’’ننھے میاں کلاس کا ایک منفرد طالب علم تھا۔معصوم گول مٹول چہرہ،بھوری آنکھیںاورگوری رنگت... شاید اسی لیے وہ کلاس میں ننھا کہلاتا تھا۔اس کی شرارتوں سے پوری کلاس تنگ تھی مگر اس کے بغیر رونق بھی نہیں لگتی تھی۔ اگر وہ چھٹی پر ہوتا تو کلاس کو تو جیسے سانپ سونگھ جاتا تھا۔ اسے سب بہت مِس کرتے۔
ننھے کو اپنے لنچ بکس کی بہت فکررہتی، اس لیے اسے ہر وقت بغل میں ہی دبائے رکھتا۔ مزے دار بات یہ ہوتی کہ جب لنچ کا وقت ہوتا تووہ اکثر اسے ڈھونڈ رہا ہوتا۔ ننھے کی جیب چاکلیٹ اور ٹافیوں سے بھری رہتی ۔ اسے چیونگ گم بھی بہت پسند تھی جسے وہ اکثر چباتا رہتا اور جب جی بھر جاتا تو ریپرز کی طرح کلاس میں ہی پھینک دیتا ۔ اس کی پانی کی بوتل ٹپ ٹپ کرتی رہتی تھی کیونکہ و ہ پانی پینے کے بعد اسے ٹھیک سے بند نہیں کرتا تھا۔ کچھ بچے تو اس کی عادتوں کو مذاق میں ٹال دیتے مگر کچھ کو یہ سب پسند نہیں تھا۔ وہ اکثر اسے ٹوکتے رہتے تھے ۔
گھر والے بھی ننھے کی ان عادتوںسے پریشان تھے ۔ اسے ہر کوئی سمجھاتا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوتا ۔ شام کے وقت دادا کے ساتھ پارک میں واک کے لیے جاتا تو ان کے آگے آگے چلنے لگتا تھا۔ دادا جان کسی سے بات کرتے تو وہ انہیں ٹوک دیتا۔ گھر میں کھانے کی ٹیبل پر وہ دوسروں کا انتظار کیے بغیر کھانا شروع کر دیتا تھا۔ اپنے بڑے بہن بھائیوں کو ان کے ناموں سے پکارتا تھا۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر نہیں کرتا تھا بلکہ یہ سب اس سے سرزد ہو جاتا تھا۔ اسے پتہ ہی نہ چلتا کہ اس کی ان عادتوں سے دوسروں کو کتنی پریشانی ہوتی ہے۔
ایک دن یوں ہوا کہ ننھے میاں کو اس کی شرارت پر سزا کے طور پر ایک اور لڑکے کے ساتھ بٹھا دیا گیا۔ اس لڑکے کا نام سالار تھا۔ وہ کلاس میں ابھی نیا نیا آیا تھااور اسے ننھے کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔وہ ایک ہونہار اورذہین بچہ تھا۔ اس کے والدین نے اس کی تربیت پر خاصی توجہ دی تھی۔ اس نے ننھے کو خوش آمدید کہا اور بڑی خوشی سے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
سالار کی عادت تھی کہ وہ جونہی کلاس میں داخل ہوتا، سب کو اونچی آواز میں’’ السلام علیکم‘‘ کہتا تھا۔ چند دن بعد ننھے نے بھی ایسا ہی کرنا شروع کردیا۔ اسی طرح سالار بڑے سلیقے سے اپنا ہوم ورک کرتا اور اگر کوئی بات ٹیچر سے کرنی ہوتی تو پہلے ہاتھ کھڑ ا کرکے اجازت لیتا ۔ ننھے نے بھی چند دن بعد ہاتھ کھڑا کرکے ٹیچرسے سوال کرنا شروع کیے تو پوری کلاس اس کی بدلتی عادتوں پر حیران رہ گئی۔ ٹیچر بھی بہت خوش تھیں کہ سالار کی اچھی صحبت نے اس پر اثرکرنا شروع کردیا ہے۔
سالار کی ایک اور اچھی عادت یہ تھی کہ وہ اپنا کام کبھی ادھورا نہیں چھوڑتا تھا۔ اپنا سارا کام گھر سے مکمل کرکے لاتا ۔ کچھ دنوں بعد ننھےمیاں نے بھی ایسا کرنا شروع کردیا۔ اس سے پہلے وہ اپنا ہوم ورک اسکول آکر کرتا تھا۔ اب تو ننھے نے سالار کی طرح ٹیچر کی باتیں بھی پوری توجہ سے سننا شروع کردی تھیں۔
ایک دن ٹیچر باتوں ہی باتوں میں خوش اخلاقی کے بارے میں بتا رہی تھیں۔ ننھے سمیت پوری کلاس ہمہ تن گوش تھی۔ ٹیچر بولیں، ’’ہماری کلاس کے سبھی بچے بہت اچھے ہیں۔اچھی عادات کو حسن اخلاق کہا جاتا ہے۔ بڑوں کی عزت کرنا،چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنا، اپنے کلاس فیلوز کی مدد کرنا، انہیں تنگ نہ کرنا، دوسروں کی بات نہ کاٹنا، بڑوں کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کرنا، پڑھائی اور دیگر کاموں میں دوسروں کی مدد کرنا،بہت زیادہ فرمائشیں کر کے گھر والوں کو تنگ نہ کرنا، اپنا کام وقت پر کرنا، اپنی ذمہ داریاں نبھانا ،یہ سب ایسی عادتیں ہیں جن کے ذریعے آپ سب اچھے بچے بن سکتے ہیں۔‘‘
ننھا یہ باتیں غور سے سن رہا تھا ۔ سالار نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا، ’’بھئی ننھے میاںفکر نہ کرو، آپ بھی بہت اچھے ہیں۔‘‘اپنے بارے میں یہ سن کر ننھے کا چہرہ کھل اُٹھا۔
’’السلام علیکم...‘‘ اگلے روز سب کو سلام کرنے کے بعد جونہی ننھا اپنے بنچ پر بیٹھا، سالار نے اس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت پیکٹ تھما دیا۔ ’’سالگرہ مبارک، پیارے دوست!‘‘
ننھا یہ سن کر اچھل پڑا، ’’سالار! تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ آج میری سالگرہ ہے۔‘‘
’’آپ میرے دوست ہیں، اگر میں اتنا بھی یاد نہ رکھوں تو پھر اس دوستی کا کیا فائدہ۔‘‘ سالار نے مسکراتے ہوئےکہا۔
گھر آکر ننھے نے پیکٹ کھولا تواس کے اندر نصیحتوں ، اقوال اور سبق آموز کہانیوں سے بھری ہوئی ایک خوبصورت کتاب تھی۔ دادا جان نے اس کے ہاتھ میں یہ کتاب دیکھی تو بولے، ’’بہت خوب بیٹا! کتاب سے بڑھ کر کوئی دوست نہیں۔ اگر تم نے مطالعے کو اپنی عادت بنا لیا تو یہ تمہاری زندگی بدل دے گا۔ ‘‘
اب فارغ وقت میں کتاب کا مطالعہ کرنا ننھا کا معمول بن چکاتھا۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہا تھا اسے کلاس کے آداب، بات چیت کے اصول اور کھانے کے سلیقے کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ معلوم ہورہا تھا۔ وہ مطالعے کے بعد غوروفکر کرتا اور اچھی باتوں پر عمل کرنے کا عزم کرتا ۔
اچھی عادات کی بدولت اب ننھا ،سالار کی طرح کلاس کا ہونہار طالب علم بن چکا تھا۔ سالار کی صحبت اور کتاب دوستی نے اس کی زندگی بدل کر رکھ دی تھی۔
تبصرے