’’اُف توبہ!کیا ہوگیا، اتنا شور...‘‘ عینی خالہ کتابیں بند کرکے باہر آگئیں۔ ببلی گلا پھاڑ کر زور سے رو رہی تھی اور شدید رونےکی وجہ سے ناک بھی پوری روانی سے بہہ رہی تھی۔ ’’ہوہائے!گندی‘‘ کرن اُس کے ناک کی طرف اشارہ کرکے بولی۔ ببلی نے دو سیکنڈ کی بریک لی اور جب کرن کی بات سمجھ آئی، پھر رونا شروع کردیا اور وہ بھی شدت سے... ’’اِس نے مجھے گندی کہا‘‘ وہ روتے روتے بولی۔
’’ہوا کیا ہے؟ مجھے تو بتاؤ‘‘ عینی خالہ نے اُس کے گال پونچھے۔
’’ اِس نے نومی بھائی کے واٹر کلر دیکھے ہیں اور اِس کو بھی بالکل ویسے ہی چاہئیں‘‘، حاذم نے بتایا۔
’’ عینی خالہ!س کو ہر وہ چیز چاہیے جو دوسروں کے پاس ہے۔‘‘ کرن نے ناک چڑا کر کہا۔
’’اچھا! تو یہ بات ہے۔‘‘ عینی خالہ نے گول مٹول ببلی کو گود میں بٹھایا۔
’’توآپ نے کیا کرنے ہیں واٹر کلر؟‘‘ انہوں نے ببلی سے پوچھا۔
’’مجھے اچھے لگے بہت...‘‘ اُس نے فوراً جواب دیا۔
’’مگر آپ تو بہت چھوٹی ہو۔ آپ کو نہ تو اُن کی ضرورت ہے اور نہ آپ کو وہ استعمال کرنے آتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ وہی چیزیں لینی چاہئیں جن کی ہمیں ضرورت ہو۔ چلو پہلے میں آپ سب کو فرنچ فرائز بنا کر دیتی ہوں۔سب سے پہلے ان کا مزہ لیتے ہیں پھر دیکھتے ہیں ببلی کے واٹر کلرز کا معاملہ...‘‘
آلو چھیلنے کے بعد عینی خالہ نے فرائی پین میں تیل ڈالا اور بولیں...’ ’اب دیکھو بچو! تیل اُتنا ہی لینا ہے جتنی ضرورت ہے اور اگر اِس میں سے بھی بچ جائے تو اُسے ایک الگ پیالے میں نکال کر رکھ لینا ہے تاکہ وہ دوبارہ استعمال ہوجائے۔‘‘ گرم گرم فرنچ فرائز پلیٹ میں نکالنے کے بعد عینی خالہ سب بچوں کو کمرے میں لے آئیں۔
’تو ہماری پیاری ببلی کوواٹر کلر لینے ہیں۔‘‘ عینی خالہ نے ببلی کو گود میں بٹھالیا۔
’’جی لینے ہیں۔‘‘ ببلی فرائز کھاتے ہوئے بولی۔ حاذم، حذیفہ اور کرن بھی اُن کے اردگرد بیٹھ گئے تھے۔
’’کہانی کون کون سنے گا‘‘ عینی خالہ نے اچانک سب سے پوچھا۔
’’میں.. میں... ‘‘سب نے ہاتھ اُٹھادیے۔
’’خالہ جان! کہانی بہت لمبی ہونی چاہیے۔‘‘ حاذم بولا۔
’’بھئی کہانی لمبی بھی ہوگی اور دلچسپ بھی۔ مگر ایک شرط ہے۔‘‘
’’کیا شرط؟‘‘ حذیفہ اور کرن ایک ساتھ بولے۔
’’شرط یہ ہے کہ پوری کہانی سننے کے بعد ببلی فیصلہ کرے گی کہ اُسے واٹر کلر لینے چاہئیں یا نہیں... ٹھیک ہے ببلی؟‘‘ ببلی نے ہاں میں سر ہلایا۔
’’تو بچو! یہ کہانی ہے ایک لڑکی کی۔ اس کا نام تھا قراۃ العین ۔ وہ گھر میں سب سے چھوٹی تھی ۔ اسی وجہ وہ لاڈلی ہونے کے ساتھ ساتھ ضدی بھی تھی۔ ایک کمرے سے نکلتی تو لائٹ کو جلتا چھوڑ آتی۔ ہاتھ منہ دھونے جاتی تو پانی کا نل بند نہ کرتی۔ ٹی وی دیکھتی تو اس کی آواز اُونچی رکھتی۔ آپ سب کو پتا ہے نا کہ اونچی آواز بھی آلودگی کہلاتی ہے؟‘‘
’’پتا ہے...‘‘سب نے ہاں میں سر ہلایا۔سب بچے کہانی کو بڑی دلچسپی سے سن رہے تھے۔خالہ تھوڑی سی خاموشی کے بعد دوبارہ بولیں...
’ ’قراۃ العین جب بازار جاتی تو ایسی ایسی چیزیں لینے کی ضد کرتی جس کی اُسے ضرورت بھی نہ ہوتی تھی۔ سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے نکلتی تو پارک میں موجود پھول پتے نوچ ڈالتی۔ درختوں کی ٹہنیاں تک توڑ دیتی۔ اُس کی امی اُسے سمجھا سمجھا کر تھک گئی تھیں کہ بیٹا!درخت نا صرف ہمیں سایہ دیتے ہیں بلکہ ماحولیاتی آلودگی کو دور کرنے میں بھی مددگار ہیں۔ پھول کسی بھی جگہ کی شان بڑھاتے ہیں لہٰذا انہیںمت توڑو۔ وہ اُسے سمجھاتیں کہ پہلے فیصلہ کرو کے کس چیز کی زیادہ ضرورت ہے اور کتنی چاہیے پھر اُسے لو ...مگر قراۃ العین ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتی تھی۔
پھر ایک دن یوں ہوا کہ وہ اپنی امی کے ساتھ خریداری کے لیے شاپنگ مال گئی۔ مال میں داخل ہوتے ہی اسے ایک گڑیا پسند آئی۔‘‘
’’اُسے وہ گڑیا لینی تھی؟‘‘ببلی نے موٹی موٹی آنکھیں کھول کر پوچھا۔
’’جی ہاں! قراۃ العین نے ضد کرنا شروع کردی کہ مجھے یہی گڑیا چاہیے۔ اُس کی امی نے پہلے اُسے پیار سے سمجھایا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ گئیں۔ قراۃ العین مسلسل رو رہی تھی کہ وہی گڑیا لینی ہے۔ امی کچھ ضروری خریداری میں مصروف ہوگئیں اور قراۃ العین امی کا ہاتھ چھڑوا کر گڑیا والی دکان ڈھونڈنے لگی۔ دکان ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ بازار میں آگے نکل گئی۔ ایک جگہ ایک غباروں والے انکل کھڑے تھے جن کی ریڑھی کے اُوپر بہت سے رنگ برنگے غبارے بندھے تھے۔ قراۃ العین کو وہ بہت اچھے لگے۔ اُس نے غباروں والے انکل سے کہا کہ اسے ایک سرخ رنگ کا غبارہ دے دیں مگر غباروں والے انکل واپس جارہے تھے۔ ٹریفک کے شور میں اُنہیں قراۃ العین کی آواز بھی نہ سنائی دی۔ اب غباروں والے انکل آگے آگے اور قراۃ العین اُن کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے غباروں والے انکل تیزی سے غائب ہوگئے۔اچانک قراۃ العین کی نظر دو کتوں پر پڑی۔‘‘
خالہ کی کہانی دلچسپ اورتجسس سے بھرپور تھی۔
’’اُف خالہ! وہ اُسے کاٹ لیں گے ۔‘‘حاذم بولا۔
’’ بھئی، خاموشی سے کہانی سنیں... عینی خالہ! پھر کیا ہوا؟‘‘ حذیفہ ڈسڑب ہوا۔
’’ بس پھر کیا تھا، کتوں نے قراۃ العین کو دیکھتے ہی بھونکنا شروع کر دیا اور اُس کے پیچھے بھاگے۔ قراۃ العین ڈر کر بھاگی اور بھاگتے بھاگتے بہت دور نکل گئی۔ اُس کا سانس پھول چکا تھا۔ دھوپ شدید تیز تھی۔ وہ ایک میدان میں تھی جہاں دور دور تک درخت نہ تھے۔ اُسے بھوک لگ رہی تھی اور پیاس بھی۔ کہیں کوئی سایہ نہ تھا۔ وہ زور زور سے رونے لگی۔ اُس کی امی نے گھر فون کرکے سب کو بلوا لیا تھا۔ سب اُسے ڈھونڈ رہے تھے۔ اچانک اُس کے پاس آ کر ایک گاڑی رکی۔ اُس نے روتے روتے دیکھا تو گاڑی میں اُس کے نانا، نانی بیٹھے تھے۔ وہ بھاگ کر اُن کے گلے لگ گئی۔ نانا اور نانی اُسے اپنے گھر لے آئے۔ اُس کی ماما کو بھی کال کر کے بتا دیا کے قراۃ العین مل گئی ہے اور ان کے ساتھ ہے۔ ’’پھر کیا ہوا خالہ؟‘‘ کرن بولی۔
قراۃ العین کا ہاتھ منہ دھلوا کر اُسے کھانا کِھلا کر اُس کی نانو نے اُسے سلا دیا تھا۔ جب وہ سو کر اُٹھی تو نانو کمرے میں نہیں تھیں۔ وہ اُنہیں ڈھونڈتی ہوئی چھت پرچلی گئی اور چھت کو دیکھ کر قراۃ العین حیران رہ گئی۔ چھت پر سبزہ ہی سبزہ تھا۔ رنگ رنگ کے پھول کھلے تھے۔ ہر طرف ایک خوشبوبکھری ہوئی تھی۔
’’نانو... یہ کتنا خوبصورت ہے۔ بالکل سبز جنت...‘‘ اُس کے منہ سے نکلے یہ الفاظ نانو کو بہت اچھے لگے۔
’’یہاں آؤ ...‘‘ نانونے اُسے پاس بلایا۔ مختلف گملوں میں دھنیا، پودینہ، ہری مرچیں اور ٹماٹر لگے تھے۔
’’یہ دیکھو، یہ سب چیزیں گھر سے نکلی ہیں۔ پلاسٹک کی پینٹ کی خالی بالٹیاں۔ کچھ کیچپ کی بڑی پلاسٹک کی بالٹیاں اور کچھ شربت کی خالی بوتلیں مَنی پلانٹس کے لیے۔ اِن کو دیکھو، سب بے کار چیزوں کو کار آمد بنایا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کو دور کرنے میں پودوں کا اہم کردار ہے۔ ہم چاہیں تو بے کار چیزوں کو کار آمد بنا سکتے ہیں۔‘‘
’’یہ بہت اچھے ہیں۔ میں بھی ایسا ہی کروں گی..‘‘ وہ خوشی سے چلائی۔ قراۃ العین کے سب کزن ا سکول سے آچکے تھے اور وہ اُس سے پوچھ رہے تھے کہ وہ کیسے گم ہوئی؟ قراۃ العین شرمندہ لگ رہی تھی۔ نظریں جھکا کر بولی۔ میں ایسی گڑیا لینے کی ضد کررہی تھی جس کی مجھے ضرورت نہیں تھی۔ پھر میںامی سے پوچھے بغیر غباروں والے انکل کے پیچھے پیچھے چلی گئی اور گم ہو گئی۔ وہاں بہت دھوپ تھی۔ دور دور تک کوئی ہرا بھرا درخت نہ تھا۔ کچھ درخت تھے وہ بھی کٹے ہوئے۔مجھے شرمندگی ہوئی کہ میں پودوں کی شاخیں، ٹہنیاں اور پھول توڑ توڑ کر پھینکتی رہی۔ وہاں کہیں پانی بھی نہیں تھا۔ مجھے پیاس بھی لگی تھی اور میں کتنا پانی ضائع کرتی تھی۔ میں آئندہ کبھی کوئی چیز ضائع نہیں کروں گی۔مجھے جن چیزوں کی ضرورت ہوگی صرف وہی لوں گی۔‘‘
کہانی ختم ہوگئی مگر سب بچے ابھی تک خاموش تھے۔ ببلی بھی چپ تھی۔ ’’اور ایک آخری بات‘‘، عینی خالہ بولیں آپ سب کو پتا ہے قراۃ العین کون ہے؟‘‘
’’کون....؟‘‘ سب اکٹھے بولے۔
’’آپ کی عینی خالہ..‘‘ عینی خالہ مسکرائیں۔
’’یہ آپ کی اپنی کہانی ہے‘‘ حاذم، حذیفہ چلائے۔
’’جی ہاں‘‘
تھوڑی دیر میں سب بچے اُٹھ کر چلے گئے۔ عینی خالہ سو کر اُٹھیں تو اُنہیں بچے کہیں نظر نہ آئے۔
’’یہ تم نے بچوں کو کس کام پر لگا دیا ہے؟ سب چھت پر ہیں۔‘‘ بھابھی ہنستے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔
عینی خالہ جب چھت پر پہنچیں تو صاف ستھری چھت چمک رہی تھی۔ چھت کے ایک کونے پر صاف ستھرے دھلے دُھلائے پینٹ کے خالی ڈبے ، بوتلیں اور کچھ خالی گملے پڑے تھے۔
’’خالہ ہم بھی سبز جنت بنائیں گے۔ اور ہاں ببلی کوکلر نہیں لینے‘‘، کرن بولی۔
عینی خالہ مسکرا رہی تھیں۔ اِس لیے کے بچے سمجھ گئے تھے۔
ماحول کو صاف رکھنے کے لیے اور زندگی کو آسان بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی ضروریات کو محدود کریں اور زیرو ویسٹ لائف ا سٹائل کی طرف آئیں۔ چیزوں کی دوبارہ استعمال کرنے کی عادت اپنائیں۔شجر کاری کریں اور ہاں!عینی کی طرح اپنے امی ابو کو بتائے بغیر کہیں نہ جائیں۔
تبصرے