھی مایوس کن تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان ہر شعبے میں اپنی الگ تاریخ رکھتاہے ۔ ادبی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کسی بھی ملک سے پیچھے نہیں ہے۔ پاکستان کی ترقی کاجائزہ لینے کے لیے ہمیں فوج اور دفاعی ترقی، آئینی ارتقائ، سکولز ، کالجز ، یونی ورسٹیوں ، مواصلات ، زرمبادلہ ، صحت ، کھیل ،سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، آب پاشی، معیشت (بینکاری وغیرہ )،تجارت، سیاحت، ادب، صحافت(اخبارات ، رسائل، ٹی وی وغیرہ )، خارجہ اُمور ،ملکی ترقی میں خواتین کا کردار ، ریلوے، ڈاکخانہ ، عالمی امن اور پاکستان کا کردار ، سماجی اداروں ، مذہبی اداروں اور دیگر ترقیاتی شعبہ جات کا الگ الگ جائزہ لینا ہوگا۔ قیام پاکستان کے وقت خواتین کو سرکاری ملازمتوں سے دور رکھا جاتا تھا۔ آج پاکستان میں خواتین اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر بہت آگے آچکی ہیں۔ پاکستان کی تقریباً آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے ۔ تمام شعبہ جات میں خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے ۔ تعمیرِ وطن میں خواتین کے کردار کو کسی طور بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک سائنس اور ٹیکنالوجی کا تعلق ہے پاکستان نے اس شعبے میں حیران کن ترقی کی ہے ۔ پاکستان کے سائنس دانوں نے دنیا کے کئی ممالک میں اپنی برتری ثابت کی ہے ۔ 28مئی 1998ء کو بھارت کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے عالمِ اسلام میں پہلی ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا ۔ پاک فوج نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے دنیا بھر کی افواج میں اوّل پوزیشن حاصل کر کے ہماری اُمیدوں کی تکمیل کی ہے ۔ مختلف میزائلوں کے تجربات وقتاً فوقتاً ہوتے رہے جو پاکستان کے مضبوط دفاع کی علامت ہیں ۔ یونی ورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔
دنیا کی دوسری سب سے بڑی پہاڑی K2پاکستان میںہے جس کی اونچائی 8611میٹر ہے۔ اگرچہ برج خلیفہ جو دنیا کی سب سے بڑی عمارت ہے لیکن ایسی 10عمارتوں کو ایک دوسرے کے اوپر کھڑی کر دیں تب بھی K2اس سے زیادہ اونچا ہے ۔ دنیا کے تین اونچے پہاڑی سلسلے پاکستان میں ہی واقع ہیں۔دنیا کے خوبصورت 8پہاڑوں میں سے 6پہاڑ پاکستان میں ہیں۔ اگر ریگستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں چولستان اور تھراہم ریگستان ہیں۔ پاکستان کا 40فیصد حصہ میدانی ہے ۔ پاکستان میں ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بہتا ہے ۔ پاکستان ایشیاء میں ٹریڈنگ ہب ہے ۔ اس کو مزید بہترکرنے کے لیے سی پیک پر تیزی سے کام جاری ہے ۔ پاکستان میں دنیا کی سب سے بڑی قدرتی گہری بندر گاہ گوادرپورٹ ہے جو بلوچستان میں واقع ہے ۔ دنیا کی سب سے اُونچی سڑک پاکستان میںہے جس کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے ۔اس سڑک کا نام قراقرم ہائی وے ہے جب کہ اسے چائنہ پاکستان فرینڈشپ ہائی وے کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس سڑک کی کل لمبائی 800کلومیٹر ہے ۔یہ پاکستان میں ایبٹ آباد سے لے کر چائنہ میں کاشغر شین جینگ تک پھیلا ہوا ہے ۔ اس کا سب سے اُونچا مقام خنجراب پاس ہے جس کی اونچائی تقریباً 4700میٹر ہے ۔ دنیا کے سب بڑی ایمبولینس سروس پاکستان میں موجود ہے جسے ایدھی فائونڈیشن 1997ء سے چلارہی ہے جو 24گھنٹے سروس دیتی ہے۔ایدھی فائونڈیشن بہت سے فلاحی کام کررہی ہے ۔ اس کے بانی عبدالستار ایدھی تھے۔ سیالکوٹ میںبین الاقوامی معیار کے فٹ بالوں سمیت دیگر کھیلوں کا سامان تیار کیا جاتا ہے ۔سیالکوٹ کے آلاتِ جراحی بھی دنیا میں اپنا نام رکھتے ہیں۔
پاکستان میں موجود آبپاشی کا نظام دنیامیں چوتھے نمبر پر ہے جو کہ 2لاکھ 2ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے ۔ کیوں کہ پاکستان کی زیادہ تر آبادی کا انحصار کھیتی باڑی پر ہے ۔ یہ سارا آبپاشی کانظام سندھ طاس کے مطابق چلتا ہے ۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کان کھیوڑہ ، پاکستان میں ہے جس کو کھیوڑہ مائنز کہا جاتا ہے۔ ان مائنز میں میمتھ مائنز جو 40کلومیٹر تک لمبی ہیں۔ ان میں ایک مسجد ، چائنہ وال،مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد بھی بنائی گئی ہے جو لوگوں کی دلچسپی کا باعث ہے ۔ دنیا کے ذہین ترین لوگوں کی فہرست میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے ۔ اس کے علاوہ سائنسدانوں، انجینئرز کی فہرست میں پاکستان 7ویں نمبر پر ہے ۔ دنیا کے سب سے پہلا کمپیوٹر وائرس 2پاکستانی بھائیوں نے بنایا تھا جن کے نام باسط فاروق علوی اورامجد فاروق علوی تھے۔ ان دونوں بھائیوں نے 1986ء میں Brain نامی وائرس بنایا تھا جو IBM اپلیٹ فارمز کو ٹارگٹ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اگر ہم متحد ہو کر پاکستان کی ترقی کے لیے کام کریںتو دنیا کی کوئی طاقت ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
آج نوجوانوں کو مایوسی کے گرداب سے نکالنے کی ضرورت ہے ۔ اُن میں احساسِ تفاخر اُجاگر کرنا ہمارا فرضِ عین ہے ۔ اس احساسِ تفاخر کو اساتذۂ کرام اور ہمارے میڈیا کے ارکان ہی منظرِ عام پر لا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس سبھی کچھ ہے لیکن احساس تفاخر کی کمی ہے ۔ قیام پاکستان سے استحکام پاکستان کا سفر نامساعد حالات کے باوجود روشنی کا ایک سفر ہے ۔ اس روشن پاکستان کو مزید روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری سوچوں میں مثبت انداز فکر ہونا چاہیے۔آنچل ،پرچم اور کفن ایک ہی تار سے بنتاہے ۔ کپڑا ایک ہی ہے لیکن انداز مختلف ہیں۔سوچ کے انداز بدلنے اور عمل سے مٹی سونا اُگلتی ہے ۔ ہمیں دوسروں کی ذات میں اچھائی کشید کرنی چاہیے۔ پولیس ایک ہی قسم کی ہے لیکن عام شہروں اور موٹر وے پولیس میں زمین آسمان کا فرق کیوںہے؟ہم غلطیاں خود کرتے ہیں موردِ الزام دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔ ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اپنے ہی بھائیوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ وہ مسلمان نہیں جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ ہوں۔ اگر ہم عصرِ حاضر میں اپنی معاشرتی رویوں کا جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ ہم دوسروں سے نیکی اور خیر خواہی کی توقع کرتے ہیں لیکن خود عمل نہیں کرتے۔ ہماری ہر نصیحت صرف دوسروں کے لیے ہے ۔ کاش ہم اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے خود احتسابی کے عمل سے گزرنے کی کوشش کریں۔
قیام پاکستان سے آج تک جتنی کامیابیاں و کامرانیاں ہم نے حاصل کیں وہ بفضل اﷲ تعالیٰ ہیں۔ جتنی ناکامیاں ہوئیں وہ ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں۔ ہمیں کسی طور پر بھی پاکستان کو بُرا نہیں کہنا چاہیے۔ کوئی طعنہ، کوئی مذاق اور کوئی الزام وطن کے نام نہیں کرنا چاہیے۔ ہم خود احتسابی کر کے ارض وطن کو گلزار بنا سکتے ہیں۔ آئیے! اپنا سب کچھ وطن کے نام کرنے کا عزم کر لیں کہ ہماری انفرادی بقا پاکستان کی بقا سے وابستہ ہے ۔ پاکستان ہمیں اپنی ماں کی طرح عزیز جاں ہونا چاہیے۔ ماں کا احترام ہم پر فرض ہے جس کی ادائیگی قرض کی طرح ادا کر نا ضروری ہے۔پاکستان سب کے لیے ہے۔ یہاں سب کچھ ہے ۔ ان شاء اللہ ، اہل وطن پاکستان پر آنچ آنے نہیں دیں گے۔ یہ قوم بہادر ہے ، زلزلے میں تباہ شدہ علاقہ جات کی تعمیر، سیلاب زدگان کی بحالی ، خشک سالی میں گھرے ہوئے افراد کی امداد ، دہشت گردوں کے ستائے ہوئے لاکھوں افراد کی کفالت ، بیماروں کی صحت یابی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اگر ہم حق مانگتے ہوئے اپنا فرض بھی ادا کریں تو پاکستا ن جنت نظیر بن سکتا ہے۔
مضمون نگار ممتاز ماہرِ تعلیم ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے