’’انکل ! ایک کلوآم دے دیں ۔‘‘عاصم نے ٹھیلے والے کو سو روپے پکڑاتے ہوئے کہا ۔
جیسے ہی ٹھیلے والے نے آم تولنا شروع کیے ، عاصم نے نظریںبچا کر تین آم اپنے رومال میں چھپا لیے ۔اِس کامیاب کارروائی پرتھوڑی دُور کھڑے کاشف اور حماد نے اشارے سے عاصم کو شاباش دی ۔ابھی ٹھیلے والا عاصم سے پیسے لے کر دوسرے گاہگ کی طرف متوجہ ہوا ہی تھا کہ اُس نے ایک بار پھر وہی عمل دہرایا۔ اس بار عاصم نے دو آم اُٹھائے تھے ۔
ہر بارکی طرح اب بھی ٹھیلے والے کواُس نے پتا ہی نہ چلنے دیا۔اب تینوں دوستوں کے پاس سو روپے میں پانچ کی بجائے دس آم آچکے تھے ۔یعنی آدھے پیسوں سے اور باقی چوری سے۔
’’آہا...میٹھے میٹھے آم ، کتنا مزاآئے گا نا!‘‘ کاشف ، عاصم اور حماد نے ایک دوسرے کے ہاتھ پہ ہاتھ مارتے ہوئے قہقہہ لگایا اور پارک کی طرف روانہ ہوگئے۔ چور ی آم کھانے کے اس عمل کو انہوںنے ’’مشن آم‘‘کا نام دے رکھا تھا۔اُن کی اِس چالاکی کو آج مسلسل تیسرا دن تھا ۔آم بیچنے والابے چارہ سادہ مزاج ایک غریب آدمی تھا ۔ حماد ، کاشف اور عاصم پارک میں آم کھانے کے بعد روزانہ کی طرح اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔
گھر میں داخل ہوتے ہی عاصم کو حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔ سامنے برآمدے میں ابا جان سر جھکائے بیٹھے تھے ۔وہ بازار میں ٹھیلے پر ٹوپیاں اور رومال بیچتے تھے ۔ ’’آج ابا جان اتنی جلدی گھر کیوں آگئے ؟‘‘ عاصم دل میں عجیب و غریب خیالات لاتے ہوئے اُن کے پاس چلاآیا،لیکن یہ کیا... ابا جان تو اپنے آنسو پونچھ رہے تھےجبکہ باقی گھر والے یعنی امی جان ،چھوٹا بھائی،حمیرااور چھوٹی بہن حنا سب قریب ہی خاموش بیٹھے تھے ۔
’’یااللہ خیر...‘‘عاصم کے منہ سے بمشکل نکلا۔’’کیا ہوا ،خیر یت توہے ابا جان؟‘‘
ابا جان نے رومال سے آنکھیں صاف کیں اور کہنے لگے : ’’بیٹا!آج میراسارا مال چوری ہوگیا ۔پورے آٹھ ہزار روپے کا... وہ ... وہ کوئی تین چارشرارتی ہلکی عمر کےلڑکے تھے۔‘‘
اباجان نے بتایا تو عاصم کے پائوں تلے سے جیسے زمین ہی نکل گئی ہو۔پھر اگلے ہی لمحےوہ غصے سے دانت پیسنے لگا۔’’ میں چھوڑوں گا نہیں ،جنھوں نے میرے ابا جی کو دکھ دیا ۔‘‘
’’بیٹا!میں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا ؟کیوں کوئی میرے بچوں کارزق چھین کرلے گیا ؟میں اللہ سے شکایت کروں گا۔‘‘ابا جان نے رومال آنکھوں پر رکھتے ہوئے بے بسی سے کہا ،تو ایک دم عاصم کی آنکھوں کے سامنے آم والاآدمی آگیا۔ اُسے لگا کہ ابا کے بجائے آم والا شخص رو،رو کر اللہ سے اُس کی شکایت کررہا ہے۔
یہ خیال آتے ہی وہ سر سے پائوں تک کانپ گیا ۔ اُسے غلطی کا جب احساس ہوا، تو اپنے آپ پر بہت غصہ آیا ۔اگلے ہی لمحے وہ کاشف اور حماد کی طرف روانہ ہو چکا تھا تاکہ وہ لو گ آم والے کو تلاش کرکے اپنی غلطی کی تلافی کرسکیں ۔
تبصرے