بدرکے سکول میں جون کے پہلے ہفتے سے گرمیوں کی طویل چھٹیوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ گھر واپس جاتے ہوئے وہ کچھ اداس تھا کہ اب وہ اپنے ہم جماعت دوستوں سے ڈھائی ماہ بعد ہی مل سکے گا۔ اس کا گھر سکول سے بہت دور تھا۔ وین میں سکول سے گھر اور گھر سے سکول آتے ہوئے آدھا گھنٹہ لگ جاتا تھا۔ زاہد، عمیر اور بلال کے گھر بدر کے گھر کی مخالف سمت میں تھے اور وہ چاروں دوست ابھی اتنے بڑے نہیں ہوئے تھے کہ اتنا سفر طے کر کے ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرنے کے لیے پہنچتے۔
اس کے علاوہ بدر کو ایک اور دکھ یہ تھا کہ وہ گرمیوں کی چھٹیوں کا کام اکیلے کیسے کرے گا۔ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا ۔ اس کے والد ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھے جس کی وجہ سے چند سال بعد ہی ان کا تبادلہ ایک شہر سے دوسرے شہر ہو جاتا تھا۔
پچھلے سال بد ر کا خالہ زاد بھائی نعمان ان کے گھر چھٹیاں گزارنے آیا تھا ۔ بدر نے اس کے ساتھ مل کر نہ صرف سکول کا سارا کام کر لیا تھا بلکہ اس دوران اس نے خوب سیر و تفریح بھی کی تھی۔ اس کے امی ابو وقت ملتے ہی دونوں بچوں کو سیر کے لیے لے جاتے تھے۔ اس مرتبہ چھٹیوں میں نعمان اپنے چچا کے ہاں جانے کا منصوبہ بنائے بیٹھا تھا۔
بدر فکر مند تھا ۔ اردو کا مضمون اسے بہت مشکل لگتا تھا اور سب سے کم نمبر بھی اسی مضمون میں آتے تھے۔ بدر کے سکول کی پڑھائی بہت اچھی تھی تبھی اس کے والدین نے اسے کسی اکیڈمی میں داخل نہیں کیا تھا۔ وہ پانچویں جماعت میں تھا اور پڑھائی میں تیز تھا ، بس اردو پر اس کی گرفت نہیں ہو پا رہی تھی۔
چھٹیوں کے آغاز میں بدر نے جی بھر کر آرام کیا اور ٹی وی پر اپنے پسندیدہ پروگرام دیکھے ۔ موسم گرما اپنے جوبن پر تھا اور سورج میاں بھی خوب جلال میں آئے ہوئے تھے۔ صحن میں دن بھر خوب تیز دھوپ لگتی رہتی اور بدر کو کمرے سے چند منٹوں کے لیے بھی باہر نکلنا دشوار لگتا ۔ اسے اپنی امی جان پر پیار آتا جو سخت گرمی کے باوجود باورچی خانے میں اس کے لیے مختلف فرمائشی کھانے بناتی رہتی تھیں۔
جب آرام کر کر کے بدر بیزار ہو گیا تو اس نے اپنا بستہ کھولا اور چھٹیوں کا کام شروع کر دیا۔ نئی کاپیاں، نئے دستےاور نئی اسٹیشنری کے ساتھ کام کرتے ہوئے اسے مزہ آ رہا تھا۔ یہ سب چیزیں ابو جان چھٹیوں سے پہلے ہی اس کے لیے خرید لائے تھے۔
جولائی کے آغاز میں آسمان پر بادلوں کے قافلے مٹر گشت کرنے لگے۔ کبھی دھوپ کبھی چھائوں اور کبھی ہلکی ہلکی بار ش نے گرمی کا زور توڑ دیا تھا۔ بدر کے گھر کے قریب ایک خوبصورت چھوٹا سا پارک تھا جہاں وہ کبھی کبھار چہل قدمی کے لیے چلا جاتا تھا۔
جب موسم خوشگوار ہونے لگا تو بدر نے بھی شام کے وقت گھر سے باہر نکلنا شروع کر دیا۔ چھٹیوں کے لیے ملا ہوا کام مکمل ہو چکا تھا اور اب وہ فارغ تھا۔ بدر کچھ دیر پارک میں چہل قدمی کرتا پھر کسی بنچ پر بیٹھ کر سر سبز نظاروں سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے لگتا۔ وہاں کالونی کے اکثر بچے کھیلنے کے لیے آتے تھے۔ بدر انہیں کھیلتا ہوا دیکھتا رہتا ۔ ایک دن بدر نے ایک ہم عمر لڑکے کو دیکھا جو ساتھ والے بنچ پر بیٹھا کوئی کتاب پڑھنے میں مگن تھا ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اسے اپنے آس پاس کے ماحول کی کوئی خبر نہیں ہے۔ وہ پوری دلچسپی سے کتاب میں کھویا ہوا تھا۔ بدر کو تجسس ہوا۔ وہ بھی اسی بنچ پر جا بیٹھا۔
’’دوست! یہ تم کیا پڑھ رہے ہو؟‘‘ بدر نے چند لمحوں بعد اس سے پوچھا ۔
لڑکے نے چونک کر سر اٹھایا، پھر ہاتھ میں پکڑا رسالہ لہرا کر بولا، ’’میں یہ رسالہ پڑھ رہا ہوں۔ اس میں بہت مزے دار کہانیاں اور مضامین ہیں۔ ‘‘
’’رسالہ پڑھنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘‘ بدر نے حیرانی سے پوچھا۔
اس لڑکے نے پہلے تو منہ بنا کر اسے گھورا پھر کہا، ’’مجھے کہانیاں اچھی لگتی ہیں۔ میں ان کہانیوں اور کتابوں کو پڑھ کر نئی معلومات حاصل کرتا ہوں۔ اس طرح میری اردو بھی بہت اچھی ہو گئی ہےاور مجھے اب سکول میں اردو کا مضمون بالکل بھی مشکل نہیں لگتا۔ ‘‘
اس کی آخری بات سن کر بدر اچھل پڑا۔ وہ کئی دنوں سے اسی فکر میں ڈوبا ہوا تھا کہ اپنی اردو کو کیسے بہتر کرے ۔ سکول میں زیادہ تر نصابی کتب انگریزی میں تھیں۔ تبھی بدر کو انگریزی پڑھنا آسان لگتا تھا اور اردو مشکل۔۔۔
’’دوست ! مجھے بھی اپنی اردو اچھی کرنی ہے۔ کیا تم مجھے بھی کوئی رسالہ دے سکتے ہو؟‘‘بدر نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔ میرے گھر بہت سی کہانیوں کی کتب اور رسائل موجود ہیں۔ میں وہ تمہیں دے سکتا ہوں۔ ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اس دن سے بدر اور فیصل دوست بن گئے۔ بدر نے جب کہانیوں کا مطالعہ کیا تو اسے اردو سے رغبت ہونے لگی اور گرمیوں کی باقی چھٹیوں میں اس نے ساری توجہ اپنی اردو کو بہتر کرنے میں صرف کر دی۔
بدر کے والدین نے بھی اس کی حوصلہ افزائی کی اور بدر کے ابو نے چند بہترین رسالے گھر پر لگوا لیے تاکہ اخبار کے ساتھ ساتھ بدر کے لیے بچوں کے رسائل بھی گھر میں آئیں۔
بدر کے پاس معلومات کا بیش قیمت خزانہ جمع ہونے لگا۔ اردو محاورات اور مشکل الفاظ کا ذخیرہ الفاظ اسے ازبر ہونے لگا جس کی وجہ سے کتابیں پڑھنا اور سمجھنا اور بھی آسان ہو گیا ۔ اس نے جو اچھی اچھی باتیں سیکھیں ان پر عمل کرنا بھی شروع کر دیا۔
آخر کار گرمی کی چھٹیاں اپنے اختتام کو پہنچیں ۔ بدر کا سکول میں پہلا دن بہت شاندار رہا۔ اس کے پاس اپنے دوستوں کو سنانے کے لیے بہت سے قصے تھے جو خاص طور پر اردو کی استانی صاحبہ نے اسے اچھا ہوم ورک کرنے پر جو شاباش دی، اس پر اسے بہت خوشی ہوئی۔ کتابوں اور رسالوں کی صحبت نے اس کی چھٹیاں واقعی یادگار بنا دی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرمی
عائشہ اطہر
دیکھو دیکھو آئی گرمی
چاروں جانب چھائی گرمی
کوئی دھوپ میں لال ہوا ہے
گرمی سے نڈھال ہوا ہے
مانو، طوطا اور خرگوش
سب گرمی سے ہیں بے ہوش
دیکھو دیکھو آئی گرمی
چاروں جانب چھائی گرمی
سورج چاچا کر دو معاف
دے دو بارش ہم کو آج
بارش میں سب نہائیں گے
خوب موج منائیں گے
تبصرے