ماریہ کے ہاتھ میں ایک تھیلا جھول رہا تھا جس میں آم کے کچھ چھلکے تھے۔گھر میں کچھ دیر قبل سب نے مل کر مزے مزے کے آ م کھائے تھے ۔آم پارٹی سے فارغ ہوکرامی جان نے چھلکے ایک شاپر میں ڈال کر ننھی ماریہ کو تھمادیے تاکہ وہ گھر کے باہر گلی میں رکھے کوڑے دان میں پھینک آئے ۔
ماریہ نے چھلکوں والا شاپر اُٹھایااور سب سے نظر بچا کر چھت پر چڑھ گئی۔وہ شاپر کو گھما کر گلی کے کوڑے دان میں پھینکنا چاہتی تھی۔ گھر کی صفائی کے بعد وہ اکثر ایسا ہی کیا کرتی تھی۔جیسے ہی ماریہ نے بازو گھماکر چھلکوں والا شاپر چھت سے نیچے پھینکا ،اچانک گلی میں کسی موٹر سائیکل کے بریک لگنے سے ٹائر چرچرانے کی زور دارآواز گونجی۔ماریہ نے جلدی سے ایڑھیاں اونچی کرکے باہرجھانکا تو ٹھٹک کر رہ گئی ۔
باہر اُن کے محلے دارحامد صاحب موٹر سائیکل سمیت زمین پر گرے ہوئے تھے۔ اُن کے سر اور کندھے پر آموں کے چھلکے چپکے ہوئے تھے ۔یہ منظر دیکھتے ہی ماریہ کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے گلی میںہجوم اکٹھا ہوگیا۔ اِدھر ماریہ ڈرتے ڈرتے چھت سے نیچے اُتر آئی ۔
ماریہ کے ابوبھی گلی میں شور سن کر باہر نکل آئے۔انہوں نے جلدی سے حامد صاحب کو سہارا دیا اور پھر اُن کی موٹر سائیکل اُٹھانے لگے۔اللہ کا شکر ہے کہ انہیں کوئی چوٹ نہیں آئی۔ لوگوں کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ موٹر سائیکل پر جارہے تھے کہ اچانک ایک شاپر اُن کے چہرے سے ٹکرایا اور وہ اپنا تواز ن برقرار نہ رکھ سکے۔ماریہ کے ابو نے جب زمین پر پڑا شاپر دیکھا تو وہ حیران رہ گئے۔یہ شاپر توابھی ابھی اُن کی بیگم نے ماریہ کو کوڑے دان میں پھینکنے کے لیے دیا تھالیکن یہ حامد صاحب کے منہ پر کیسے جالگا؟ جلد ہی ماریہ کے ابو سار ی بات سمجھ گئے۔
جب انہوں نے گھر جا کر ماریہ سے اِس بارے میں دریافت کیاتو مارے شرمندگی کے اُس نے سر جھکا لیا۔ابو جان ماریہ کی اس حرکت پر سخت ناراض تھے۔انہو ں نے اسے سمجھایا، ’’دیکھو بیٹا!یہ اچھی عادت نہیں ہے،صفائی ستھرائی کا ایسا طریقہ جس سے ماحول مزید گندا ہواور کسی دوسرے کو نقصان بھی پہنچے، ٹھیک نہیں ہے ۔دیکھو! اب گلی میں کیسے ہر طرف آم کے چھلکے بکھرے پڑے ہیں اور اُن پر مکھیاں بھنبھنارہی ہیں۔صرف یہی نہیں، آپ نے جس طرح چھت سے چھلکوں کا شاپر کوڑے دان کی طرف اُچھالا ،اس طریقے سے تو کوئی بڑا نقصان بھی ہوسکتا تھا۔اپنے گھر کو صاف ستھرا کرکے گلی یادوسروں کے گھر کے باہر گند پھینکنا انتہائی بُری حرکت ہے ۔ میرے خیال میںہمیںحامد صاحب کے گھر جا کر اُن سے معافی مانگنی چاہیے۔‘‘
ماریہ کے ابو اُسے سمجھا رہے تھے کہ اتنے میں امی جان بھی وہاں آگئیں۔انہوںنے بھی ماریہ کی سرزنش کی اور اُسے سمجھایا کہ’’ بیٹی! صفائی کو ہمارے مذہب اسلام میں نصف ایمان کہا گیا ہے ۔یہ چاہے اپنے بدن اور کپڑوں کی صفائی ہو یا گھراور گلی محلے کی۔ہمیں ہر صورت خود کواور اپنے آس پاس کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا چاہیے ۔‘‘
ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنے گھر بار کو تو اچھی طرح صاف کرلیں ،لیکن اپنا کوڑا کرکٹ باہر راستے میں پھینک دیں ۔اس سے مسافروں اور گلی محلے والوں کوپریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ آپ جانتی ہو کہ جہاں کوڑا کرکٹ ہو،وہیں مکھیاں اور مچھر آتے ہیں۔اگر ہم اپنے آس پاس کی گندگی کو کوڑے دان میں نہیں پھینکیں گے، تولازماََ وہاں مچھر وں اور مکھیوں ہی کی بھرمار ہوگی ۔ جراثیم پیدا ہوں گے ۔پھر انہی جراثیموں سے بیماریاں پھیلیں گی۔
اچھی عادت یہ ہے کہ ہم اپنے جسم ، کپڑے،گھر ،گلی، محلے، اسکول، پارک، مارکیٹ اور آس پاس کے علاقے کو صاف ستھرا رکھیں ۔ماریہ نے امی ابو کی باتیں توجہ سے سنیں اور شرمندگی سے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا۔ابوجان نے ماریہ کے مثبت رویے پر اسے شاباش دی اور کہنے لگے، ’’تو کیا خیال ہے ماریہ! چلیں پھر حامد صاحب کے گھرآموں کا تحفہ لے کر ؟‘‘ ماریہ نے مسکراتے ہوئے ’’ جی ابوجان‘‘ کہا اورپھر اپنے ابو کے ساتھ پڑوس میںحامد انکل سے معذرت کرنے ان کے گھر کی طرف روانہ ہوگئی ۔
تبصرے