ہر آزاد ریاست اپنے معاملات میں آزاد اور خودمختار ہوتی ہے ، اپنے قومی مفادات کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی پالیسی سازی کی جاتی ہے اور بین الاقوامی تعلقات میں بھی ملکی مفادات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے ۔یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مہاجر ین کسی بھی ملک کی معیشت پر بوجھ ہوتے ہیں ۔ ملک کے وسائل استعمال کرنے کے علاوہ مقامی آبادیوں کے لیے معاشرتی سماجی اور امن و امان کے مسائل میں اضافے کا سبب بن جاتے ہیں ۔پاکستانی عوام ایک مدت سے مہاجرین کے حوالے سے ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایران اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران سے غیر قانونی افغان شہریوں کی بے دخلی کا سلسلہ جاری ہے۔ ایران نے اس فیصلے کی بنیاد اپنے اس مئوقف پر رکھی ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے خطے میں دہشتگردی میں اضافہ اور امن و امان کے صورتحال خراب ہوئی ہے جبکہ افغانستان میں ٹریننگ لینے والے دہشتگرد دوسرے ممالک میں جا کر دہشتگردانہ حملوں میں ملوث پائے گئے ہیں ۔ اسی لیے ایرانی حکومت نے اپنی سرزمین پر پنپنے والی اسی دہشتگردی کے خطرات کے پیش نظر اپنے ہاں مقیم غیر قانونی افغان باشندوں کے انخلا کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی حوالے سے ایرانی وزیر داخلہ احمد واحدی نے ایک بیان جاری کیا ہے جس کے مطابق گزشتہ سال ایران سے 1.3 ملین سے زائد غیر قانونی تارکین وطن واپس بھیجے جا چکے ہیں۔
دوسری جانب طالبان کی وزارت برائے مہاجرین کے مطابق "اب تک 3,437 افغان مہاجرین ایران سے افغانستان بھیجے گئے ہیں۔غیر قانونی تارکین وطن افغانستان کے صوبے نمروز میں شاہراہ ریشم کے ذریعے افغانستان میں داخل ہوئے۔حال ہی میں ایران سے افغان مہاجرین کی ملک بدری میں اضافہ ہوا ہے۔ ایرانی وزیر داخلہ نے مستقبل میں بھی غیر قانونی افغان شہریوں کی ایران میں داخلے کو روکنے کیلئے سخت اقدامات لینے کا عندیہ دیا ہے کیونکہ ایران کی سرزمین پر پہلے بھی افغانستان کی جانب سے دہشتگردی کی گئی۔ ایران نے اپنی ملکی سا لمیت اور استحکام کو اولین ترجیح دی اور اسی تناظر میں افغان مہاجرین کے لیے ایک پالیسی دیتے ہوئے اس پر عمل درآمد کروایا اور کسی حیل و حجت کے بغیر یہ واضح بیان دیا کہ کس وجہ سے انہوں نے بددخلی کا یہ فیصلہ لیا ۔
افغانستان کے حوالے سے ایران کی پالیسی جن نظریات اور واقعات پر کھڑی ہے پاکستان کو اس کا کئی دہائیوں سے سامنا ہے۔ پاکستان میں1980ء کے بعد سے ہیروئن کلچر کس طرح پروان چڑھا اس کے پیچھے بھی افغان مہاجرین کا کردار ہے۔ پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے اس سرحد پر حفاظتی باڑ لگانے کے دوران پاک فوج نے قربانیاں دی ہے ۔ یہ باڑ اب ایک قومی اثاثہ ہے جس کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی۔
واضح رہے کہ 2023 میں پاکستان کی عبوری حکومت نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کے انخلا کا فیصلہ کیا تھا ۔ اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق جنوری 2023 کے بعد سے پاکستان اور ایران سے لگ بھگ 15 لاکھ افغان مہاجرین اپنے ملک واپس گئے ہیں جن میں رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے مہاجرین بھی شامل ہیں۔اقوامِ متحدہ کے امدادی اداروں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کی آدھی سے زیادہ یعنی دو کروڑ 70 لاکھ آبادی کو امداد کی ضرورت ہے۔ اس آبادی میں 92 لاکھ بچے بھی شامل ہیں جبکہ اقوامِ متحدہ کے امدادی اداروں نے 2024 میں ملک میں امدادی سرگرمیوں کے لیے ایک ارب ڈالر کے عطیات کی اپیل کی تھی۔ لیکن اس اپیل پر رواں برس کے چھ ماہ میں صرف 20 فی صد امداد ہی جمع ہو سکی ہے۔
دوسری جانب افغانستان میں تین سال سے برسرِ اقتدار طالبان کی عبوری حکومت کے مطابق پاکستان اور ایران سے افغان مہاجرین کی مسلسل آمد کا سلسلہ جاری ہے اور یومیہ لگ بھگ دو ہزار افراد واپس اپنے ملک آ رہے ہیں۔
افغان طالبان نے دونوں ممالک سے واپس آنے والے مہاجرین کی ان کے آبائی اضلاع میں دوبارہ آباد کاری اور معاونت کے لیے ایک کمیشن قائم کیا ہے۔کمیشن کے ترجمان قاری یوسف احمدی کا کہنا تھا کہ افغانستان کے دونوں پڑوسی ممالک نے 2024 میں لگ بھگ چار لاکھ افغان مہاجرین کو زبردستی ملک بدر کرکے افغانستان بھیجا ہے۔ ان کے بقول اس ملک بدری میں 75 فی صد کے لیے پاکستان ذمے دار ہے۔ موجودہ افغان حکومت منافقانہ طرز عمل دکھا رہی ہے۔ ایک طرف ملک میں ترقی کا ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہے تو دوسری جانب اپنے ہی شہریوں کی ایک کثیر تعداد کو ہمسایہ ممالک میں بدستور "خیمہ زن" دیکھنا چاہتی ہے ۔ فیصلہ سازی میں یہ تضاد افغانستان کے مفاد میں نہیں ہے ۔ کابل کے حکمرانوں کو علم ہونا چاہیے کہ واپس آنے والے مہاجرین میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو اعلی تعلیم یافتہ اور قابل اعتماد ہنرمند بھی ہیں ۔ یہ افغانستان کی زیر تعمیر معیشت اور معاشرت میں مفید کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
حال ہی میں پاکستان میں غیرملکیوں کو مشکوک کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز جاری ہونے کا انکشاف بھی سامنے آیا تھا۔واضح رہے کہ ملک بھر میں اس وقت بھی غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کیخلاف کارروائی جاری ہے اس لیے چیک اینڈ بیلنس شدید کر دیا گیا ہے جس کے بعد ہی یہ اسکینڈل سامنے آیا کہ غیرملکیوں کو مشکوک کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ جاری کئے گئے ہیں ۔جن میں کچھ جعلی شناختی کارڈز رکھنے والوں کے خلاف کیسز تیار کر لیے گئے ہیں۔وفاقی وزارت داخلہ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشکوک شناختی کارڈز پر خیبر پختونخوا میں تقریباً چھ سو گاڑیاں بھی رجسٹرڈ ہوئیں ہیں۔غیرملکیوں کے نام پر 349 بے نامی جائیدادوں اور کاروبارکا بھی انکشاف ہوا ہے، جنہیں چھان بین کے لیے ایف بی آر کو ارسال کر دیا گیا ہے۔وزارت داخلہ نے غیر ملکی غیر قانونی تاجک باشندوں کو بھی واپس بھجوانے کا فیصلہ کرلیا ہے، افغان مدرسوں کے طلبا کے بارے میں بھی غور کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان اور افغانستان اہم ثقافتی اور مذہبی بندھن میں بندھے ہیں تاہم پڑوسی ملک پاکستان کے ہر تعاون کا الٹا ہی مطلب لیا گیا۔
پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ریاست ہے اور کئی دہائیوں سے افواج پاکستان افغان باڈر پر ملک کی حفاظت کی جنگ میں مصروف ہیں ، اس جنگ میں پاکستان کو جانی ومالی نقصان کا سامنا رہا ہے ۔ آج بھی افغانستان میں طالبان حکومت کی بحالی کے بعد سے پاکستان دہشت گردی سے دنیا کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ جسے ہر سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے اور ایران نے بھی اپنا نقصان اور پاکستان کے حالات کو بھانپتے ہوئے یہ فیصلہ لیا ہے کہ افغان مہاجرین کو ان کے ملک واپس بھیجا جائے۔
دوسری جانب ایک طرف گذشتہ ڈیڑھ دو سال سے پاکستان نے افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے مئوثر پالیسی اختیار کی ہوئی ہے اور اس پر سختی سے عمل درآمد بھی جاری ہے یہ اقدام یقینا خطے کے امن اور خوشحالی کے لیے بہت ضروری ہے ۔ پاکستان اور افغانستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں بالواسطہ مداخلت کرنے کے بجائے مثبت اور تعمیری تبادلہ خیال اختیار کریں تاکہ خطے میں امن بھی قائم ہو سکے اور معاشی ترقی کی راہیں بھی ہموار ہوں۔
تعارف:مضمون نگار کالم نویس، مترجم اور شاعرہ ہیں۔ کئی مقر قومی اخبارات و جرائد اور ویب سائٹس میں لکھتی رہی ہیں ،
تبصرے