دنیا میں آبادی کا عالمی دن ہر سال 11 جولائی کو بہت اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا آغاز 1989 میں اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلق ادارے UNPFکے زیر اہتمام منانے کا اعلان کیا گیا کیونکہ 11 جولائی 1987میں دنیا کی آبادی 5 ارب تک پہنچ گئی تھی۔ 1850 میں عالمی آبادی تقریباً ایک ارب تھی جو 1950 میں دو ارب تک پہنچ گئی تھی۔ صرف ایک صدی میں آبادی کا تناسب ایک ارب سے بڑھ کر دو ارب تک پہنچ گیا تھا۔ انسانوں کی آبادی روشنی کی رفتار سے بڑھ رہی تھی اور اس دن کو منانے کی تجویز ورلڈ بینک میں کام کرنے والے ایک سینئر ڈیموگرافر ڈاکٹر K.C.Zachariah نے پیش کی۔ اس تجویز کو بہت سراہا گیا اور 1990 میں 90 سے زیادہ ممالک نے اس دن کو بہت اہتمام سے منایا۔ اب موجودہ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال دنیا کی آبادی میں 83 ملین لوگوں کا اضافہ ہو رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق 2030 میں 8.6 ارب اور 2050 میں 9.8 ارب ہو جائے گی۔
آبادی کا عالمی دن ایک یاددہانی ہے کہ اگر ہم اس کرہ ٔارض کے ہر فرد کی طاقت کو بروئے کار لاتے ہیں تو ہم 2030 کے پائیدار ترقی کے ایجنڈے کے ذریعے تصور کیے گئے خوشحال پرامن اور پائیدار مستقبل کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اس دن کے منانے کا مقصد عالمی سطح پر آبادی کے مسائل سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے اور آبادی پر قابو پانے سے متعلق حل کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے۔ آبادی کے تیزی سے اضافے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ عام فہم انداز سے اگر ہم کسی کو سمجھائیں تو یوں کہیں گے کہ اگر ایک کمرے میں 100 لوگوں کی گنجائش ہے اور ہم اس میں 300 لوگ بھر دیں تو کیا مسائل پیدا ہوںگے۔ جس طرح موٹاپا ایک بیماری نہیں ہے بلکہ بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے اسی طرح آبادی کا اس طرح تیزی سے بڑھنا بھی بے شمار مسائل کے وجود میں آنے کی جڑ ہے ۔
سب سے پہلے ہمیں آبادی کی شرح میں تیزی سے اضافے کی وجوہات سے متعلق عوام کو آگاہی فراہم کرنی ہے جن میں چیدہ چیدہ مندرجہ ذیل ہیں :
(1 خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں لاعلمی
(2 تعلیم کی کمی
(3 صنفی امتیاز کا کلچر
(4 اموات کی شرح میں کمی
(5بچوں سے مزدوری
(6فرٹیلائزیش کا رحجان
(7کم عمری کی شادیاں
(8ہجرت کا رحجان
(9 دیہاتوں سے لوگوں کا تیزی سے شہروں کی جانب ہجرت کرنا۔
(10 ماہرین کے مطابق مناسب خوراک کی فراہمی علاج معالجے ،رہائش، تعلیم، سفری سہولیات سمیت بہت سے بنیادی معاملات کا آبادی میں اضافے سے براہ ِراست تعلق ہے ۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر پیدا ہو نے والے مسائل بے شمار ہیں۔ مثلاً :قدرتی وسائل میں فقدان، موسمیاتی تبدیلی ، خوراک میںکمی ، پانی میں کمی ،رہائش کے مسائل ،کچی آبادیوں کا وجود میں آنا،بے روزگاری، لڑائی جھگڑے ،جرائم میں اضافہ، ماحولیاتی آلودگی ، شوروغل کی آلودگی ،تعلیم کے مسائل ، مہنگائی ،ادویات میں کمی ،ہسپتالوں کی کمی، سکیورٹی چیلنج ،صحت کے مسائل، علاج و معالج کے مسائل ،سفری مسائل ،ٹریفک کے مسائل اورمعاشرتی تنازعات وغیرہ وغیرہ
اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلق ادارے UNPF کا کہنا ہے کہ عالمی دن منانے کا مقصد صرف آبادی پر قابو پانا ہی نہیں ہے بلکہ لوگوں میں یہ شعور بھی اجاگر کرنا ہے کہ محدود وسائل کے باوجود اگر دنیا کی آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو ہماری آنے والی نسلوں کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں معاشی و سماجی مسائل کی وجہ سے لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو تے جائیں گے، جرائم کے تناسب میںاضافہ ہوگا اور خودکشی کا رحجان بڑھے گا۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور پاکستان کے حالات ایسے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود سالانہ 3 ملین ٹن گندم درآمد کرتا ہے، کوئلہ تیل گیس میں خود کفیل ہونے کے باوجود اس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے دوسرے ممالک سے خریدنی پڑتی ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں پانی کا بحران آچکا ہے لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور جو صاف پانی بوتلوں میں پرائیویٹ کمپنیاں فراہم کر رہی ہیں وہ لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہے۔ دریا سوکھ رہے ہیں۔ ان حالات میں وقت کا تقاضا ہے کہ موجودہ حکومت فوری طور پر ایکشن پلان کے تحت کمیٹیوں کو تشکیل دے جو دور دراز علاقوں میں جا کر مہم چلائیں اور لوگوں کو آگاہ کریں کہ کس طریقے سے خاندانی منصوبہ بندی کریں اور چھوٹے خاندان کے کیا کیا فائدے ہیں۔ اس وقت حالات ایسے ہیں کہ پاکستان کے گائوں اوردیہاتوں میں ضروریات زندگیکے مسائل ہیں ۔ہسپتالوںمیں ادویات اورڈاکٹرز کی عدم موجودگی بھی ایک مسئلہ ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کی سہولیات کا فقدان ہے، تعلیم کے لیے لوگوں کو شہروں کی جانب ہجرت کرنا پڑتی ہے، علاج و معالج کے لیے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، ملازمت اور روزگار کے لیے لوگ اپنے خاندانوں سمیت شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے شہروں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر کراچی شہر کی آبادی اس وقت ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہو گئی ہے۔ آبادی میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے بے شمار مسائل نے سر اٹھا لیا ہے۔
(1) لوگوں کو رہائش کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے کچی آبادیوں میں اضافہ ہو گیا ہے
(2) بے روزگاری کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔
(3) سکیورٹی چیلنج پیدا ہو گیا ہے، سٹریٹ کرائم میںاضافہ ہو گیا ہے، عام شہری کی عزت جان و مال کی کوئی ضمانت نہیں ہے
(4) فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے
(5) صحت کے مسائل پیدا ہو گئے ہیں
(6) نت نئی بیماریاں پیدا ہو گئی ہیں
ان حالات میں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے دیہاتوں میں تعلیم، روزگار اور صحت کے مسائل کو حل کرے تاکہ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں رہنا پسند کریں اور شہروں کے حالات بہتر ہوں۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا بھر میں سب سے پہلے چین کی حکومت نے one child policy کا اہتمام کیا اور اس پر سختی سے اپنی عوام سے عمل درآمد کروایا اور جو فیملی ان کی پالیسی پر عمل کرتی ، ان کے لیے وظیفہ مقرر کیاگیا۔ چین کی سخت پالیسی کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج چین آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ ہمارے ہاں بھی حکومتی سطح پر برادر ملک چین جیسے اقدامات اُٹھائے جائیں تو اس کے انتہائی مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
مضمون نگار سماجی و معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
تبصرے