بسلسلہ بانگ درا کے سو سال
حکیم الامت علاّمہ محمد اقبال کی فکر کا نقطہ آغاز بھی عشق مصطفی ۖ ہے اور نقطہ اختتام و اتمام بھیی عشقِ مصطفی ۖ ہی ہے۔علامہ کے اردو اور فارسی کلام اور نثری سرمائے میں محبت رسول ۖ کے مقدس اور متبرک جلوے جگہ جگہ نور پاشیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔بانگ درا علامہ اقبال کا پہلا اردو مجموعہ کلام ہے جو 1924 میں شائع ہوا اور اس برس یعنی 2024 میں اپنی اشاعت کے سوویں سال میں داخل ہو گیا ہے۔شاعر مشرق کے اس معروف اور مقبول ترین مجموعہ کلام میں بھی،محبت رسول ۖ کی نورانی جھلکیاں جگہ جگہ پوری آب و تاب سے جلوہ افروز ہیں اور قاری کے لئے ایمان کی تازگی کا مقدس سامان فراہم کر رہی ہیں۔
علامہ اقبال نے بانگ درا کو تین حصوں میں تقسم کیا ہے۔پہلا حصہ ابتداء سے 1905 تک دوسرا حصہ 1905 سے 1908 تک اور تیسرا حصہ 1908 سے 1924 تک کے کلام پر مشتمل ہے۔پہلا حصہ ظاہر ہے علامہ اقبال کی شاعری کے ابتدائی دور کے کلام پر مشتمل ہے۔اس حصے میں علامہ اقبال کی نظم "بلال" شامل ہے جو حضورۖ سے ان کے عشق کے بے پایاں جذبات سیمملو ہے۔اس نظم کا مطالعہ یہ بھی صاف ظاہر کرتا ہے کہ علامہ ابتداء ہی سے ملت اسلامیہ اور حضورۖ سے محبت اور عقیدت کے مقدس جذبے سے سرشار تھے۔اس نظم میں ہر چند کہ حضور ۖ سے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت کا رنگ دکھایا گیا ہے مگر دراصل محبت کا یہ رنگ حضور ۖ سے علامہ اقبال کی اپنی محبت کے گہرے جذبات کا لطیف اظہار ہے۔عشق و محبتِ مصطفی ۖ کے متبرک جذبات سے لبریز یہ نظم کسی تبصرے اور تشریح و توضیح کی محتاج نہیں۔براہ راست نظم پڑھیے اور صحابی رسول ۖ ، حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ اور ترجمان حقیقت علامہ محمد اقبال دونوں کی حضورۖ سے بے پایاں محبت و عقیدت کے پر نور نظاروں سے قلب و ذہن کی تابانی اور ایمان کی تازگی کا سامان کیجیے :
چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا
حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا
ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لیے
کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیے
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں
نظر تھی صورتِ سلماں ادا شناس تری
شرابِ دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری
تجھے نظارے کا مثلِ کلیم سودا تھا
اویس طاقتِ دیدار کو ترستا تھا
مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا
ترے لیے تو یہ صحرا ہی طور تھا گویا
تری نظر کو رہی دید میں بھی حسرتِ دید
خنک دلے کہ تپید و دمے نیا سائید
گری وہ برق تری جانِ ناشکیبا پر
کہ خندہ زن تری ظلمت تھی دستِ موسیٰ پر
تپش ز شعلہ گر فتند و بر دلِ تو زدند
چہ برقِ جلوہ بخاشاکِ حاصلِ تو زدند!
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
خوشا وہ وقت کہ یثرِب مقام تھا اس کا
خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا
بانگ درا کے تیسرے حصے کی نظم 'بلاد اسلامیہ' میں علامہ اقبال نے انتہائی خوبصورت انداز میں امت مسلمہ کے بعض شہروں مثلاً دلی، بغداد، قرطبہ اور قسطنطنیہ کی شان و شوکت بیان کی ہے مگر آخری بند میں جب علامہ شہرِ نبیۖ یعنی مدینہ منورہ کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی محبت کا پیمانہ چھلکنے لگتا ہے اور وہ پکار اٹھتے ہیں کہ کعبے کے لیے مدینہ منورہ کی دید حج اکبر سے بھی بڑھ کر ہے۔وہ مدینہ منورہ کو مسلمانوں کی عظمت کی ولادت، مسلمانوں کا دیس اور اثاثہ قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان اسی وقت تک دنیا میں باقی ہیں جب تک کہ شہر نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم باقی ہے:
وہ زمیں ہے تو مگر اے خواب گاہِ مصطفی
دید ہے کعبے کو تیری حجِ اکبر سے سوا
خاتمِ ہستی میں تو تاباں ہے مانندِ نگیں
اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں
تجھ میں راحت اس شہنشاہِ معظم کو مِلی
جس کے دامن میں اماں اقوامِ عالم کو مِلی
نام لیوا جس کے شاہنشاہ عالم کے ہوئے
جانشیں قیصر کے، وارث مسندِ جم کے ہوئے
ہے اگر قومیتِ اسلام پابندِ مقام
ہند ہی بنیاد ہے اس کی، نہ فارس ہے، نہ شام
آہ یثرِب! دیس ہے مسلم کا تو، ماویٰ ہے تو
نقط جاذب تاثر کی شعاعوں کا ہے تو
جب تلک باقی ہے تو دنیا میں، باقی ہم بھی ہیں
صبح ہے تو اِس چمن میں گوہرِ شبنم بھی ہیں
اور اب ذرا "بانگ درا" کی نظم "ایک حاجی مدینے کے راستے میں" کا مطالعہ کیجئے اور سر دھنیے کہ علامہ اقبال کس طرح مدینے کے راستے میں آنے والی "موت" کو "زندگی" اور مدینے کے مسافر کے گلے پر پھرنے والے "خنجرِ رہزن" کو "ہلال عید" قرار دیتے ہیں۔
ہم سفر میرے شکارِ دشن رہزن ہوئے
بچ گئے جو، ہو کے بے دل سوئے بیت اللہ پھرے
اس بخاری نوجواں نے کس خوشی سے جان دی!
موت کے زہراب میں پائی ہے اس نے زندگی
خنجرِ رہزن اسے گویا ہلالِ عید تھا
ہائے یثرِب دل میں، لب پر نعرۂ توحید تھا
خوف کہتا ہے کہ یثرِب کی طرف تنہا نہ چل
شوق کہتا ہے کہ تو مسلم ہے، بے باکانہ چل
بے زیارت سوئے بیت اللہ پھر جائوں گا کیا
عاشقوں کو روزِ محشر منہ نہ دِکھلائوں گا کیا
خوفِ جاں رکھتا نہیں کچھ دشت پیمائے حجاز
ہجرتِ مدفونِ یثرب میں یہی مخفی ہے راز
گو سلامت محملِ شامی کی ہمراہی میں ہے
عشق کی لذت مگر خطروں کی جاں کاہی میں ہے
آہ! یہ عقلِ زیاں اندیش کیا چالاک ہے
اور تاثر آدمی کا کس قدر بے باک ہے
اسی طرح ایک اور نورانی اور ملکوتی نظم "حضور رسالت ماب صلی اللہ علیہ والہ وسلم" میں علامہ اقبال نے بزمِ رسالتۖ میں اپنے پیش ہونے کا منظرانتہائی ایمان افروز انداز میں دکھایا ہے جو حضور ۖ سے علامہ اقبال کی بے پایاں محبت و عقیدت کا غماز ہے۔نظم "شفا خانہ حجاز" میں مفکراسلام علامہ اقبال نے ایک سیاسی لیڈر سے مکالمے کے ذریعے یہ حقیقت عیاں کی ہے کہ سچا عاشق محبوب کی گلی میں زندگی نہیں بلکہ موت چاہتا ہے لہٰذا وہ بھی سرزمین حجاز میں موت کے متلاشی ہیں اور محبوب ۖ کے کوچے میں ملنے والی موت ہی ان کے لیے زندگی ہے :
اک پیشوائے قوم نے اقبال سے کہا
کھلنے کو جدہ میں ہے شفا خانۂ حجاز
ہوتا ہے تیری خاک کا ہر ذرہ بے قرار
سنتا ہے تو کسی سے جو افسانۂ حجاز
دستِ جنوں کو اپنے بڑھا جیب کی طرف
مشہور تو جہاں میں ہے دیوانۂ حجاز
دارالشفا حوالیِ بطحا میں چاہیے
نبضِ مریض پنجۂ عیسیٰ میں چاہیے
میں نے کہا کہ موت کے پردے میں ہے حیات
پوشیدہ جس طرح ہو حقیقت مجاز میں
تلخابۂ اجل میں جو عاشق کو مِل گیا
پایا نہ خِضر نے مئے عمرِ دراز میں
اوروں کو دیں حضور! یہ پیغامِ زندگی
میں موت ڈھونڈتا ہوں زمینِ حجاز میں
آئے ہیں آپ لے کے شفا کا پیام کیا
رکھتے ہیں اہلِ درد مسیحا سے کام کیا!
علامہ اقبال کے دیگر اردو اور فارسی مجموعوں کی طرح بانگ درا میں بھی حضورۖ سے مسلمانوں کی گہری وابستگی،آپ ۖ کی مکمل اتباع اور پیروی کی تعلیمات،جگہ جگہ نور بکھیرتی دکھائی دیتی ہیں۔علامہ اقبال اپنے نعتیہ اشعار میں امت مسلمہ کو بار بار حضور ۖ کی سیرت اپنانے کا سبق دیتے ہیں اور مسلمانوں کی کامیابی اور نجات، اسوہ حسنہ ۖ کو اپنانے ہی میں بتاتے ہیں؛مثلاً:-نظم "تضمین بر شعر ابو طالب کلیم" کا آغاز کچھ یوں کرتے ہیں :
خوب ہے تجھ کو شعار صاحب یثرب کا پاس
کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو مسلم نہیں
جس سے تیرے حلقہ خاتم میں گردوں تھا اسیر
اے سلیماں! تیری غفلت نے گنوایا وہ نگیں
نظم کے آخر میں ابو طالب کلیم کے فارسی شعرِ تضمین کے ذریعے مسلمانوں کو بتاتے ہیں کہ دیکھو کلیم نے کیا عمدہ نقطہ بیان کیا ہے کہ "مناسب ہے کہ تو اس شخص یعنی اپنے محبوب کی پھر اطاعت شروع کر دے جس سے تو نے سرکشی کا شیوہ اختیار کر لیا ہے (یعنی حضورۖ کی غلامی اختیار کر) اور شعلے کی طرح تو جس جگہ سے اٹھا ہے دوبارہ اسی جگہ بیٹھ جا یعنی اسلام کی اطاعت کر:
سرکشی باہر کہ کردی رامِ او باید شدن
شعلہ ساں از ہر کجا برخامشی، آنجانشیں"
بانگ درا ہی کی ایک اور معروف نظم "صدیق رضی اللہ تعالی عنہ" ہے۔اس نظم میں علامہ اقبال نے خلیفہ اول حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی اسلام اور پیغمبر اسلام ۖسے بے مثل محبت کا مشہور واقعہ، انتہائی والہانہ انداز میں بیان کیا ہے۔اس والہانہ اندازِ بیان میں حضرت صدیق اکبر کی محبت رسول ۖ کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کی حضور ۖ سے اپنی محبت اور عقیدت کا جمال بھی اپنے جلوے دکھا رہا ہے۔نظم کے آخری دو اشعار میں اس محبت و عقیدت کا رنگ دیکھیے۔جب حضور ۖ جنگ یرموک کے موقع پر،صحابہ سے راہ حق میں مال طلب کرتے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے گھر کا آدھا سامان لے آتے ہیں اور دل میں سوچتے ہیں کہ آج میں اس نیکی میں ضرور صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے بڑھ جائوں گا۔پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ بھی اپنا مال لے آئے اور جب حضور ۖ نے دریافت فرمایا کہ کیا آپ گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑ آئے ہیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ،خدمتِ اقدس میں جو جواب پیش کرتے ہیں اور جس طرح شاعر مشرق نے اسے محبت ِرسول ۖ کی چاشنی میں گوندھ کر شعر کے سانچے میں ڈالا ہے، وہ نعتیہ شاعری میں اپنی مثال آپ ہے :
بولے حضور، چاہیے فکرِ عیال بھی
کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار
اے تجھ سے دیدۂ مہ و انجم فروغ گیر!
اے تیری ذات باعثِ تکوینِ روزگار!
