میری پسندکے دن وہی ہیں جن میں گرمیوں کی طویل چھٹیاں عنایت ہوتی ہیں۔ان دنوں کا انتظار نہ صرف سارا سال رہتا ہےبلکہ وقت کو بھرپور طریقے سے ضائع کرنے کی باقاعدہ پلاننگ بھی کی جاتی ہے۔جی ہاں، آپ نے بالکل ٹھیک پڑھا ۔چھٹیوں میں،میں اپنے گھروالوں سے ایک طرح سے قطع تعلق کرلیتا ہوں اوریا تو کتابوں کی دنیا کی سیر کرتا رہتا ہوں یا پھر خوابوں کی دنیا میں کھویا رہتا ہوں ،مطلب دیر تک سویا رہتا ہوں۔
لیکن اس بار چھٹیاں ہوتے ہی وہ ہوگیا جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ارے!میںنےاپناتعارف تو کروایا ہی نہیں۔میرا نام دانیال ہے اور میں آٹھویں جماعت کا طالب علم ہوں ۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے کبھی کسی نے میرے معمولات میں دخل اندازی نہیں کی۔
راوی پہلے کی طرح چین ہی چین لکھتا رہتا اگر میرے پیارے امی ابو بائی روڈ ناران اور ہنزہ کا پلان نہ بنا لیتے۔میں ،جو چھٹیوں میں گھر پڑا رہنے کا عادی تھا،مجھ پریہ خبر بجلی بن کر گری ، لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے کہ مصداق اس وقت گاڑی کی پچھلی سیٹ پربراجمان اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے۔سارے راستے امی ابو خوشگوار موڈ میں گپ شپ کرتے رہے ۔وہ بہت خوش تھے سوائے میرے۔ ارے! پاکستان میں رکھا ہی کیا ہے؟
اس وقت تو گاڑی پکی سڑک پر دوڑتی جارہی تھی لیکن مجھے یقین تھا کہ آگے کی سڑکیں کچی ہوں گی لیکن ایسا نہ ہوا۔یہ سفر میرے لیے نئی دنیا کے دروازے کھول گیا۔پہاڑوں کے درمیان مہارت سے بنی چارکول کی پکی سڑکیں انتہائی آرام دہ تھیں۔ ہم اپنی گاڑی میں ایسے جارہے تھے جیسے اپنے شہر اسلام آباد میں ہی ہوں۔جگہ جگہ ریسٹ روم بنے تھے۔پبلک واش رومز، مساجد، دکانیں اور چائے خانے ہر آدھے گھنٹے کی مسافت پر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے۔
گھر میں تو میں پنج وقت کا نمازی ہوں ، سفر میں کہاں نماز ادا کروں، ارے بھئی! اگر ہم بِنا رُکے اپنی منزل کی جانب ایسے ہی بڑھتے جائیں تو کتنی جلدی پہنچ سکتے ہیں، میری تو خیر کسی نے نہیں سننی،چاروناچار راستے میں آئی مسجد کے وضو خانے سے وضو کرنے لگا۔ جیسے ہی نل کے ٹھنڈے پانی سے وضو کیا، ایسا لگا جیسے ساری تھکاوٹ اتر گئی ہو۔ میں کچھ کچھ حیران اور کچھ کچھ سرشار سا نماز پڑھنے لگا۔ جب رکوع میں گیا تو احساس ہوا کہ گاڑی میں مستقل بیٹھے رہنے سے ٹانگیں اکڑ گئی ہیں۔ نماز ادا کرکے جب دوبارہ گاڑی میں بیٹھے تو خود کو تازہ دم محسوس کیا۔
ناران میں ہمارا قیام ایک ہوٹل میں تھا۔پہلے مجھے لگتا تھا کہ ناران کاغان دیہاتی طرز کے علاقے ہوں گے لیکن یہاں ایک بار پھر حیرانی میرا استقبال کرنے کو تیار تھی۔
لکڑی کے بنے خوبصورت کاٹیج میں ضروریات زندگی کی ہر چیز میسر تھی۔ ابو نے چکن کڑاہی کا آرڈر دیا اور آدھے گھنٹے بعد ہی تازہ اوربے حد لذیذکھانا ہمارے سامنے تھا ۔اس رات میں سکون کی نیند سویا۔
اگلی صبح جب میری آنکھ کھلی تو قدرت کا حسین نظارہ میرا منتظر تھا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ،جھکے جھکے بادل، ٹھنڈی ہواکے جھونکے اور دریائے سوات کا شور، کانوں میں رس گھول رہا تھا۔میںبےاختیار ہوٹل کےداخلی دروازے کےقریب پتھروں پر بہتے شور مچاتے دریا کو دم بخود دیکھنےلگا۔صاف ستھرا پانی چکنے پتھروں پر زوروشور سے بہتا دور تک جارہا تھا۔میں نے اپنے پائوں چپلوں سے آزادکیےاورپانی میںڈال دئیے۔ٹھنڈے پانی نے مجھے جھرجھری لینے پر مجبور کردیا۔ لیکن ایسا سرور آیا کہ میں بار بار خود کو اس عمل پر دہرانے سے روک نہ پایا۔ تین دن تک ہم ناران کی سرسبز وادی میں رہے ۔چوتھے دن ہم نے ایک بار پھر رخت سفر باندھا ۔ اس بار ہمارا رخ ہنزہ کی جانب تھا۔
