پیارے بچو! بہت عرصہ پہلے کی بات ہے،کہتے ہیں کہ ایک بستی کے قریب ایک گھنا جنگل تھاجس میں صدیوں پرانے درخت تھے۔وہ پتوں سے بھری اپنی موٹی موٹی شاخوں کو آسمان کی طرف دور تک پھیلاتے اور لوگوں کو سانس لینے کے لیے آکسیجن فراہم کرتے تھے۔ ان کے تنے چوڑے تھے۔کچھ لوگ کہتے تھے کہ ان میں بہت سے جنات سیکڑوں سالوں سے بسیرا کیے ہوئے ہیں۔
یہ درخت بوڑھے شیشم کے نام سے جانے جاتے تھے۔ بڑے بوڑھے اپنے بچوں کو ایسی بہت ساری کہانیاں سناتے جن میں بتایا جاتا تھا کہ بوڑھے شیشم میں ایک روح ہے جو جنگل کی حفاظت کرتی ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی ایک بوڑھے نے اپنے پوتے، پوتیوں کو سنائی۔
ایک دن جنگل کے قریبی گائوں میںبسنے والے ایک غریب نوجوان عبدالرحیم اور اس کے دو دوستوں نے فیصلہ کیا کہ وہ جنگل میں درخت کاٹ کراور اس کی لکڑی بیچ کر پیسہ کمائیں گے۔ تینوںنے جنگل میں ایک چھوٹا سا کیبن بنایا اور ایک صبح اپنے کام کا آغاز کر دیا۔ انہوں نے ایک درخت کاٹا اور اسے بیچ کر اتنی رقم حاصل کی کہ وہ تینوں پورے مہینے تک اچھے طریقے سے گزارہ کرسکتے تھے۔یہ سلسلہ چل پڑا۔ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ عبدالرحیم اور اس کے دوستوں نے جو بھی درخت کاٹا، اس کی جگہ دو پودے لگائے تاکہ ایک دن وہ بھی بڑے درخت بن جائیں۔‘‘
عبدالرحیم جب بھی پودا لگاتا تو وہ مسکراکر کہتا، ’’ہم جنگل کو خوش رکھتے ہیں۔ اگر ہم اسی طرح جنگل کا خیال رکھیں گے تو جنگل بھی ہمارا خیال رکھے گا۔‘‘
عبدالرحیم اور اس کے دوست جنگل میں خوش تھے۔ انہیں اپنا سادہ کیبن پسند تھا۔وہ اپنی محنت سے لطف اندوز ہورہے تھے۔وہ ہرمہینے صرف ایک بڑا درخت کاٹتے اور اس کے بدلے دو پودے لگانا نہ بھولتے۔ لیکن پھر اچانک عبدالرحیم کے دوستوں کے رویے تبدیل ہونے لگے اور چیزیں بدلنا شروع ہوگئیں۔
عبدالرحیم کے دوست درختوں کو مختلف انداز میں دیکھنے لگے۔ ایک دوست نے دوسرے سے کہاکہ ہم ہر مہینے ایک ہی درخت کیوں کاٹتے ہیں۔ ہم زیادہ درخت بھی تو کاٹ سکتے ہیں۔ دوسرے نے اس کی تائید کی اور کہنے لگا، ’’واقعی تم ٹھیک کہتے ہو۔ اگر ہم زیادہ درخت کاٹیں گے تو زیادہ پیسہ کمائیں گے۔‘‘
عبدالرحیم کواپنے دوستوں کی ان باتوں کا دکھ ہوا۔ وہ جنگل کا احترام کرتا تھا اور ضرورت سے زیادہ درخت کاٹنا نہیں چاہتا تھا مگر اس کے دوست نہ مانے۔انہوں نے کچھ رقم جمع کی اور ایک بڑا ٹریکٹر اور درخت کاٹنے کی مشین خرید کر لے آئے۔انہوں نےان نئے آلات کے ساتھ جنگل میں ایک کے بعد ایک درخت کاٹنا شروع کر دیا۔ مضبوط تنے یکے بعد دیگرے زمین پر گرتے گئے۔جیسے جیسے جنگل میں درختوںکے ٹوٹنے اورکٹنے کی آوازیں بڑھتی گئیں، عبدالرحیم کا دل اداس ہوتا چلا گیا۔
اس نے اپنے دوستوں کو سمجھایا کہ اس طرح جنگل کی بے قدری ٹھیک نہیں لیکن اس کے دوستوں نے اس کی ایک نہ سنی ۔ وہ صرف پیسہ کمانے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ انہیں اب جنگل کی پروا نہیں تھی۔
دونوں دوست درختوں کو کاٹنے میں اتنے ماہر ہو گئے کہ جلد ہی جنگل خالی ہونے لگا۔عبدالرحیم کے لیے بھی کاٹے گئے درختوں کی جگہ نئے پودے لگانا مشکل ہوگیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے دوست لالچ میں اندھے ہوچکے ہیں۔ وہ جنگل کی تباہی کو روکنے کے حوالے سے مایوس ہو چکا تھا۔تاہم جنگل کا احساس کرنے والا وہ اکیلا نہیں تھا۔بوڑھے شیشم کی روح بھی دیکھ اور سن رہی تھی کہ درختوں کو بے دردی سے کاٹا جا رہا ہے۔
ایک رات جب عبدالرحیم کیبن میں اپنی چارپائی پر پہلو بدل رہا تھا، اُس نے جنگل میں درختوں کی خوفناک سرسراہٹ سنی۔ اُسے چاروں طرف کا ماحول عجیب لگنے لگا۔ رات کے اندھیرے میںہوا کے جھونکے سرگوشیاں کرتے سنائی دے رہے تھے۔ اسے لگا جیسے وہ شکوہ کر رہے ہوں کہ تم جنگل کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرو۔ اگر تم باز نہ آئے تو پھر سزا کے لیے تیار ہو جاؤ۔ میں شیشم کی روح ہوں اور میں یہاں درختوں اور جانوروں کی حفاظت کے لیے موجود ہوں۔میں ان کی حفاظت کر کے رہوں گی۔‘‘
اگلے دن عبدالرحیم کے دوست نیند سے بیدار ہوئے تو دونوں کے پیٹ میں شدید درد تھی ۔ انہوں نے دوا بھی لی مگر درد تھا کہ بڑھتا ہی جارہا تھا۔ شدید تکلیف کے باوجود بھی ان کے سر پر لالچ سوار تھی۔ وہ درد کی پروا کیے بغیر درخت کاٹنے کا سامان ٹریکٹر میں رکھنےلگے ۔ سامان رکھنے کے بعد جب ایک نے ٹریکٹر کی چابی گھمائی تو ٹریکٹر اسٹارٹ نہ ہوا۔جب لاکھ کوشش کے بعد بھی وہ اسٹارٹ نہ ہوا تو وہ بولا، ’’مجھے ٹریکٹر کی پروا نہیں،میں اس کے بغیر ہی درخت کاٹنے جائوں گا۔‘‘
دوسرے نے کہا، ’’مجھے بھی پیٹ درد کی پروا نہیں ، چلو چلتے ہیں۔‘‘انہوں نے کلہاڑیاں اٹھائیں اور قریبی درخت کو کاٹنے چل پڑے۔
عبدالرحیم نے انہیں سمجھایا کہ اگر وہ کام ہی کرنا چاہتے ہیں تو آج درخت نہ کاٹیں بلکہ جنگل میں پودے لگا کر آج کا دن گزاریں۔ دونوں نے اس کی بات نہ مانی۔جونہی وہ اپنے کندھوں پر کلہاڑیاں رکھ کر جنگل کی طرف نکلے،ایک زبردست آندھی چل پڑی۔ درخت ہوا میں جھولنے لگے ۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ انہیں للکار رہے تھے ۔اسی دوران بہت تیز بارش شروع ہو گئی۔تیز آندھی اور بارش سے کیبن کے چیتھڑے اڑ گئے۔ ٹریکٹر کو قریبی ندی کا پانی بہا لے گیا۔یہ سارا منظر دیکھ کر عبدالرحیم کے دوست خوفزدہ ہو گئے۔ وہ چیخے، ’’ہمیں یہاں سے بھاگنا چاہیے!جنگل نے ہمارا سارا سامان تباہ کر دیا ہے! کچھ نہیں بچا!‘‘
دونوں دوست اپنی پوری قوت سے بھاگے اور پھر کبھی جنگل کی طرف واپس نہ گئے ۔ اس خوفناک صورتحال کے باوجود عبدالرحیم وہیں رہا۔ہوائیں اسے دھکیل رہی تھیں اور بارش اس پر برس رہی تھی۔اس سے پہلے کہ طوفان کی تاب نہ لاتے ہوئے مر جاتا، وہ پوری قوت سے چلایا، ’’میں جنگل نہیں چھوڑوں گا!میں یہیں رہوں گا اور اُن درختوں کی جگہ نئے پودے لگاؤں گا، جنہیں میرے لالچی دوستوں نے کاٹ دیا ہے۔ میں مرتے دم تک یہ کام کرتا رہوں گا اور کوئی چیز میرا خیال نہیں بدل سکے گی!‘‘
اس کا اتنا کہنا تھا کہ اچانک ہوائیں تھم گئیں اور بارش بھی رک گئی۔ بادل چھٹ گئے اور سورج کی کرنوں نے جنگل کی زمین کو خشک کر دیا۔
عبدالرحیم بہت خوش تھا کہ طوفان ختم ہو گیا۔ جیسے ہی اس کے حواس بحال ہوئے اس نے نئے پودے لگانے شروع کر دیے۔ وہ جب بھی کوئی نیاپودا لگاتا تو دعا بھی کرتا کہ یہ ایک طاقتور درخت بن جائے۔
عبدالرحیم پودے لگا لگا کر تھک چکا تھا۔ اسے آرام اور کھانے کی ضرورت تھی۔ اسے یاد آیا کہ طوفان سے تو کیبن تباہ ہو چکا ہے ، وہ کہاں آرام کرے گا لیکن جب وہ کیبن کی طرف واپس آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چھوٹا سا کیبن وہیں موجود ہے، اس کے باہرچولہے میں آگ جل رہی ہے اور میز پر کھانا بھی رکھا ہے۔
عبدالرحیم کو تب اندازہ ہوا کہ بوڑھے شیشم نے طوفان پیدا کیا تھا اور اب اس نے اس کا کیبن اسے واپس کر دیا تھا۔ عبدالرحیم کھانے کے لیے بیٹھ گیا اور بولا، ’’جب تک میری زندگی باقی ہے میں یہاں نئے پودے لگاتا رہوں گا۔‘‘ اس نے یہ بھی عہد کیا کہ ہر ماہ صرف ایک درخت ہی کاٹوں گا کیونکہ اسے بس اتنی ہی ضرورت ہے۔
عبدالرحیم تقریباً ایک سو سال تک زندہ رہا۔وہ اس دوران اپنے وعدے پر قائم رہا۔اس نے اپنی آخری سانس جنگل میں لی۔ اس کی روح بوڑھے شیشم میں شامل ہو گئی جوخوبصورت جنگل کو ان لوگوں سے بچاتی ہے جو درختوں کو بلا وجہ کاٹتے اور جانوروں کو ہلاک کرتے ہیں۔
پیارے بچو!عبدالرحیم اور بوڑھے شیشم کی اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم سب کے لیے جنگلات کا تحفظ اور احترام ضروری ہے۔(پرتگیزی ادب سے ماخوذ)
تبصرے