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صِدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس
علامہ اقبال چونکہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عاشق صادق ہیں لہذا اس نسبت سے صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار سے بھی کمال عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔علامہ بار بار حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے صحابہ کرام کی عقیدت اور محبت کی مثالیں پیش کرتے ہیں اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ایسا ہی عشق اختیار کرنے کا سبق دیتے ہیں۔حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی حضور ۖ سے بے پایاں محبت کے حوالے سے ایک نظم "بلال" کے عنوان سے بانگ درا کے پہلے حصے میں شامل ہے جبکہ تیسرے حصے میں ایک اور شاندار نظم اسی عنوان سے شامل ہے؛یعنی بانگ درا میں حضور ۖ سے حضرت بلال کی مثالی محبت کے حوالے سے "بلال" کے عنوان سے دو نظمیں شامل ہیں اور یہ بات حضور ۖ اور آپ ۖ کی نسبت سے صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین سے علامہ کی پرجوش محبت و عقیدت پر دال ہے۔بلال کے عنوان سے اس دوسری نظم میں علامہ فرماتے ہیں کہ سکندر رومی جیسا عظیم بادشاہ فنا ہو گیا اور اس کا نام صرف تاریخوں میں باقی رہ گیا لیکن حضور ۖ سے عشق کی بدولت حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کا نام آج بھی زندہ و تابندہ ہے اور قیامت تک زندہ و تابندہ رہے گا:
ہے تازہ آج تک وہ نوائے جگر گداز
صدیوں سے سن رہا ہے جسے گوش چرخ پیر
اقبال کس کے عشق کا یہ فیضِ عام ہے
رومی فنا ہوا حبشی کو دوام ہے
بانگ درا کی ایک اور خوبصورت نظم "جنگ یرموک کا ایک واقعہ" ہے۔اس نظم میں بھی علامہ اقبال نے حضور ۖ سے صحابہ کرام کے بے پایاں عشق کو انتہائی دلکش نعتیہ انداز میں پیش کیا ہے۔علامہ بتاتے ہیں کہ حضور ۖ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ کرام آپ سے ملاقات کے لیے بے قرار رہتے تھے اور شہادت پا کر جلد از جلد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہونا چاہتے تھے۔جنگ یرموک میں جب اسلام اور کفر کے لشکر آمنے سامنے تھے تو ایسے میں ایک نوجوان سپہ سالار حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کفار سے لڑنے کی اجازت طلب کی:
اے ابو عبیدہ رخصت پیکار دے مجھے
لبریز ہو گیا میرے صبر و سکوں کا جام
بے تاب ہو رہا ہوں فراق رسول میں
اک دم کی زندگی بھی محبت میں ہے حرام
ان اشعار کے اس مصرے کہ "اک دم کی زندگی بھی محبت میں ہے حرام" میں چھپے ایک سچے عاشق کے والہانہ جذبہ محبت اور عشق کے سوز و گداز کو کچھ اہل درد ہی محسوس کر سکتے ہیں اور ایسی نعتیہ شاعری علامہ اقبال جیسے عاشقِ صادق ہی کا حصہ ہے۔اب ذرا، میرِ سپاہ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کا جواب سنیے۔اس جواب کو علامہ اقبال نے اس خوبصورتی سے نعتیہ شعر کا پیکر عطا کیا ہے کہ عاشقوں کے دل تڑپ اٹھتے ہیں اور حضور ۖ سے محبت کی عظمت دلوں میں گھر کرنے لگتی ہے:
یہ ذوق و شوق دیکھ کے پرنم ہوئی وہ آنکھ
جس کی نگاہ تھی صفتِ تیغِ بے نیام
بولا امیرِ فوج کہ وہ نوجواں ہے تو
پیروں پہ تیرے عشق کا واجب ہے احترام
نظم چاہے کسی بھی موضوع پر ہو علامہ اکثر اپنے محبوب اور ہادی و رہنما حضور ۖ کا ذکرِ خیر نظم میں لے آتے ہیں اور ان کی نظم اس نام نامی کی برکت سے جگمگانے اور مہکنے لگتی ہے۔اس کی ایک مثال "بانگ درا" کی نظم "میں اور تو" ہے۔نو اشعار پر مشتمل اس نظم میں علامہ بتاتے ہیں کہ ہم مسلمانوں میں اسلام کی تعلیمات اور انبیا کرام علیہم السلام کے طور طریقوں کا کچھ اثر باقی نہیں رہا اور ہم نے غیر اسلامی طور طریقے اپنا لیے ہیں اور مسلمانوں پر کفر کے حملے شدید تر ہوتے جا رہے ہیں،مگر یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
نہ ستیزہ گاہِ جہاں نئی نہ حریف پنجہ فگن نئے
وہی فطرت اسد اللّٰہی وہی مرحبی وہی عنتری
نظم میں مسلمانوں کی بے راہ روی اور خیر و شر کے تصادم میں مسلمانوں کا حال لکھتے لکھتے علامہ کو اپنے محبوب، اپنے ہادی، اپنے رہنما، اپنے مولا، اپنے والی، اپنے ملجا اور اپنے ماویٰ،رحمت اللعالمین ۖ کی یاد آتی ہے اور وہ جوشِ عقیدت و محبت میں اپنے آقا کو پکارنے لگتے ہیں :
کرم ہے شہ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظرِ کرم
وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنہیں دماغ سکندری
بانگ درا کے تیسرے ہی حصے کی ایک چار مصروں پر مشتمل نظم ہے "شب معراج"۔ حجم کے لحاظ سے بظاہر اس چھوٹی سی نظم کا نعتیہ رنگ اور آہنگ کمال حسن و لطافت اور والہانہ جذبہ محبت سے روشن ہے۔علامہ حضور ۖ کے عشق میں ڈوب کر فرماتے ہیں کہ شب معراج کو آپ ۖ کی معراج کے باعث وہ عظمت نصیب ہوئی ہے کہ صبح بھی اس رات کا اادب و احترام کرتی ہے اور اسے سجدہ کرتی ہے اور اگر مسلمان حضور ۖ کی کامل اتباع کریں تو وہ بھی اللہ تعالی کا قرب حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ حضور ۖ کی محبت کے فیض سے ان کے لیے زمین سے آسمان تک کا فاصلہ محض ایک قدم کا رہ جاتا ہے۔سبحان اللہ :
اخترِ شام کی آتی ہے فلک سے آواز
سجدہ کرتی ہے سحر جس کو، وہ ہے آج کی رات
رہِ یک گام ہے ہمت کے لیے عرشِ بریں
کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات
مفکر اسلام،دانائے راز اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال جب بھی اپنی قوم کی حالت زار سے پریشان ہوتے ہیں تو اس پریشانی کا حال اور امت کا استغاثہ اپنے محبوب حضور ۖکی بارگاہ ہی میں پیش کرتے ہیں۔غزل میں بھی علامہ اقبال کا محبوب دوسرے غزل گو شعرا کی طرح کوئی دنیاوی محبوب نہیں بلکہ آپ کا محبوب تو وہ ہے جو رب کائنات کا بھی محبوب ہے، جو وجہ ِتخلیق کائنات ہے اور جو رحمت اللعالمین ۖ ہے۔ذرا بانگِ درا کی ایک غزل کا یہ شعر دیکھیے :
اے بادِ صبا! کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا
قبضے سے اُمت بیچاری کے دیں بھی گیا، دنیا بھی گئی
اور آخر میں تذکرہ بانگ درا کی معروف شاہکار اور معرکہ آرا نظم 'جواب شکوہ' کے آخری پانچ بندوں کا۔نظم جواب شکوہ 36 بندوں پر مشتمل ہے جو علامہ اقبال نے اپنی معروف نظم شکوہ کے جواب میں لکھی۔نظم شکوہ میں علامہ اقبال نے اللہ تعالیٰ کے حضور امت ِمسلمہ کی حالت زار، نکبت و ادبار، خستہ حالی، پستی، زوال، ذلت، رسوائی اور رحمت سے محرومی کی شکایت کی تھی:
امتیں اور بھی ہیں، ان میں گنہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں، مستِ مئے پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں
سیکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
اور
طعن اغیار ہے رسوائی ہے ناداری ہے
کیا تیرے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے
نظم' شکوہ' 34 بندوں پر مشتمل تھی۔علامہ اقبال نے اللہ تعالی کی طرف سے اس شکوے کا جواب 36 بندوں میں دیا۔پہلے تو مسلمانوں کو ان کی سستی، کاہلی، نااہلی، دین، قرآن اور اسوہ ٔرسولۖ سے روگردانی،غیر اقوام کی نقالی اور فرقہ واریت پر اللہ تعالی کی طرف سے خوب ڈانٹ پلائی گئی :
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے! ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
طبعِ آزاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے
تمھی کہہ دو، کہ یہ آئینِ وفاداری ہے؟
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
اور
کون ہے تارکِ آئینِ رسولِ مختارۖ
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار
ہوگئی کس کی نِگہ طرزِ سلف سے بیزار
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمدۖ کا تمھیں پاس نہیں
اور
ہر کوئی مستِ مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو یہ اندازِ مسلمانی
حیدری فقر ہے نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
خوب ڈانٹنے کے بعد آخر اللہ تعالیٰ کو اپنے پیارے محبوب ۖ کی امت پر پیار اور رحم آ گیا اور بڑے محبت بھرے انداز میں مسلمانوں کو سمجھانا شروع کیا کہ :
دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکبِ غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خش و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خونِ شہداء کی لالی
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
یہ نِکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے
اور
تو نہ مِٹ جائے گا ایران کے مِٹ جانے سے
نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مِل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کشتیِ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصرِ نو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے
یعنی مفلوک الحال مسلم امت کو اللہ تعالی نے تسلی دی کہ وقتی رسوائی اور پستی سے گھبرانا نہیں چاہیے۔تم اللہ کی چنیدہ قوم اور توحید کے محافظ ہو۔تم اس ناگفتہ بہ حالت سے ضرور نکل جا گے اور تمہیں پھر عروج حاصل ہوگا مگر اس کے لیے ضروری ہے اور یہ شرط ہے کہ تم حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہو جا اور آپ کے اسمِ گرامی کے نور سے ساری دنیا میں اجالا کر دو۔اس طرح علامہ اقبال مسلمانوں کو اللہ تعالی کی طرف سے کامیابی اور عروج حاصل کرنے کا جو واحد طریقہ اور اصول بتاتے ہیں وہ ہے "محمدۖ سے وفا" حضور ۖ سے وفا اور آپ کی پیروی ہی اللہ کے نزدیک وہ اصول ہے کہ جس سے مسلمان اللہ کی رحمت کے حقدار بن سکتے ہیں اور نبی کریمۖ سے وفا کے ذریعے یہ دنیا تو کیا بلکہ لوح و قلم یعنی تقدیر لکھنے اور بنانے کا کام ان کے ہاتھ میں آ سکتا ہے،پھر وہ جو چاہیں اپنی اور قوم کی تقدیر میں لکھ لیں مگر شرط وہی ایک ہے "محمدۖ سے وفا" اور بانگ درا کی نظم جواب شکوہ کا یہی وہ مقام ہے، جو آخری پانچ بندوں پر مشتمل ہے،کہ جہاں بیسویں صدی کے اس سب سے بڑے شاعر اور مفکر نے حضورۖ کی شان اقدس میں ایسی نعت لکھی ہے کہ جس کی مثال دنیا کی کسی بھی زبان کی شاعری میں ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے :
مثلِ بو قید ہے غنچے میں، پریشاں ہو جا
رخت بردوش ہوائے چمنِستاں ہو جا
ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا
نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہو جا
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدۖ سے اُجالا کر دے
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
نہ یہ ساقی ہو تو پھرمے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزمِ توحید جو دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا اِستادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
دشت میں، دامنِ کہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ دیکھے
مردمِ چشمِ زمیں یعنی وہ کالی دنیا
وہ تمھارے شہداء پالنے والی دنیا
گرمیِ مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بِلالی دنیا
تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح
عقل ہے تیری سِپر، عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش! خلافت ہے جہاںگیر تری
ماسِوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
یہ ہے "بانگ درا" کا،حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے والہانہ عشق و محبت اور کمال عقیدت کے نور میں ڈوبا ہوا بیمثل، منفرد، مہتمم بالشان، پرجوش،ایمان افروز، پاکیزہ اور مہکتا ہوا نعتیہ رنگ۔
سبحان اللہ۔ سبحان اللہ۔
مضمون نگار ایک معروف ماہر تعلیم ہیں۔ اقبالیات اور پاکستانیات سے متعلق امور میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے