گزشتہ دودہائیوں سے وطن عزیز کو دہشت گردی کے عفریت کاسامنا ہے۔ پاک فوج، فرنٹیئرکور،پولیس اوردیگرپیراملٹری فورسز کے افسروں ،جوانوں سمیت انٹیلی جنس اہلکاروں نے دہشت گردی کی اس لعنت پر قابو پانے کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں اورملک کے طول وعرض میں کارروائیاں کرکے لاتعداد دہشت گردوں کو عبرت ناک انجام تک پہنچایا۔دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دو صوبوں خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میںانٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کرکے دہشت گردوں کے انتہائی مہلک ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا۔وطن عزیز کے ہرشہر اوردیہات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جام شہادت نو ش کرنے والے ایسے بہادر سپوتوں کی قبریں موجود ہیں جنہوںنے اپنا ''آج''قوم کے ''کل''پر قربان کیااور ہمیں ایک محفوظ وطن دیا۔اگر دہشت گردوں، تخریب کاروں اور انتشاری گروہوں کے آگے یہ مضبوط ڈھال نہ ہوتی تو آج اِس وطن کا جو نقشہ ہوتا اس کے تصور سے ہی دِل دہل جاتا ہے۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاک فوج کی قیادت میں سکیورٹی اداروں نے بہت سے آپریشنز کیے جن میں آپریشن راہ راست، راہ نجات،آپریشن برخنا،آپریشن خیبر،رد الفساد،ضرب عضب،کومبنگ اور آپریشن المیزان سمیت دیگر چھوٹے بڑے آپریشنز شامل ہیں۔ان کارروائیوں میں فورسز نے وطن دشمنوں کے خلاف ایک صبرآزما جنگ لڑی ۔اس جنگ سے جُڑی ایک ایک داستان ہمارے باہمت جوانوں کی جرأتِ رندانہ او ر بسالت کی گواہی دیتی ہے۔اس میں چنداں شک نہیں کہ دفاع وطن کے ضامن ادارے سال کے 12مہینے اور دن کے چوبیس گھنٹے دشمن کے خلاف میدان عمل میں رہتے ہیں۔ آئے روز ہمارے محافظ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرر ہے ہیں تودوسری جانب دہشت گرد بھی بھاری نقصان اٹھا رہے ہیں۔یہ بات باعث اطمینان ہے کہ اس وقت پورے ملک میں کسی ایک جگہ پربھی دہشت گردوں کا باقاعدہ قبضہ نہیں کیونکہ سکیورٹی فورسز نے مسلسل کارروائیاں کر کے ان کی کمر توڑ دی ہے اور ان کے ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اب وہ سرحدی علاقوں میں چھاپہ مار کارروائیاں کرتے ہیں اور افغانستان فرار ہونے کی کوشش میں کچھ فورسز کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں اور کچھ بھاگ نکلتے ہیں۔جب سے ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان کی عبوی حکومت قائم ہوئی ہے پاکستان میں دہشت گردوں کی نقل و حمل میں تشویش ناک حدتک اضافہ دیکھنے میں آیاہے ۔پاکستان افغان عبوری حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ اپنے ملک میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرے اور پاکستان کو مطلوب دہشت گرد اس کے حوالے کیے جائیں۔پاکستان کے اس احتجاج اورمطالبے کے ردعمل میں افغانستان پہلے تو یقین دہانیاں کرواتا آیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو نے دے گا اور دہشت گردوں کے خلاف وہ خود کارروائی کرے گا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ افغان عبوری حکومت کی یہ تمام تر تگ و دو صرف بیان بازی تک محدود ہے اور وہ عملا ًدہشت گردوں کے خلاف کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے بلکہ اب تو ایسی ہوشربا رپورٹس اور ناقابل تردید شواہد منظر عام پر آچکے ہیں جن سے ثابت ہو تا ہے کہ افغان حکومت خود دہشت گردوں کو پروموٹ کر رہی ہے اور انہیں ہر قسم کی سہولت مہیا کی جارہی ہے۔حال ہی میں ایک ویڈیو منظرعام پر آئی ہے جس میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان سے فرار ہونے والے متعدد سرکردہ دہشت گردافغانستان میں ایک ایسی تقریب میں شریک ہیں جس میں افغان عبوری حکومت کے نمائندے بھی موجود ہیں۔میانوالی ایئربیس،ڈیرہ اسماعیل خان اوربلوچستان میں پاک فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے دہشت گردوں سے ایسے جدید ہتھیاربرآمدہوئے ہیں جومختلف ممالک نے افغانستان سے انخلاء کے وقت وہاں چھوڑے تھے۔اس وقت افغانستان کی صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف افغان عبوری حکومت اوردوسری جانب پاکستان سے ملحقہ افغان علاقوں میں موجودبھارتی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کو دہشت گردی کے ذریعے کمزورکرنے کے درپے ہیں۔بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سمیت ایسے بہت سے گرفتار دہشت گردوں نے تفتیش کے دوران اداروں کو بتایاہے کہ انہیں بھارت اور افغانستان کی طرف سے مکمل حمایت حاصل ہے۔
حال ہی میں26جون 2024ء کو وزیرداخلہ بلوچستان ضیاء اللہ لانگو نے اہم پریس کانفرنس میں بتایا کہ کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے کمانڈرنصراللہ عرف مولوی منصوراور کمانڈر ادریس عرف ارشاد کو ایک مشکل آپریشن کے بعد گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انہوںنے اپنے بیان میں بی ایل اے اور را کے ناپاک عزائم کا انکشاف کیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق سال 2023ء میں پانچ سو کے قریب سکیورٹی اہلکار وں نے جام شہادت نوش کیاہے جبکہ رواں سال2024ء میں دوسوسے زائد اہلکاردہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں ۔ ان کارروائیوں میں سیکڑوں دہشت گرد بھی منطقی انجام تک پہنچے ہیں۔یہ تخریبی اور انتشاری عناصر ماضی کے برعکس اب پبلک مقامات پر حملوں کی بجائے سکیورٹی فورسزاورغیرملکی شہریوں کو زیادہ نشانہ بنا رہے ہیں۔26 مارچ 2024ء کو بشام میں ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی چینی انجینئرز کی گاڑی سے ٹکرا دی تھی جس کے نتیجے میں پانچ چینی باشندوں سمیت چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔یہ چینی انجینئرز یا اہلکاروں پر ہونے والا پہلا حملہ نہیں تھا۔ اس سے قبل بھی ملک کے مختلف حصوں میں چینی باشندے دہشت گردوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔واضح رہے کہ چین نے پاکستان میں CPEC کے تحت مختلف منصوبوں پر 62 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان منصوبوں پر کام کرنے کی غرض سے چینی انجینئرز اور کارکنان کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے۔ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والی قوتیں ایسی مذموم کارروائیوں کے ذریعے انتشارچاہتی ہیں اوردوسر ی طرف وہ چین اور دیگر دوست ممالک کے نزدیک پاکستان کے متعلق ایسی غیریقینی فضاپیداکرنا چاہتی ہیں کہ یہ ممالک پیچھے ہٹ جائیں اوریہاں کسی قسم کی سرمایہ کاری نہ کریں اور پاکستان کومعاشی طورپرکمزورکیاجاسکے۔اس لیے قوم کو پاکستان دشمن قوتوں کی یہ بھیانک سازش سمجھنے اور اسے ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔
ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ دہشت گردوں کو آزادی دے دی جائے اور وہ کھل کر اپنی مذموم کارروائیاں کرتے رہیں۔ ملک کی حفاظت اور استحکام کے ضامن اداروں نے بہر صورت اپنافرض ،اپنا عہد نبھانا ہے اور آخر ی دہشت گرد اور تخریب کار کے خاتمے تک یہ جنگ جاری رکھنی ہے۔ اس صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح سکیورٹی فورسز مسلسل دہشت گردوںکا پیچھا کرکے ان کے سدباب میں مصروف ہیں اسی طرح ہر محب وطن شہری پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف اپنے بہادر محافظوں کی اخلاقی حمایت جاری رکھے ۔ ہر شخص اس بات کا خیال رکھے کہ کہیں وہ جانے انجانے میں سوشل میڈیا کے ذریعے وطن دشمنوں کو سپورٹ نہ کربیٹھے کیونکہ آج کل دشمن پاکستان کے خلاف ''میڈیاوار'' میں بہت آگے جا چکا ہے اور بالخصوص سوشل میڈیا کو ایک خطرناک ہتھیار کے طور پراستعمال کیاجارہاہے۔ہمیں دشمن کی اس سازش، چالاکی اور ہوشیار ی کوبھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مضمون نگار شعبہ صحافت کے ساتھ منسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے