ایک جنگل میں ایک چڑیا رہتی تھی۔اس کا نام سُرمئی تھا۔ وہ نہایت سست اور خود غرض تھی۔اسے صرف اپنا خیال رہتا۔وہ دوسروں کو تکلیف میں دیکھتی بھی تو اسے کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔اس کی ایک اور بری عادت یہ تھی کہ جب ساتھ والے گھونسلے کی چڑیاں دانہ چگنے جاتیں تو وہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے گھونسلوں میں چلی جاتی۔ اگروہاں کوئی دانہ دنکا نظر آتا تو فٹا فٹ اس سے اپنی پیٹ پوجا کرلیتی ۔ شام کو جب چڑیاں واپس آتیں تو انہیں اپنے گھونسلے میں کوئی دانہ نظر نہ آتا۔اس طرح وہ پریشان ہوجاتی تھیں ۔
سب کوسُرمئی چڑیا پر شک ہوتاکیونکہ وہ کبھی ان کے ساتھ دانہ چگنے نہیں گئی تھی۔ وہ جب بھی واپس آتیں تو اسے گھونسلے میں بیٹھا دیکھتیں۔ایک چڑیا نے سب کو مشورہ دیا کہ ہمیں سُرمئی کی شکایت اپنی ملکہ سے کرنی چاہیے۔ تاہم ایک چڑیا نے منع کردیا کہ کسی وقت وہ خود ہی سمجھ جائے گی۔
ایک دن سُرمئی نے ایک چڑیا کا گھونسلہ گرا دیا۔ وہ نمناک آنکھوںسے آسمان کی طرف دیکھنے لگی۔اچانک گرج چمک شروع ہوگئی۔ سب سمجھ گئیںکہ موسم خراب ہورہا ہے۔ وہ جلدی سے اپنے اپنے گھونسلوں میں چلی گئیں۔ہوا تیز ہوگئی۔ جھونکے اس رفتار سے درختوں سے ٹکرا رہے تھے کہ انہیں جڑوں سمیت گرا کرہی دم لیںگے۔اسی دوران ایک تیز جھونکا سُرمئی کاگھونسلہ لے اُڑا۔ سُرمئی نے مشکل سے اپنی جان بچائی۔طوفان تھما تو بارش تیز ہوگئی۔ سُرمئی کے پاس سر چھپانے کی کوئی جگہ نہیں تھی، وہ سردی سے کانپنے لگی۔ اسی عالم میں اس نے دوسری چڑیوں کو آواز دینے کی کوشش کی لیکن سردی کی وجہ سے اس کی آواز بھی نہیں نکل رہی تھی۔ سستی اور آرام پرستی کی وجہ سے وہ کافی موٹی ہوچکی تھی جس کی وجہ سے اس سے ٹھیک طریقے سے اُڑا بھی نہیں جارہا تھا۔ وہ خود کو ایک پتے میں چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔ اچانک اس کا پائوں پھسلا اوروہ دھڑام سے نیچے جاگری۔
جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ایک گھونسلے میں پایا۔ ایک طرف دانہ رکھا تھا۔ وہ حیران تھی کہ اس وقت وہ کہاں ہے۔ موسم بھی بہتر ہوچکا تھا۔ ہوا کے جھونکے اب تازگی پھیلا رہے تھے مگر اسے اپنے آس پاس کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے اُٹھنے کی کوشش کی لیکن شاید اس کی گردن میں چوٹ آئی تھی۔ اس لیے ایک ٹیس اُٹھنے پر وہ دوبارہ لیٹ گئی۔
شام ہوئی تو بہت سی چڑیاں سُرمئی کے پاس آنے لگیں۔سب بڑھ چڑھ کر اس کا خیال رکھ رہی تھیں۔ یہ دیکھ کرسُرمئی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ سوچنے لگی کہ اس نے تو سب کو دُکھ دیا لیکن اس کے بدلے یہ سب اس کا خیال رکھ رہی ہیں۔ وہ اپنے کیے پرشرمندہ تھی۔ ان چڑیوں نے برائی کا جواب اچھائی سے دے کر اسے بہت بڑا سبق دیا تھا جسے دیکھ کر وہ بولی، ’’ میں آپ سب کے ساتھ براکرتی رہی لیکن آپ نے مشکل میں مدد کی اور میرا خیال بھی رکھا۔‘‘ سُرمئی کی بات سن کرایک چڑیا مسکراتی ہوئی اس کے پاس آئی اور بولی، ’’برا کرنے والوں کے ساتھ اگر برا ہی کیا جائے تو پھردونوں میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا ۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا دل بڑا رکھتے ہوئے برا کرنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔‘‘
سُرمئی ان کے حسن سلوک سے بہت متاثر ہوئی ۔ اب وہ واقعی سدھر گئی تھی۔ اس نے سب سے معافی مانگی اور آئندہ کسی کو پریشان نہ کرنے کا وعدہ کرکےاپنا دانہ دنکا خود چگنے جانے لگی۔
دیکھا بچو! اتفاق میں ہمیشہ برکت ہوتی ہے۔ کسی کی برائی کا جواب اچھائی سے دیا جائے تو وہ شرمندہ ہوکر راہِ راست پر آ جاتاہے۔دوسروں کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کریں اور ہاں رزقِ حلال کمانے کے لیے محنت کرنےسے کبھی نہ گھبرائیں۔
تبصرے