”ارے! تالاب کا پانی کہاں چلا گیا؟“دن کی روشنی میں نکسی تالاب کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ تالاب کا پانی زمین سے لگا ہوا تھا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ کل ہی کی تو بات تھی جب وہ پانی سے بھرے تالاب پر منڈلاتے ہوئے کتنی خوش تھی اور آج پانی تالاب سے نکل کرپتہ نہیں کہاں چلا گیا تھا! ایک ہی دن میں آخر ایسا کیا ہوگیا کہ پانی غائب ہوگیا؟ وہ سوچنے لگی۔
اس واقعے نے نکسی کو فکرمند کردیا اور وہ یہ اطلاع دینے جنگل میں موجود بوڑھے اُلُّو، جسے سب بڑا اُلو پکارتے تھے، کے پاس پہنچی جو اس وقت بے خبر سورہا تھا۔
”بڑے اُلو!جاگو اور چل کر دیکھو ،تالاب کا پانی کہیں چلا گیا ہے۔“
”کیا کہا؟ پانی کہیں چلاگیا؟“ اس کے جھنجھوڑنے پربڑااُلو گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور دونوں پھرتی سے اڑتے ہوئے تالاب پر پہنچے جہاں پانی واقعی غائب تھا۔
کافی غور وفکر کے بعد بھی جب دونوں اصل وجہ تک پہنچنےمیں ناکام رہے تو بڑے اُلو نے نکسی کو ایک مشورہ دیتے ہوئے کہا:” ننھی ڈریگن فلائی،پانی ہم سب کے لیے کتنا اہم ہے، تمہیںیہ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن غائب ہو جانے والے پانی کو واپس لانا کتنا ضروری ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔“
”تم کیا کہنا چاہتے ہو؟“ نکسی نے اس کی گول مٹول آنکھوں میں جھانکا۔
”میں کہنا چاہتا ہوں کہ پانی کے اچانک غائب ہونے کی وجہ دریافت کرکے اسے واپس لانا اب تمھاری ذمہ داری ہے۔ میں ضعیف ہونے کی وجہ سے تمہیں اچھی صلاح تو دے سکتا ہوں لیکن تمھارے ساتھ چل نہیں سکتا۔ اب دیر مت کرو! میرے مشورے کو اپنے پروں سے باندھ لو۔ جاؤ اور اپنا فرض نبھاؤ۔“ یہ کہہ کر وہ وہاں سے اڑ گیا اور نکسی تالاب میں جھانکتے ہوئے سوچنے لگی اگر ایسا کرنے سے تالاب کا پانی واپس آسکتا ہے تو وہ ضرور یہ کام کرے گی۔
اس تالاب سے پانی پینے والے بیشتر جانور اس کے دوست تھے جو دور دراز سےآ کر یہاں پانی پیتے تھے۔
’’خشک تالاب دیکھ کر وہ مایوس ہو جائیں گے ۔‘‘ یہ خیال ذہن میں آتے ہی نکسی پانی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔
اڑتے اڑتے اس کو کھیتوں کے بیچوں بیچ پانی کے فوارے چلتے دکھائی دیے اور وہ پانی پینے نیچے اتر آئی۔ فواروں سے پانی کا خوب چھڑکاؤ ہورہا تھا۔ وہ لمحہ بھر کے لیے سستانا چاہتی تھی لیکن اچانک ہی اس کی نظرایک ٹوٹے ہوئے پائپ پر پڑ گئی جس سے بہت سارا پانی بہہ کر زمین میں جذب ہورہا تھا۔
وہ شکایت لے کر سیدھی کسان کے پاس پہنچی اور اسے بتایا کہ فوراً پائپ کی مرمت کرکے پانی ضائع ہونے سے بچائے۔کسان اپنی غلطی پر شرمندہ ہوا اور فوراً مرمت کے لیے دوڑا۔اس کو مرمت کرتے دیکھ کر نکسی اطمینان سے آگے بڑھی اور شہر کی حدود میں داخل ہوگئی۔
وہاں اس نے دیکھا کہ ایک بڑے میدان میں کچھ بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ نکسی تھک کر ایک ڈبہ نما مشین پر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر میں بچے دوڑتے ہوئے اس مشین کے قریب آئے اور پانی پینے لگے۔ نکسی نے دیکھا کہ وہ سب بہت سارا پانی نیچے گرا رہے تھے اور ٹونٹی سے بھی صاف پانی بہہ کر نالی میں جارہا تھا۔ اسے بہت افسوس ہوا۔ نکسی نے ان بچوں کو مخاطب کرکے کہا:”تمھیں معلوم ہے ہمارے تالاب میں پانی ختم ہوگیا ہے اور میں اسی کی تلاش میں اتنی دور تک آئی ہوں لیکن میں دیکھ رہی ہوں کہ تم لوگ پانی کی بہت بے قدری کرتے ہو۔ اگر اسی طرح پانی ضائع کرتے رہے تو ایک دن تم بھی میری طرح پانی کی تلاش میں در بدر بھٹک رہے ہوگے۔“
بچے ڈریگن فلائی کی بات سن کر شرمندہ ہوئے اور جلدی سےٹونٹی بند کردی۔
”اچھے بچو، وعدہ کرو! اب جہاں کہیں بھی پانی ضائع ہوتا ہوا دیکھو گے ،فوراً اسے بچانے کی تدبیر کروگے۔“ نکسی کی بات سن کر سب بچوں نےیک زبان ہوکر وعدہ کیا جس سے مطمئن ہوکر وہ آگے بڑھی ۔
نکسی اب رہائشی علاقوں سے گزر رہی تھی۔ وہاں بہت ساری کھڑکیوں والی بڑی بڑی عمارتیں تھیں۔ اس نے ان عمارتوں کی چھتوں اور پرنالوں سے شفاف پانی ،آبشار کی مانند گرتے دیکھا تو افسردہ ہوئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس بہتے پانی کو روکنے کے لیے کس سے بات کی جائے؟ اتنی دیر میں ایک شخص ہاتھ میں مائیک لیے قریب سے گزرا۔ وہ عمارتوں کی طرف اشارہ کرکے کچھ کہہ رہا تھا۔ اس کے ساتھ اور لوگ بھی مشینیں کندھے پر اٹھائے چل رہے تھے۔ نکسی نے سنا ، وہ بھی ضائع ہونے والے پانی کی روک تھام کی کوشش کر رہا تھا۔
وہ پھر سے اُڑی اور اس شخص کے پاس پہنچ کرعمارتوں سےبہہ کر ضائع ہونے والے پانی کو روکنے کی درخواست کرنے لگی۔ نکسی نے اسے اپنے خشک تالاب کے بارے میںبھی بتایا۔ اس مہربان شخص نے مائیک نکسی کے سامنے کرتے ہوئے کہا:”ننھی ڈریگن فلائی آج سے تم ضائع شدہ پانی بچانے کی مہم میں شامل ہو۔ آؤ! اپنا پیغام ساری دنیا کو سناؤ۔“ نکسی کو اس شخص کی بات اچھی لگی اور اس نے ساری دنیا کو مخاطب کرکے اپنا پیغام ان تک پہنچادیا۔ تھوڑی دیر میں اس کے گرد بہت سارے لوگ جمع ہو گئے۔ سب اس ننھی نکسی سے بہت متاثر تھے اور اپنی غلطی پر ندامت کا اظہار کر رہے تھے۔
نکسی نے ان سے پانی بچانے کا وعدہ لیا اور واپسی کے لیے نکل کھڑی ہوئی۔ راستے میں وہ سوچتی رہی کہ اس نے پانی بچانے کے لیے کوشش تو کی ہے مگر کیا یہ کوشش تالاب کا پانی واپس لاسکے گی؟
اسی فکر میں وہ رات کے اندھیرے میں اپنے تالاب کے پاس پہنچی۔وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ تالاب شفاف پانی سے لبالب بھرا ہواتھا۔ وہ حیرت سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ اسی دوران بڑے اُلّو نے آکر اسے شاباش دی اور کہا:
”آج تمھاری وجہ سے سب نے پانی بچایا اورتالاب کا پانی واپس آگیا۔ اب تم پانی کی محافظ بن گئی ہو۔ تم نے دیکھا،کس طرح قطرہ قطرہ پانی سمندر بن جاتا ہےاور ہمارے چھوٹے چھوٹے کام کتنی بڑی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔‘‘ نکسی ، بڑے اُلّو کی باتیں سن کر مسکرانے لگی۔
تبصرے