آٹھ گھنٹے کی طویل مسافت کے بعد رات دس بجے ہم ہنزہ پہنچے۔ میرا موڈ قدرے خراب ہوچکا تھا۔مجھے ایک بار پھراپنا گھر، اپنا کمرہ یاد آنے لگا تھا۔ ہنزہ کے آرام دہ کمرے میں پہنچ کر میں نے بالکونی سےنیچے جھانکا تو گھنے اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہ آیا ۔ میںاسی خراب موڈ کے ساتھ سو گیا۔
صبح اٹھ کر دیکھا کہ امی ابو کمرے کی بالکونی میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ سامنے موجود نظارے نے مجھے بار بار آنکھیں ملنے پر مجبور کردیا۔ نیلاہٹ مائل پانی کی جھیل اور اطراف میں گھرے سرمئی پہاڑوں نے اپنا فسوں ہر جانب بکھیرا ہوا تھا۔ میں دم بخود، جھیل کو دیکھے جارہا تھا۔ابو نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس جھیل کا نام عطاآباد جھیل ہے اور یہ 2005 کے زلزلے کے باعث وجود میں آئی۔ اس وقت’’ لکسس‘‘ ہنزہ کی سب سے بڑی سیاحتی جگہ ہے۔
میںٹک ٹک اسے دیکھتا ہی چلا گیا۔ایک بار میںنے ایسا نظارہ سوشل میڈیا پر بینکاک کا دیکھا تھا لیکن ہمارے اپنے ملک میں اتنی خوبصورتی پنہاں ہے، مجھے رتی بھر اندازہ نہ تھا۔
اس جھیل میں ہم نے کشتی رانی بھی کی اور اسے قریب سے دیکھا۔
’’لکسس‘‘ ہنزہ میں دو دن ٹھہرنے کے بعد ہمارا اگلا پڑاؤ ایک اور ہوٹل ’’ہا راک ‘‘ میں تھا۔ میرا دل پہلے والے ہوٹل میں لگ گیا تھا اس لیے میں ایک بار پھر کچھ بدمزہ سا امی ابو کے ساتھ نئے ہوٹل کی جانب رواں دواں تھا۔
یہ ہوٹل پہاڑوں کی بلندی پر واقع تھا۔ رات گئے وہاں پہنچے توہوٹل کے استقبالیہ کے سامنے موجود کتابوں سے بھرے شیلف نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ اتنی بلندی پر اتنی پیاری پیاری کتابیں،میں ان کی جانب بڑھا۔ دورانِ سفر میں نے اپنی پسندیدہ کتابوں کی شدت سے کمی محسوس کی۔ اس وقت ایسا لگ رہا تھا جیسے برسوں سے بچھڑے دیرینہ دوستوں سے ملاقات ہورہی ہے۔
میں نے چند کتب منتخب کیں اور کمرے میں آگیا۔ فجرکی نماز پڑھ کر کمرے کے پردے ہٹائے توسامنے پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ میں بلندی پر تھا،اسی وجہ سے اس وقت پہاڑوںپرپڑتی سورج کی نرم گرم کرنیںمجھے نظر آرہی تھیں۔ دل سے بے ساختہ سبحان اللہ نکلا۔ ہمارا پیارا وطن پاکستان اپنے اندر بہت کچھ سمیٹے ہوئے ہے۔ ہم نے اپنے ملک کو کبھی اس نظر سے دیکھا ہی نہیں ورنہ ہمارا ملک سیاحت کے لیےایک بےمثال خطہ ہے۔ابونےبتایا کہ یہ راکاپوشی، قراقرم اور لیڈی فنگرپہاڑوں کی چوٹیاںہیں۔ان کے درمیان دور سے’ پاسو کونز‘ بھی اپنی جھلک دکھلا رہے تھے۔
میں دوپہر تک بالکونی میں کھڑا ان پہاڑوں کی چوٹیوں پر اترتے بادلوں کی آنکھ مچولیاں دیکھتا رہا ۔ وہ دن جیسے میرے لیے عید کا سا تھا۔ان نظاروں کے ساتھ کافی کے گھونٹ بھرنا اور بسکٹ کھانا پر لطف تھا۔ اس وقت میں اپنے آپ کو دنیا کا سب سے امیر انسان تصور کررہا تھا۔
تین دن اسی ہوٹل کے پرفضا ماحول میں رہنے کے بعد ہم نے رختِ سفر باندھا اور اسلام آباد کا رخ کیا۔
گھر پہنچ کر بھی میں ان سرسبز وادیوں،بہتے دریاؤں، جھیلوں کی دلکشی اورپہاڑوں کے حسن کے سحر سے نہیں نکل پایاتھا اور شاید کبھی نہ نکل سکوں کیونکہ میرا دیس ہے ہی اتنا پیارا۔پاکستان سے محبت تو ہمیشہ ہی دل میں رہی ہے لیکن اس بار 14 اگست کو پاکستان کے جھنڈے کو ایک خاص جذبے سے چوما، اپنے وطن کی سلامتی کی دل سے دعائیں کیں کہ ایک بار پھر پاکستان سے محبت ہوگئی تھی۔یااللہ! میرے وطن پاکستان کی حفاظت کرنا، اس کا پرچم بلند کرنا اور دنیا کے نقشے پر ہمیں بہترین قوم بن کر ابھارنا ۔ آمین!
تبصرے