اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2024 03:01
اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے اداریہ : مارچ 2024 یہ وطن امانت ہے  اور تم امیں لوگو!  وطن کے رنگ    جادوئی تاریخ مینارِپاکستان آپ کا تحفظ ہماری ذمہ داری پانی ایک نعمت  ماہِ رمضان انعامِ رمضان سفید شیراورہاتھی دانت ایک درویش اور لومڑی پُراسرار  لائبریری  مطالعہ کی عادت  کیسے پروان چڑھائیں کھیلنا بھی ہے ضروری! جوانوں کو مری آہِ سحر دے مئی 2024 یہ مائیں جو ہوتی ہیں بہت خاص ہوتی ہیں! میری پیاری ماں فیک نیوزکا سانپ  شمسی توانائی  پیڑ پودے ...ہمارے دوست نئی زندگی فائر فائٹرز مجھےبچالو! جرات و بہادری کا استعارہ ٹیپو سلطان اداریہ جون 2024 صاف ستھرا ماحول خوشگوار زندگی ہمارا ماحول اور زیروویسٹ لائف اسٹائل  سبز جنت پانی زندگی ہے! نیلی جل پری  آموں کے چھلکے میرے بکرے... عیدِ قرباں اچھا دوست چوری کا پھل  قہقہے حقیقی خوشی اداریہ۔جولائی 2024ء یادگار چھٹیاں آئوبچّو! سیر کو چلیں موسم گرما اور اِ ن ڈور گیمز  خیالی پلائو آئی کیوب قمر  امید کا سفر زندگی کا تحفہ سُرمئی چڑیا انوکھی بلی عبدالرحیم اور بوڑھا شیشم قہقہے اگست 2024 اداریہ بڑی قربانیوں سے ملا  پاکستان نیا سویرا   ہمدردی علم کی قدر ذرا سی نیکی قطرہ قطرہ سمندر ماحول دوستی کا سبق قہقہے  اداریہ ستمبر 2024 نشانِ حیدر 6 ستمبر ... قابل ِفخر دن  اے وطن کے سجیلے جوانو! عظیم قائدؒ قائد اعظم ؒ وطن کی خدمت  پاکستان کی جیت سوچ کو بدلو سیما کا خط پیاسا صحرا  صدقے کا ثواب قہقہے 
Advertisements

ہلال کڈز اردو

بڑی قربانیوں سے ملا  پاکستان

اگست 2024

وہ ہاتھوں میں درانتی پکڑے تیز قدموں سے کھیتوں کی جانب رواں دواں تھا۔ اس کا کمزور بدن تھکن سے چُور تھا لیکن بڑھاپے میں بھی اس کا جذبہ جوان تھا۔ اسے منزل پر پہنچنے کی جلدی تھی۔ ابھی رات ہی کو فیصلہ ہوا تھا کہ گاؤں کے تمام مسلمان گھرانے صبح سحری کے بعد پاکستان کی طرف ہجرت کر جائیں گے۔وہ گاؤں آس پاس کے باقی دیہات سے قدرے خوش حال تھا۔ وہاںہندوؤں کی آبادی زیادہ تھی جبکہ مسلمانوں کے چند گھرانے تھے البتہ مسلمان معاشی طور پر زیادہ خوش حال تھے۔
 وسیع زمینیں،پالتو جانور اور معاش کے دیگر ذرائع پر مسلمان حاوی تھے مگر کبھی بھی انہوں نے ہندو مسلم تفریق پیدا نہ ہونے دی تھی۔ گاؤں میں سبھی مل جل کر رہتے تھے۔ملکی سطح پر سیاسی ہل چل کے باعث چند جذباتی ہندو نوجوانوں نے مسلمانوں کو تنگ کرنا شروع کردیا تھا۔ 



جیسے ہی قیام پاکستان کا اعلان ہوا، اسی رات نمازِ تراویح سے فارغ ہوکر قطب دین نے گاؤں کے تمام مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور پاکستان کی طرف ہجرت کرنے کے بارے میں رائے طلب کی۔متفقہ رائے میں یہ بات سامنے آئی کہ عید کے فوراً بعد سبھی مسلمان پاکستان کی طرف ہجرت کرجائیں گے۔اس فیصلے کے بعد ابھی تمام لوگ اپنے گھروں کو روانہ ہونے ہی والے تھے کہ اچانک ہندو نوجوانوں کا ایک گروہ وہاں آگیا۔ ان کی نیت اچھی معلوم نہیں ہورہی تھی ،اسی لیے انھوں نے وہاں کھڑے مسلمانوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیا تھا۔ قریب تھا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کردیتے مگر بابا قطب دین نے آگے بڑھ کر معاملہ رفع دفع کرا دیا۔ اس صلح صفائی میں کچھ ہندو بزرگ بھی شامل ہوگئے۔ امن اور شانتی کے ساتھ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے مگر پھر بھی مسلمانوں کے لیے خطرہ موجود تھا۔چنانچہ بابا قطب دین نے رات کے اندھیرے میں بابا رحمت علی، بابا تاج دین اور دوسرے مسلمان بزرگوں کے گھر چکر لگا کر انہیں صبح سحری کے بعد ہی ہجرت پر راضی کرلیا۔
’’دوستو! میرے خیال میں اس جگہ ہمارا دانہ پانی اتنا ہی تھا۔ اب مزید یہاں رہنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ کیوں نا ہم صبح سویرے ہی یہاں سے ہجرت کرجائیں۔‘‘ بابا قطب دین نے تشویشناک صورتِ حال پر باقی بزرگ دوستوں کو الگ الگ جاکر قائل کرنے کی کوشش کی۔
آخر سبھی نے اس فیصلے کی تائید کی۔ اب رات کو سونے کے بجائے مسلمان گھرانے اپنا ضروری اور قیمتی سازو سامان سمیٹنے لگے۔ سب کی آنکھیں نم تھیں۔ آخر برس ہا برس سے یہاں قیام پذیر انسان کیسے اپنے گھروں کو چھوڑ سکتے تھے مگرنئے دیس پاکستان کی خاطر یہ سب کرنا پڑا۔ سحری کے بعد مسلمانوں کا قافلہ تیار ہوچکا تھا۔ وہ منہ اندھیرے گاؤں سے نکلنا چاہتے تھے۔ اچانک بابا قطب دین کو کچھ یاد آیا۔
’’اوہ! میں اپنی گائے کے جوان بچھڑے تو بھول ہی گیا۔ کل سے بے چارے کھیتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔‘‘ انہوں نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔
’’قطب میاں! چھوڑئیے ان بچھڑوںکو… آپ کے پاس سفر کےلیے بیل اور اونٹ موجود ہیں ۔اب کہاں اتنی دور جائو گے۔ ہم اللہ کا نام لے کر جلدی سے سفر کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔‘‘ بابا رحمت علی نے قطب دین کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’ارے نہیں رحمت بھائی! مجھے بچھڑوںکا لالچ نہیں، بس ایک چبھن سی ہے کہ بیچارے کل شام کے بندھے ہوئے ہیں۔ اگر ایک دو دن مزید کسی کی نظر نہ پڑی تو بےزبان بھوکے مر جائیں گے اور سارا گناہ میرے سر ہوگا۔‘‘ قطب دین نے وضاحت کی۔
’’ارے چھوڑیں قطب میاں!وہ بچھڑے کوئی ہندو یا سکھ لے جائے گا۔ آپ کیوں فکر کرتے ہیں۔‘‘ بابا تاج دین نے کہا۔
’’دیکھو بھائی!اچھا ہی ہوگا،اگر کوئی ہندو یا سکھ انہیں کھول کرلے جائے مگر کیا کروں؟ میرا دل نہیں مانتا۔ بڑے چاؤ سے پالے تھے۔ اب مجبوری ہے تو ہم انہیں چھوڑ کر جارہے ہیں مگر… مگر مجھے خدشہ ہے کہ کسی کی نظر نہ پڑی تو ان کا کیا حال ہوگا؟ ہم خود تو آزاد ہوکر جارہے ہیں مگر بے زبان جانوروں کو کیوں قید کر رکھا ہے؟ آپ سب لوگ ایسا کریں کہ اللہ کا نام لے کر روانہ ہوں، میں درانتی لے کر کھیتوں میں جارہا ہوں۔ بچھڑوں کی رسیاں کاٹ کر انہیں آزاد کر دوں،پھر جلد آپ لوگوں کے ساتھ قافلے میں شامل ہوجاؤں گا۔‘‘بابا قطب دین نے تفصیل بتائی۔
’’اور اگر راستے میں کسی بلوائی یا شدت پسند گروہ سے ٹاکرا ہوگیا تو؟‘‘ اللہ بخش نے پوچھا۔
’’تو کیا…؟اللہ کرم کرے گا۔ بچ گئے تو غازی، اگر موت وہیں پر لکھی ہوئی تو شہادت!… ویسے بھی اس بڑھاپے میں اور کتنا جینا ہے؟ مجھے جانے دیں، کوشش کروں گا کہ جلد قافلے کے ساتھ مل جاؤں۔‘‘ بابا قطب نے کہا اور ہاتھ میں درانتی لے کر کھیتوں کی طرف چل پڑا۔ ادھر قافلے نے تیاری کی اور اللہ کا نام لے کر پاکستان کی راہ لی۔
……
’’چل بھئی اللہ کے حوالے… اب تُو آزاد ہے۔‘‘ بابا قطب نے کھیتوں میں پہنچ کر ایک بچھڑےکی رسی کاٹتے ہوئے اسے تھپکی دی۔ اس کے بعددوسرے بچھڑے کی رسی کاٹی اور اسے بھی نمناک آنکھوں سے آزاد کردیا۔ بھوکے پیاسے بچھڑے قریبی دریا کے کنارے کی طرف بھاگ نکلے۔ پیاس کی شدت سے ان کی زبانیں باہر نکلی ہوئی تھیں۔
ہاتھ میں درانتی لیے بابا قطب بھی دریا کی طرف ہولیا۔ اُسے تقریباً تین کلو میٹر دور لکڑی سے بنے پل کے ذریعے دریا کے پار جانا تھا تاکہ جالندھر کی اس سرزمین کو خیر باد کہہ کر اپنے پیارے وطن پاکستان میں قدم رکھ سکے۔
ابھی قطب بابا چار قدم ہی چلا ہوگا کہ عقب سے شور کی آواز سے وہ چونک اٹھا۔
’’اوہ! بلوائی…؟ لٹیرے…؟‘‘ بابا قطب نے ایک لمحے کے لیے سوچا پھر یہ خیال جھٹک کر آگے روانہ ہوگیا۔ اسے پورا یقین تھا کہ وہ اس گاؤں کا اہم فرد ہونے کی وجہ سے گاؤں کے شر پسند نوجوانوں سے محفوظ رہے گا لیکن یہ اس کی خام خیالی تھی۔
بلوائیوں کے ایک جتھے نے اُنھیںگھیرے میں لے لیا تھا۔ سبھی کے ہاتھ میں تلواریں، کرپانیں اور نیزے تھے۔ان میںبہت سے چہرے بابا قطب کے جانے پہچانے تھے۔شدت پسندوں کو امن کا پیغام دینے کے لیے بابا نے ہاتھ میں پکڑی درانتی پھینک دی۔
’’میرے بچو! بات سنو ذرا…‘‘
لیکن جواب میں کئی قہقہے بلند ہوئے۔
’’پکڑ لو اُسے… جانے نہ پائے یہ بڈھا … ہاہاہا…‘‘
ایک زہریلی آواز بابا قطب کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس کے ساتھ ہی خون کے پیاسے کئی بھیڑیے نما انسان اس بوڑھے مسلمان پر پل پڑے۔
بابا قطب نے حملہ آوروں کے تیور دیکھ کر درانتی اٹھا لی۔ وہ ہر وار درانتی پر لینے کی کوشش کرتا،اتنے میں کرپان کا ایک وار اس کے بائیں کندھے پرآ لگا جس سے خون کا فوارہ ابل پڑا۔ درد کی شدت سے بابا قطب دوہرا ہوا جارہا تھا۔
اسی اثناء میں سب نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ دونوں بچھڑے جو دریا سے پانی پینے گئےتھے اپنے مالک کو مشکل میں دیکھ کر بلوائیوں پر حملہ آور ہو گئے۔ دو چار بلوائیوں کو ٹکر مار کر ،پاؤں سے کچل کر انہیں خوب سبق سکھایا۔ مگر دشمنوںنے تلواروں کے وار سے ان دونوں بچھڑوں کا کام تمام کردیا۔آہ! وہ کیسا درد ناک منظر تھا جب دو بے زبان جانور اپنے مالک کی محبت میں پاکستان کے نام پر قربان ہوئے۔
ادھر بابا قطب کو حملہ آوروں سے چنگل سے نکلنے کا موقع مل گیا۔ بھاگتے ہوئے اس نے دریا میں چھلانگ لگادی۔ اس کا بدن زخموں سے چُور تھا۔ درد کی شدت سے اس کی آنکھیں بند ہورہی تھیں۔ دریا کی گہرائی بہت زیادہ تھی۔ یہاں بھی بچ نکلنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ پانی بابا قطب کے زخموں کے اندر داخل ہورہا تھا۔
بابا قطب نے ایک نظر بھر کر دریا کے کنارے کھڑے بلوائیوں کو دیکھا جو قہقہے لگا رہے تھے۔ اسی دوران گاؤںکے ہندو لوہار کا بیٹا نردش تیواڑی بابا قطب کی طرف دیکھ کر چلّایا۔
’’اے بابا قطب دینا… اے بڈھے… تیری زمینیں گئیں، گھر بار گیا… مال مویشی لٹ گئے… کچھ سامان بھی نہ رہا… ایک جان تھی، وہ بھی تو نے گنوا دی:اب یہ بتاؤ کہ تم لوگوں کو اس سارے ہنگامے سےکیا ملا … ہا ہا ہا…"
بابا قطب تکلیف کی شدت سے بے حال پانی کی موجوں سے لڑ رہا تھا۔ اس نے تیواڑی کی طرف دیکھ کر ایک دھیمی مسکراہٹ اچھالی اور پوری قوت جمع کرکے ایک جملہ بولا:
’’پاکستان… الحمدللہ!ہمیں پاکستان ملا ہےجہاں شاید ہم تو نہ ہوں مگر ہماری نسلیں آزادی سے زندگی گزاریں گی۔ہم نے اپنی نسلوں کے سکو ن کے لیے اپنا آج قربان کردیا ،اپنی جانیں بھی قربان کردیں گے … پاکستان،پائندہ باد… 
بابا قطب نے مسکراتے ہوئے یہ جملہ ادا کیا اور اعصاب ڈھیلے چھوڑ دیے۔ اس کے ساتھ ہی پانی کی ایک بڑی لہر نے قطب بابا کو اپنی لپیٹ میں لیا پھر کچھ دیر بعد پانی کی سطح پر ایک خونی لکیر ہی باقی بچی۔ بابا قطب شہادت کا عظیم مرتبہ پاکر اپنے رب کے حضور پہنچ چکا تھا۔
بات ختم کرتے ہی دادی جان پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔
’’تم جانتے ہو بچو! کہ وہ بابا قطب کون تھے ؟ وہ میرے پیارے ابا جان تھے۔‘‘
اتنا کہہ کر دادی جان کے چہرے پر آنسو بہنے لگے ۔پھر کچھ لمحے رکنے کے بعد وہ دوبارہ بولیں :’’آج تم لوگ ہمارے بڑوں کی قربانیوں کو جانتے ہی نہیں ہو،بس ایک موبائل ہاتھ میں آگیا ،اسی کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ کر ہر وقت ٹچ ٹچ لگے رہتے ہو،جانے انجانے میں تم لوگ اپنے ہی ملک کے خلاف ہونے والے پراپیگنڈے کا حصہ بنتے رہتے ہو،اور خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے ملک کی شان وشوکت اور عظمت کو مٹی میں رول دیتے ہو،مجھے اس نوجوان نسل کے رویے پربہت دکھ ہے…!!‘‘
عاصم ، زوہیب اور ارفع نے دادی جان کو زارو قطار روتے دیکھا تو وہ پریشان ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے، پھر زوہیب نے آگے بڑھ کر دادی جان کو اپنی بانہوں کے حصار میں لیا اور بولا :’’معاف کر دیں دادی جان! ہم آئندہ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔اس کے ساتھ ہی اس نے موبائل نکال کر اپنی وہ پوسٹ ڈیلیٹ کردی جس میں لکھا تھا کہ پاکستان نے ہمیں دیا ہی کیا ہے ؟ اس کی جگہ وہ دوسری پوسٹ لکھنے میں مصروف ہوگیا کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا ہے ؟ دادی جان کے چہرے پر آنسوئو ں کی جگہ اب مسکراہٹ تھی۔بچوں کو بڑوں کی قربانیوں اور آزادی کی اہمیت کا اندازہ ہوچکا تھا۔