ارم اور انیلا کے فائنل امتحان چل رہے تھے۔ ارم کا قلم تیزی سے دوڑ رہا تھااور وہ مستقل اپنی تیاریوں میں مگن تھی لیکن انیلا جیسے کسی سوچ میں کھوئی ، خلا میں کہیں دور گھورے جا رہی تھی۔ ارم نے کمرے میں خاموشی محسوس کر کے انیلا کی جانب دیکھا تو اسے ساکت پا کر بولی،’’پڑھ لو بھئی !امتحان ہیں۔‘‘
انیلا نے بیزاری سے جواب دیا،’’ہر وقت پڑھائی پڑھائی اور پڑھائی۔۔۔ بس جلدی سے چھٹیاں ہو جائیں تو میں کوکنگ کورس کروں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ بیکنگ اور پینٹنگ کی کلاس بھی لوں گی اور تم دیکھنا میں سیر و تفریح بھی خوب کروں گی۔ بس جلدی سے چھٹیاں ہو جائیں اور پھر۔۔۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتی ، ارم نے اسے ٹوکا،’’تم نے خیالی پلائو بنانے کے علاوہ کبھی کوئی کام کیا ہے؟ بعد کی بعد میں دیکھیں گے۔ حال پر توجہ دو اور امتحان کی تیاری کرو۔ ‘‘
انیلا نے چڑ کر کتاب سے رٹا لگانا شروع کر دیا۔
امتحانات کے دن پَر لگا کر اڑتے چلے گئے اور اسکول کا آخری دن بھی آ پہنچا۔ ارم اور انیلا ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ رہی تھیں، ’’ہاں بھئی ! اپنے خوابوں کو پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے، اب بتائو تمہاری سیاحت کب سے شروع ہے اور وہ جو کلاسز لینے کا سوچا تھا ، اس کا کیا بنا؟‘‘ ارم نے انیلا سے پوچھا۔
انیلا سے خوشی سے تمتمائے ہوئے چہرے سے جواب دیا،‘‘ بھئی ابھی ایک ہفتہ تو میں صرف سو کر گزاروں گی۔ اس کے بعد سوچیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ تم اپنا بتائو۔۔ چھٹیوں میں گھر آئو گی نا؟‘‘
نہیں بھئی! میں تو کل صبح نانی جان کے پاس جا رہی ہوں۔ ان کا گائوں مجھے بہت پسند ہے۔ میں یہ چھٹیاں ان کے پاس گزاروں گی۔ اپنا ہوم ورک بھی وہیں کروں گی۔ ‘‘
ہوم ورک کا سن کر انیلا کے چہرے کے زاویے بگڑنا شروع ہو گئے۔ ’’ابھی چھٹیاں شروع بھی نہیں ہوئیں کہ تم نے ہوم ورک یاد دلا دیا۔ چلو اب چلتے ہیں، خدا حافظ!‘‘
دونوں سہیلیاں ایک دوسرے سے مل کر اپنے اپنے گھر آ گئیں۔
ارم تو اگلے دن ہی اپنا بوریا بستر اٹھا کر نانی جان کے گائوں چلی گئی۔ وہا ں کی سادہ زندگی اسے بہت پسند تھی۔ اس نے وہاں رہ کر سب سے پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کیا اور پھر نانی جان کے ساتھ مل کر کبھی باجرے کی روٹی بنائی تو کبھی ان سے کپڑوں پر پھول بوٹے بنانے سیکھے۔ شام کو نہر کے پانی میں پائوں ڈال کر تربوز کھانے میں اسے بے حد لطف آتا تھا۔ زندگی جیسے بہت حسین اور ہلکی پھلکی سی ہو گئی تھی۔
وقت کا کام ہے گزر جانا اور وہ گزر ہی جاتا ہے۔ چھٹیاں بھی ایک ہفتے بعد اختتام پذیر ہو رہی تھیں۔ ارم ایک ہفتے پہلے ہی اپنے گھر آ گئی اور آتے ہی سب سے پہلے انیلا کے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ وہ اس کے لیے اپنے ہاتھ سے بُنا ایک سوئٹر اور دیسی گڑ کی مٹھائی بھی ساتھ لے گئی جو اس نے نانی جان سے بنانا سیکھی تھی۔
انیلا ارم کو ہشاش بشاش اور ترو تازہ دیکھ کر حیران تھی لیکن ارم اسے دیکھ کر پریشان تھی۔انیلا کی گرتی صحت، آنکھوں کے نیچے پڑے سیاہ حلقے اور میلے حلیے نے اسے چونکا دیا تھا۔
’’یہ تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے؟ لگتا ہے ڈھیر سارے کورسز میں داخلہ لے کر تم نے اپنی صحت تباہ کر لی ہے۔‘‘
اس سے پہلے کہ انیلا کچھ کہتی ، انیلا کی امی آ گئیںاور پھٹ پڑیں، ’’ارے بیٹا ! کیسا کورس اور کہاں کا کورس۔۔۔ اس لڑکی نے تو چھٹیوں میں اپنا بیڑہ غرق کر لیا ہے۔ دن رات انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا اسکرول کرنا ، دن چڑھے اُٹھنا، کھانے کا ہوش نہ ہاتھ منہ دھونے کا پتا ۔۔۔ بس سارا دن اونگھتے رہنا۔ اس سے پوچھو کہ ان چھٹیوں میں یہ کتنی بار گھر سے باہر نکلی ہے؟ بس سستی اور کاہلی کا کورس کر لیا ہے۔ ہوم ورک کو تو اس لڑکی نے چھوا تک نہیں۔۔۔‘‘
ارم نے انیلا کو دیکھااور افسوس بھرے لہجے میں کہنے لگی،’’سارا سال ہم پڑھتے ہیں تب کہیں جا کر گرمیوں کی چھٹیاں ملتی ہیں اور تم نے یہ ایسے ہی گنوا دیں؟ اب بس جلدی سے ہوم ورک ہی مکمل کر لو ورنہ نئی کلاس کا پہلا دن ہی بے عزتی لے کر آئے گا۔ تمہارے بارے میں نئی ٹیچر کیا سوچیں گی؟‘‘
انیلا نے شرمندگی سے سر جھکا لیا لیکن گیا وقت کبھی واپس نہیں آتا اور نہ ہی کبھی آئے گا۔
بچو! آپ بھی چھٹیوں میں خوب مزے کریں لیکن فضول سرگرمیوں میں وقت بالکل ضائع نہ کریں۔ اپنی چھٹیوں کو کارآمد بنا کر خو د کو ناکارہ ہونے سے بچائیں۔
تبصرے