روئے زمین پر زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے پانی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ہر زندہ چیز کی تخلیق پانی سے ہوئی ہے اور اس کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے۔ یہ نہ صرف انسانی حیات کے لیے ضروری ہے بلکہ تمام جانوروں، پودوں اور ماحولیاتی توازن کے لیے بھی لازمی ہے۔ پانی ہمارے قدرتی وسائل میں سے ایک ہے۔ ہماری زمین کا 70% حصہ پانی پر مشتمل ہے جس میں سے 97% سمندری پانی ہے جو پینے کے قابل نہیں۔ باقی 3% میٹھا پانی ہے جس کا 69% گلیشیئرز میں محفوظ ہے جبکہ 30% زیر زمین اور صرف 1% جھیلوں اور دریائوں میں موجود ہے جو پینے اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
صاف پانی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے اور اس تک رسائی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ انسانی ترقی اور بہبود میں پانی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے لیکن دہائیوں سے چلی آ رہی بدانتظامی اور پانی کے بے جا استعمال نے آبی قلت میں اضافہ کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی 2 سے 3 ارب آبادی پانی کی قلت کا شکار ہے۔ 3.6 ارب لوگوں کو سال کے کم از کم ایک مہینے میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال 8 لاکھ سے زیادہ لوگ ایسی بیماریوں سے ہلاک ہوتے ہیں جو کہ گندے اور آلودہ پانی سے جنم لیتی ہیں۔
آبی وسائل کا انتظام کسی ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی اور مجموعی بہبود کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جبکہ ترقی پذیر ممالک میں پانی سے متعلق چیلنجز کئی عوامل کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں، جن میں وسائل کا غلط ا ستعمال اور محدود مالی وسائل شامل ہیں۔
دیکھا جائے تو قدرت نے پاکستان کو وافر آبی وسائل سے نوازا ہے۔ لیکن اسے ذخیرہ کرنے کی سہولیات کی کمی، پانی کے ناقص انتظام اور موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کی وجہ سے ہمیں شدید آبی قلت کا سامنا ہے۔
پاکستان کے آبی وسائل بنیادی طور پر سطح زمین اور زیر زمین پانی پر مشتمل ہیں، یہ دونوں ملک کی زرعی، صنعتی اور گھریلو ضروریات کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
سطح زمین پر موجود پانی (surface water)کا بڑا حصہ یعنی 70% کے قریب برفیلے گلیشئیرز پر مشتمل ہے۔ جب کہ بقیہ 30% حصہ بارش کا ہے۔ ان گلیشیئرز کے پگھلنے اور مون سون کی بارشوں سے دریائوں میں پانی آتا ہے۔ دریائے سندھ کا نظام پاکستان کی پانی کی فراہمی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ نظام سندھ، جہلم، چناب، راوی اور ستلج جیسے بڑے دریائوں پر مشتمل ہے۔ ہمالیہ سے نکلنے والے ان دریائوں سے حاصل ہونے والے پانی کا صرف 10% حصہ ہی تربیلا، منگلا اور چشمہ ڈیم کی صورت میں ذخیرہ کیا جاتا ہے جو پن بجلی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، بقیہ90% بغیر استعمال ہوئے سمندر میں جا گرتا ہے۔
پانی کا دوسرا اہم ذریعہ زیر زمین پانی (underground water) ہے، خاص طور پر بلوچستان اور سندھ جیسے خشک علاقوں میں زیر زمین آبی ذخائر ہی آبپاشی اور پینے کے لیے ضروری پانی مہیا کرتے ہیں۔ تاہم، ضرورت سے زیادہ نکالنے کی وجہ سے واٹر ٹیبل میں کمی واقع ہوئی ہے، یعنی زیر زمین موجود پانی کی سطح بہت نیچے ہوتی جا رہی ہے جس سے پانی کی طویل مدتی دستیابی کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔
سطح زمین اور زیر زمین پانی کے استعمال کے درمیان توازن ہونا پاکستان کے آبی تحفظ کے لیے بہت اہم ہے، کیونکہ آدھی سے زیادہ آبادی کا انحصار زراعت پر ہے، اور صنعتیں بھی پانی کے وافر وسائل پر انحصار کرتی ہیں۔ تاہم، پاکستان میں ان دونوں آبی وسائل کے انتظام کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی پانی کی طلب میں اوسطاً سالانہ 10% کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔
1951 میں فی کس پانی کی دستیابی 5,000 کیوبک میٹر سالانہ تھی جو آج 1,000 کیوبک میٹر سے بھی کم رہ گئی ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (PCRWR) نے خبردار کیا ہے کہ اگر آبی قلت کی یہی صورت حال جاری رہی تو 2025 تک فی کس پانی کی دستیابی مزید کم ہو کر 500 کیوبک میٹر تک رہ جائے گی اور ملک کو پانی کی مکمل قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پانی کے اس بحران کی وجوہات میں ایک وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب پانی کی طلب میں اضافہ ہے۔ یہ اضافہ پہلے سے ہی محدود پانی کے وسائل پر اثر انداز ہو رہا ہے، جس سے زراعت، صنعت اور گھریلو استعمال کی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مزید گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی گلیشئیرز کے پگھلنے میں تیزی لانے کے ساتھ ساتھ بارش کے پیٹرن کو تبدیل کر رہی ہے جس سے دریائوں اور آبی ذخائر میں پانی کا بہائو متاثر ہو رہا ہے جس سے سیلاب اور خشک سالی جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک علاقے میں آبی وسائل کا بے دریغ استحصال بھی دوسرے خطوں میں پانی کی قلت کا سبب بن سکتا ہے، جس سے ان علاقوں کی زراعت، توانائی کی پیداوار اور انسانی استعمال متاثر ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ بھارت کی طرف سے 1960 میں کیے جانے والے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی سرحد کے قریب دریائوں پر اپ اسٹریم ڈیموں کی تعمیر پاکستان میں پانی کے بہائو کو متاثر کر رہی ہے جس سے دونوں ممالک میں کشیدگی اور مشترکہ آبی وسائل پر غیر یقینی صورتحال اور ممکنہ تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔
پانی کی کمی پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے ایک سنگین چیلنج بن کر ابھر رہی ہے۔ بھارت کے ساتھ پانی سے متعلق تنازعات کے علاوہ یہ بین الصوبائی ہم آہنگی اور سماجی تنازعات کا باعث بھی بن رہی ہے۔ اس لیے حکومت پاکستان نے اس مسئلے کی جانب سنجیدگی سے توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ اس سے قبل بھی مختلف ادوار میں پانی کے بحران سے بچنے کے لیے حکومت پاکستان کی طرف سے کئی اقدامات کیے جاتے رہے ہیں جن میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیمز کی تعمیر بھی شامل ہے۔ اس وقت پاکستان میں چھوٹے بڑے 150 سے زائد ڈیم موجود ہیں۔ تربیلا ڈیم مٹی کی بھرائی سے بننے والا دنیا کا سب سے بڑا ڈیم اور پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے لحاظ سے یہ دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم ہے لیکن اس میں مسلسل جمع ہونے والی ریت سے اس کی صلاحیت میں 40 فیصد کمی آئی ہے۔ منگلا ڈیم پاکستان کا دوسرا بڑا ڈیم ہے جس میں 90 لاکھ 60 ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ میرانی ڈیم سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کی استعداد کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے ۔ 2018 میں سپریم کورٹ کی جانب سے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم دیا گیا۔ دیامر بھاشا ڈیم گلگت بلتستان کے علاقے تھور میں دریائے سندھ پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس ڈیم میں 64 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ جبکہ مہمند ڈیم ضلع مہمند میں دریائے سوات پر تعمیر کیا جائے گا اور اس میں تقریباً 12 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی۔ لیکن یہ ملی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ کیوں کہ ان ڈیمز میں صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے جو کہ ناکافی ہے۔ ڈیموں کی تعداد کم ہونے کے باعث پاکستان کو سالانہ حاصل ہونے والے 145 ملین ایکڑ فٹ پانی میں سے صرف 13 فیصد کے قریب پانی بچ پاتا ہے۔اگر اب بھی مزید ڈیم نہ بنائے گئے تو 2025 میں پاکستان کو آبی قلت کا شکار ملک قرار دے دیا جائے گا۔ ورلڈ بینک کے سروے کے مطابق پاکستان میں جولائی سے ستمبر تک اوسطاً 200 ملی میٹر بارش ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے، پانی کے مناسب ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے بارش کا زیادہ تر پانی سیلاب لانے کا باعث بنتا ہے اور بحیرہ عرب میں ضائع ہو جاتا ہے۔
اب جبکہ پاکستان اپنی بقا کے نازک موڑ پر ہے، تو قومی طاقت کے تمام عناصر کو اتفاق رائے پیدا کرنے، وسائل کے بندوبست اور تیز رفتاری سے تکمیل کے لیے متحرک ہونا چاہیے اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کر کے استعمال میں لانے کے لیے منصوبے بنانے چاہئیں۔ مزید ڈیم بنانے کے ساتھ پہلے سے جاری منصوبوں کی رفتار کو تیز کیا جائے اور ایک جامع روڈ میپ تیار کرنا چاہیے۔ منگلا، تربیلا اور چشمہ کی ریت جمع ہو جانے کی وجہ سے کم ہونے والی صلاحیت کو ترجیحی بنیادوں پر بحال کیا جانا چاہیے۔
آبی قلت کا شکار صوبے اکثر وفاق کی جانب سے پانی کی امتیازی تقسیم کی شکایت کرتے پائے جاتے ہیں۔ ان شکایات کے حل کے لیے حکومت کی جانب سے مئی 2018 میں نیشنل واٹر پالیسی منظور ہوئی جس کے تحت صوبائی سطح پر پانی سے متعلق چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک جامع فریم ورک بنانے، آبی وسائل کے مؤثر استعمال اور ان کی منصفانہ تقسیم کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس پالیسی کے کلیدی مقاصد کے مطابق صوبوں میں پانی کے تحفظ کو فروغ دینے، پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے اس کے معیار کو بہتر بنانے، اور اس کے مربوط وسائل کے انتظام کو یقینی بنائے۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت آلودہ پانی کے ری سائیکلنگ پلانٹس کو مرحلہ وار متعارف کروا سکتی ہے جس کا آغاز صوبائی دارالحکومتوں سے کیا جائے اور بتدریج تمام شہری اور دیہی علاقوں تک پھیلایا جائے۔ اس پانی کو پینے کے علاوہ صفائی، زراعت اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ آبپاشی میں استعمال ہونے والا تقریباً 60% پانی فرسودہ طریقوں، نہروں کی ناقص دیکھ بھال اور پانی کی تقسیم کے ناکارہ نظام کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ پانی کے اس ضیاع سے بچنے کے لیے نگرانی کے طریقہ کار کے ساتھ ساتھ پانی کی دستیابی، نہروں کی دیکھ بھال اور پائیداری کے تمام تکنیکی جائزوں کے بعد انفرادی سطح پر پانی کی فراہمی کے بجائے کمیونٹی پر مبنی ٹیوب ویل سسٹم لگائے جانے چاہئیں۔
حکومت کو چاہیے کاشت کاروں اور کسانوں کو پانی کے ضیاع اور اس کے تحفظ سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے۔ زرخیز زمینوں پر سفیدے اور اس جیسے دوسرے درخت اور ایسی فصلیں لگانے کی حوصلہ شکنی کی جائے جو زیر زمین پانی کی سطح نیچی کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ پانی کو آلودہ ہونے سے بچانا بھی نہایت ضروری ہے۔ صنعتیں اپنا آلودہ پانی دریائوں میں چھوڑ دیتی ہیں جس میں بہت سے نقصان دہ نامیاتی اور غیر نامیاتی مادے پائے جاتے ہیں جو نہ صرف ہمیں کئی بیماریوں کا شکار کرتے ہیں بلکہ آبی حیات کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ دریائے راوی میں انسانی اور صنعتی فضلہ شامل ہونے کے باعث اسے دنیا کا آلودہ ترین دریا قرار دے دیا گیا ہے۔ گھریلو کچرے اور صنعتی فضلے کی وجہ سے زیر زمین پانی بھی آلودہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں پینے کے پانی کے تمام ذرائع کا اوسطاً 61% پانی جراثیم سے آلودہ ہو چکا ہے اور ملک کے 29 بڑے شہروں کا پانی پینے کے قابل نہیں رہا جو کہ تشویش ناک بات ہے۔
مقامی بلدیاتی اداروں اور صنعتی اکائیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آلودہ پانی اورصنعتی فضلہ دریائوں اوردیگر آبی ذخائر میں چھوڑنے سے پہلے اسے آلودگی سے پاک کرنے سے متعلق مجوزہ ضابطوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ صنعتوں کے ناس آب پر کڑی نگرانی رکھی جائے اور پانی کے ذخائر کو damping site بننے سے بچایا جائے۔
اس سلسلے میں عوامی سطح پر بھی پانی کے ضیاع سے بچنے اور اس کے ذخائر کا تحفظ کرنے کے لیے آگاہی مہم چلانی چاہیے تاکہ پانی کو آلودہ اور ضائع ہونے سے بچائیں۔ آگاہی کے فقدان کے باعث پاکستان کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے اور پانی ضائع کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ بحیثیت ایک ذمہ دار شہری ہم سب کا فرض ہے کہ اپنے ملک کو پانی کے بحران کا شکار ہونے سے بچائیں ورنہ ہمارے ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔
مضمون نگار سماجی، معاشرتی اور دیگر موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے