کیپٹن نصراللہ اعوان شہیدکے بارے میں محمد علی اسد بھٹی کا مضمون
کچھ لوگ واقعی ایسے ہوتے ہیں جو خود تو شمع کی مانند جل جاتے ہیں لیکن دوسروں کی زندگی میں روشنی بکھیر جاتے ہیں اور ایسے ہی لوگ دنیا وآخرت میں عظمت و روشنی کے مینار ثابت ہوتے ہیں ۔ایسے ہی عظیم لوگوں میں ایک نام وادیٔ سون کے جوان کیپٹن نصراللہ اعوان شہید کا بھی آتا ہے جس نے اپنی زندگی کی بازی ہار کر نہ صرف خاندان، علاقے اور ملک وقوم کا نام زندہ ِجاوید کردیا بلکہ خود بھی امر ہو گیا ۔
وادیٔ سون ضلع خوشاب کی سنگلاخ مگر سر سبزو شاداب وادی کے بارے میں کسی دانشور نے کیا خوب کہا تھا کہ سال میں تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں اور اس وادی میں ہر صبح ایک نئی بہار جنم لیتی ہے ۔گویا وادیٔ سون میں سال بھر میں تین سو پینسٹھ بہاریں جنم لیتی ہیں اور ہر بہار کی اپنی ایک الگ داستان ہے ۔ انہی بہاروں کی ایک داستان جو تاریخ کے ماتھے کاجھومر بن گئی وہ 15جون 1972ء کی حسین صبح تھی جب سوڈھی جے والی کی ایک معززفیملی میں اپنے خاندان کو عظمت بخشنے والے قاضی مرید احمد کے نواسے میجر محمودالحسن کے بھانجے اور ملک عصمت اللہ اعوان کے فرزند نصراللہ اعوان نے آنکھ کھولی۔
نصراللہ اعوان اپنے والدین کا اکلوتا فرزند تھا اس لیے پورے خاندان کی آنکھ کا تارااور آرزوؤں کا مرکز بن گیا۔ باشعورو الدین نے اپنے بیٹے کی تعلیم وتربیت کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔نصراللہ بچپن سے ہی ذہین اور بے پناہ صلاحیتوں کامالک تھا ۔پڑھنے کی عمر ہوئی تو اُسے اپنے ہی گائوں کے سکول میں داخل کروا دیاگیا۔ ننھے طالب علم کی سکول میں داخل ہوتے ہی تعلیمی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آگئیں ۔وہ ہر سال اپنی کلاس میں اول آتا ۔یوں ہمیشہ اپنے اساتذہ کا منظورنظر رہا۔ نصراللہ کو تحریر وتقریر پر بھی مکمل عبور حاصل تھا اور اسی خصوصیت کی بناء پر اپنے زمانہ طالب علمی میں ہمیشہ ممتازو نمایا ںرہا۔ آٹھویں کلاس کے بعد گورنمنٹ جامعہ ہائی سکول سرگودھا میں داخلہ لے لیا۔ وہ انتہائی فرماں بردار، دوسروں کے دکھ دردبانٹنے والا، چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا بے حد ادب کرنے والا نوجوان تھا ۔نصراللہ نے 1987ء میں گورنمنٹ جامعہ ہائی سکول سرگودھا سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اسی سال 14اگست کے موقع پر یوم پاکستان کے موضوع پر ہونے والے قومی تقریری مقابلہ میں پنجاب بھر میں دوسرا انعام حاصل کیا ۔
نصراللہ اعوان کے دل کے کسی گمنام گوشے میں یہ خواہش ہر وقت مچلتی رہتی کہ کاش وہ عملی زندگی میں مجاہد انہ زندگی اختیار کرسکے کیونکہ اس کے آبائواجداد بھی پیشہ سپہ گری سے منسلک رہے تھے۔ گویا اس کی رگوں میں سپاہیانہ خون گردش کر رہا تھا اور اسی خواہش کی تکمیل کے لیے اس جوان نے فوج میں جانے کا پختہ ارادہ کر لیا ۔1988ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے جے سی بی کورس24میں بطور کیڈٹ شامل ہوئے۔ بعد ازاں پی ایم اے 85لانگ کورس کا حصہ بن کر1992ء کو پی ایم اے کا کول سے پاس آؤٹ ہونے کے بعدکیولری (ایف ایف) آرمڈ کورکھا ریاں چھاؤنی میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ رپورٹ کی، چندماہ بعد ہی لیفٹیننٹ کے عہدہ پر ترقی حاصل کی۔
کپتان کے عہدے پر تعینات ہوئے تو اُنہیں یونٹ کا ایڈجوٹنٹ بنا دیا گیا جو کہ نہایت ہی اہم ذمہ داری تھی ۔جسے نصرااللہ اعوان نے نہایت ہی خوش اسلوبی سے نبھایا۔ نصرااللہ اعوان نہایت ہی قابل، بااخلاق اور فرض شناس افسر ثابت ہوا ۔ یہی وجہ تھی کہ فوج میں تمام چھوٹے بڑے سب اس سے محبت کرتے تھے ۔ نصراللہ اعوان کی قابلیت، محنت اور مادروطن سے محبت ہی اس کی شہادت کا سبب بنی، موت کا خوف اس کے قریب بھی آنے نہ پایا تھا ۔ وہ عموماً حضرت علی کرم اللہ وجہیہ کا یہ قول دہرایا کرتا کہ 'موت فرد کی حفاظت کرتی ہے اور جس دن موت آئے گی اسے کوئی بھی ٹال نہیں سکتا ۔' یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مقابلہ ایک نہ ایک دن ہر انسان کو کرنا ہے۔ اگرموت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اس کا مقابلہ کیا جائے تو اسے پسپا کیا جا سکتا ہے اور واقعی نصراللہ اعوان نے موت سے ہار نہیں مانی بلکہ موت کو ہی پسپا کردیا ۔
اسے اسلامی تاریخ کے شہداء سے انتہائی عقیدت تھی چناچہ وہ زیادہ تر ایسی کتابیں پڑھتا جو جنگی حکمت عملی سے متعلق ہوتیں ۔چونکہ نصراللہ اعوان کے اندر جذبۂ ،شہادت موجزن تھا اس لیے اسے میدان حرب میں اپنی صلاحیتیں دکھانے کی شدید آرزو تھی اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے اس نے رضا کارانہ طور پر سیا چن کے محاذ پر اپنی خدمات پیش کیں اور16 مارچ1995ء کو کھاریاں سے اپنی منزل شہادت کو روانہ ہوا۔
سیاچن جانے سے قبل اپنی یونٹ کی کتاب میں تاثرات درج کرتے ہوئے نصراللہ اعوان نے لکھا '' انشاء اللہ پرسوں سیاچن روانہ ہو جاؤں گا۔ میں اپنی محبوب یونٹ کیولری (ایف ایف)کی سر بلند ی کے لیے کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کروں گا ۔میں جہاں بھی جاؤں گا اپنی یونٹ کے لیے محبت قائم رہے گی ۔اللہ تعالی میری یونٹ کا پرچم ہمیشہ بلند رکھے ۔ میرے لیے فخر کا مقام ہو گا کہ اللہ تعالی اور اپنے پیارے پاکستان کے پرچم کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر سکوں ۔'' یوں نصراللہ اعوان نے دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ سیاچن کے لیے رخت سفرباندھا ۔ 4مئی 1995ء کو اس کی یہ خواہش یوںپوری ہوئی کہ جب سیاچن پر برف کے تودے گلیشیئر گرنے کی طوفانی بارش ہو رہی تھی ۔یہ برفانی تودے ہزاروں من وزنی ہوتے ہیں اور برف کے اس سمندر میں گھرے ہوئے اپنے جوانوں کوبحفاظت نکالنے کے لیے، جبکہ دشمن بھی سامنے مورچہ زن تھا، کیپٹن نصراللہ اعوان نے بھاگنے کی کوشش نہیں کی اور اپنے جوانوں کے ساتھ مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنی قیمتی متاع جان آفرین کے حضور بطورنذرانہ پیش کردی ۔
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم
بجھ تو جائوں گا مگر صبح کر جائوں گا
نصراللہ شہید کا جسد خاکی 7مئی1995 کو بذریعہ ہیلی کا پٹر ان کے آبائی قصبہ سوڈھی جے والی وادی سون میں لایا گیا اور انہیں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپردخاک کر دیا گیا۔
مضمون نگار عسکری موضوعات پر لکھتے ہیں۔
تبصرے