ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹے شہر میں عائشہ نامی ایک لڑکی رہتی تھی۔ عائشہ کا دل خوابوں اور امنگوں سے بھرا ہوا تھا ۔ اس کے بابا ایک ماہر بڑھئی تھے۔ وہ روایتی اوزاروں سے خوبصورت فرنیچر بناتے اور اسے بازار میں فروخت کر کے خوب پیسے کما لیتے تھے۔
عائشہ بچپن سے ان کا یہ کام دیکھتی چلی آ رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بابا کی طرح ایسی شاندار چیزیں بنائے۔ کبھی کبھی وہ بابا کی مدد کے بہانے کچھ چیزیں بنانے کی کوشش بھی کرتی تھی۔
ایک صبح جب عائشہ اسکول جانے کےلیے گھر سے نکلی تو اس نے اسکول کے راستے پر ایک دیوار پر ایک پوسٹر دیکھا۔ اس میں لکھا تھا،
’’15جولائی۔۔۔
نوجوانوں کی مہارتوں کا عالمی دن
نئی اسکلز سیکھنے اور روشن مستقبل بنانے کے لیے
ہمارے ساتھ شامل ہوں!‘‘
عائشہ کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ یہ اس کے لیے کچھ سیکھنے اور آگے بڑھنے کا ایک بہترین موقع تھا۔ اس بارے میں مزید معلوم کرنے پر اسے معلوم ہوا کہ نوجوانوں کی مہارتوں کا دن۔۔۔ نوجوانوں کو مستقبل کے لیے درکار پیشہ ورانہ اسکلز کو سیکھنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا تاکہ وہ نئے موقعے تلاش کر سکیں۔
اسکول سے واپسی پر عائشہ نے اپنے بابا کو اس بارے میں بتایا۔ اس کے بابا مسکرائے اور بولے ، ’’ عائشہ ، ہنر میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ ہنر نئی راہیں کھولتا ہے۔ کل ہم دونوں وہاں جا کر دیکھیں گے کہ تم کون کون سی مہارتیں سیکھ سکتی ہو۔‘‘
15جولائی کو شہر کا مرکزی چوک نوجوانوں کے جوش و خرو ش سے گونج رہا تھا۔ ہر جگہ اسٹالز لگائے گئے تھے۔ ہر اسٹال پر سیکھنے کے لیے مختلف مہارتیں پیش کی جا رہی تھیں۔ اسٹالز کا جائزہ لیتے ہوئے عائشہ اور اس کے بابا کی آنکھیں تجسس سے چمک رہی تھیں۔ انہوں نے لوگوں کو کمپیوٹر پر سلائی، کھانا پکانا، مصوری اور کوڈنگ سیکھتے دیکھا۔
عائشہ نے اپنے بابا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لکڑی کا کام سکھانے والی کلاس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ جب اس نے چھینی اُٹھائی اور لکڑی کو تراشا شروع کیا تو اسے دلی خوشی محسوس ہوئی۔ ایک انسٹرکٹر نے بڑی شفقت سے اس کی رہنمائی کی۔ انہوں نے اسے نہ صرف لکڑی کو تراشنا سکھایا بلکہ صبر، درستگی اور تخلیقی صلاحیتوں کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ عائشہ کے بابا نے بھی اس موقع پر اپنی مہارت دکھائی تو انسٹرکٹر ان کے ہنر سے بہت متاثر ہوئے۔
دن کے اختتام تک عائشہ نے لکڑی کا ایک چھوٹا سا پرندہ بنا لیا تھا۔اگرچہ یہ اتنا مکمل نہیں تھا لیکن یہ اس کی تخلیق تھی۔ اس نے خود پر فخر محسوس کیا کہ اسے کامیابی حاصل ہوئی۔ اسے احساس ہوا کہ نئی مہارتیں سیکھ کر صرف نوکری ہی نہیں کی جا سکتی بلکہ اس سے اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے ، مسائل کو حل کرنے اور دنیا کی ترقی میں بھی مدد کی جا سکتی ہے۔
جیسے ہی سہ پہر ہوئی، نوجوانوں نے جو کچھ سیکھا تھا اسے سب کے سامنے پیش کیا۔ عائشہ جانتی تھی کہ یہ تو ابھی اس کے سفر کا آغاز ہے۔ اس نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ سیکھتی رہے گی اور سیکھنے میں دوسروں کی بھی مدد کرے گی۔ آخر میں ہر ہنر مندی کے جدید طریقوں کے بارے میں مختصر طور پر بتایا گیا۔ اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ پاکستان میں بہت سے ادارے نوجوانوں کو مختلف مہارتیں سکھا کر انہیں ہنر مند بنا رہے ہیں۔ وہ اپنے اس ہنر کے ذریعے نہ صرف اپنے پیارے وطن بلکہ بیرون ملک روزگار حاصل کر رہے ہیں۔ عائشہ نے جدید طریقے سیکھنے کا ارادہ کیا جس میں عام آلات سے لے کر کمپیوٹر سے منسلک جدید کلہاڑوں اور کٹنگ ٹولز کا استعمال شامل تھا ۔ لکڑی کی لیزر کٹنگ بھی پروگرام کا حصہ تھی۔ عائشہ چاہتی تھی کہ وہ یہ ہنر سیکھ کر اپنے بابا کے کاروبار کو مزید آگے بڑھائے۔
مہارتیں سیکھنے کے اس دن نے شہر میں ہر کسی کو ہنر یا اسکلز سیکھنے کی اہمیت کا احساس دلایا۔ اس دن نے ثابت کیا کہ صحیح تربیت اور مواقع نوجوانوں کا مستقبل بنا سکتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے شہر ، اپنے ملک بلکہ اس دنیا میں مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ عائشہ نے جدید فن سیکھ کر اپنے بابا کےکاروبار کو وسعت دی اور روز بروز ترقی کرتی چلی گئی۔
اب ہر سال 15جولائی کو عائشہ بڑے شوق سے اس تقریب میں شرکت کرتی ہے اور اپنی کامیابی کی داستان سنا کر دوسری لڑکیوں کو بھی کامیابی کا راستہ دکھاتی ہے۔ اس سال اس نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کے نوجوان با صلاحیت ہیں۔ وہ ترقی کا عزم رکھتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت سمیت جدید ہنر کے بہت سے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں۔ جس ملک کےنوجوان نئی مہارتیں سیکھیں گے وہی ملک مستقبل میں ترقی یافتہ کہلائے گا۔ اس لیے پاکستان کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے نوجوانوں کو ہر شعبے میں آگے بڑھ کر اپنی صلاحیتوں کو آزمانا چاہیے۔ ‘‘ تقریر کے اختتام پر وہاں موجود نوجوانوں نے تالیاں بجا کر اس کی حوصلہ افزائی کی اور پاکستان کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لیے خود کو پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور مہارتوں سے لیس کرنے کا عزم کیا۔
تبصرے