’’8 جون کو دنیا بھر میں سمندر وںکا عالمی دن منایاجاتا ہے۔ اس دن جانے کتنی تقریریں ہوں گی اور کتنی ہی واک ہوگی۔ ان کے بدلے اگر ہر انسان اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ساحلِ سمندر کو صاف اور سمندری مخلوق کا خیال رکھے تو ساری مشکلات حل ہوسکیں گی ‘‘
’’جلدی کرو نیلی ! اگر ہم لیٹ ہوگئے تو ہمارے گھر والے ناراض ہو جائیں گے۔‘‘ گلابی جل پری کا پریشانی سے برا حال تھالیکن نیلی جل پری کہاں کسی کی سنتی تھی۔ سمندر کی لہروں میں مدغم ہوتے ہوئے ساحل پر پکنک مناتے انسانوں کو دیکھنا اس کاپسندیدہ مشغلہ تھا۔ اس وقت بھی نیلی جل پری سمندر کی سطح پر موجود ایک بڑے سے پتھر کی اوٹ سے ساحل سمندر کو دیکھنےمیں محو تھی۔ آج ایک بہت بڑا خاندان پکنک منانے آیا ہوا تھا۔ ان میں بچے بڑے سب شامل تھے۔ کھانے کی بڑی بڑی دیگیں،پینے کےلیے ٹھنڈی ٹھار بوتلیں اور بےتحاشہ چپس ، بسکٹ کے پیکٹ نیلی جل پری کی توجہ کھینچے ہوئے تھے۔ ایسے میں وہ کہاںگلابی جل پری کی بات سنتی۔ آج تو اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ انسانوں سے بات کرے اور ان کے ساتھ لائے مزے مزے کے کھانےبھی کھائے۔
گلابی جل پری نے جب دیکھا کہ نیلی جل پری اس کی بات پر کان ہی نہیں دھر رہی تو وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ کر خودسمندر کی تہہ میں واقع اپنی دنیا ، اپنے ملک جل پرستان واپس چلی گئی۔
شام ہوچلی تھی اور ہر شام کی طرح اس شام بھی جل پرستان کے تمام رہنے والے اپنے اپنے گھروںکو لوٹ آئے تھے۔ ساری مچھلیاں ، کچھوے، جل پریاں اور دوسرے آبی جانور اپنے اپنے ٹھکانوں میں ایک دوسرے کو دن بھر کی کہانیاں سنانے میں مصروف تھے ۔ اسی دوران شور بلند ہوا کہ نیلی جل پری گھر نہیں پہنچی۔ یہ سن کر سب جمع ہوگئے۔ ہر کسی کے چہرے پر فکر تھی۔گلابی جل پری نے بے چین ہوکر اپنی سہیلی نیلی جل پری کو ادھر اُدھر تلاش کیا مگر وہ نہ ملی۔ گلابی جل پری نے دیر کرنا مناسب نہ سمجھا اور سب کو بتانے لگی کہ جب وہ لوٹ رہی تھی تواس نے نیلی کو ساحل سمندر پر انسانوں کا مشاہدہ کرتے ہوئےدیکھا تھا۔
انسانوں کا نام سنتے ہی تمام آبی جانوروں کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ وہ سب ایک کمک کی صورت میں نیلی کی تلاش میں نکل گئے۔ ہر کوئی اس کی محفوظ واپسی کے لیے دعاگو تھا۔
سمندر کی سطح پر آتے ہی انہیں ڈھیر سارے کچرے کا سامنا کرنا پڑا۔ آتی جاتی لہروں میں جوس کے خالی ڈبے، پلاسٹک کی تھیلیاں، پھلوں کے چھلکے، کانچ کی بوتلیں اور پلاسٹک کے گلاسوں کے ساتھ ساتھ ٹی بیگز بھی نہ صرف تیررہے تھے بلکہ سمندری مخلوق سے چمٹ بھی رہے تھے۔
ایک بوڑھے کچھوے نے یہ منظر دیکھا تو بولا، ’’ جل پرستان کی باسیو! اس وقت ہم انسانوں کی پھیلائی ہوئی آلودگی میں گھرے ہوئے ہیں۔ انسان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاپروا ہوتا جارہا ہے،نیلی پری کی تلاش جلد از جلد مکمل کرکے ہمیں فوراً اپنی دنیا میں واپس لوٹنا ہوگا۔ یاد رہے! اس کچرے سے خود کو بچانا ہے۔ ہم نےاپنے کتنے ہی پیارے اس انسانی پھیلائے ہوئے کچرے کی بدولت کھو دیے ہیں۔ اب سب ایک گروہ میں ہی رہیں گے اور نیلی جل پری کوڈھونڈ کر ہی دم لیں گے۔ “
کچھوے کے خطاب کے بعدوہ سب سمندری سطح پر تیرنے لگے، جلد ہی ان کی نظرسمندری سطح پر ساکت پڑی زخمی نیلی جل پری پر پڑی۔ سب تیزی سے تیرتے ہوئے اس کے پاس پہنچے۔ نیلی جل پری کی دم میںٹوٹے ہوئے کانچ کی بوتل کھبی ہوئی تھی اور اس کے منہ کے اندر پلاسٹک کی تھیلی چپک گئی تھی جو سانس لینے سے مزید اندرچلی جاتی تھی۔ نیلی جل پری بہتے خون اور سانس میں دقت کی وجہ سے نڈحال تھی، بوڑھے کچھوے نے فوراََ اس کی مدد کی اور یوں سب مل کر نیلی جل پری کو اپنے ساتھ لے کر جل پرستان لوٹے۔
نیلی پری اپنے گھر میں زخمی پڑی تھی ۔ اس کے گھر والے اس کی دیکھ بھال کررہے تھے۔ اس کے منہ سے تھیلی نکال دی گئی تھی لیکن کانچ کے ذرات نے اس کی دُم کوزخمی کر دیا تھا۔
شام کوجل پرستان کے سب باسی نیلی کو ملنے آئے۔ نیلی نے انہیں دیکھتے ہی شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ بوڑھے کچھوے نے ایک گہری سانس لی اور اداسی سے کہنے لگا،’’ پیاری نیلی جل پری! تم اتنی نادان نہیں ہو جتنے یہ انسان ہیں۔جانے یہ انسان کب سمجھیں گے کہ ان کا پلاسٹک استعمال کرنا ہمیں موت کے منہ میں لے جارہا ہے۔انہیںکب ادراک ہوگا کہ سمندر اور اس کے اندر رہنے والی مخلوق کے بارے میں بھی سوچیں، یہ ہر بار کچرا پھیلا کر چلے جاتے ہیں اور ہر بار ہم بیمارہوجاتے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج جب تم اس حالت میں یہاں پڑی ہو، تو آج ، آٹھ جون کو، اس وقت دنیا بھر میں سمندر وںکا عالمی دن منایاجارہا ہے۔ جانے کتنی تقریریں ہوں گی اور کتنی ہی واک ۔ ان سب کے بدلے اگر ہر انسان اپنی ذمہ داری سمجھے اور سمندری مخلوق کا دھیان رکھے تو ساری مشکلات حل ہوجائیں گی۔ “
بوڑھا کچھوا یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگیا اور نیلی جل پری اپنی زخمی دم کے ساتھ انسانوں کی بےحسی پر سوچتی رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرے