ماحولیات کے عالمی دن5 جون 2024کے حوالے سےثاقب محمود بٹ کی خصوصی تحریر
سب بچے باباجان کے ساتھ کھانے کی میز پر جمع تھے کہ ٹیلی ویژن پر ایک آواز سنائی دی، ’’آج دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔‘‘
خبریں سنتے ہوئے بابا جان نے اپنے ارد گرد بیٹھے بچوں سے پوچھا: ’’پیارے بچو!کیا آپ جانتے ہیں کہ ماحول کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’جی ہاں بابا جان!ہم جہاںرہتے ہیں اس کے گردونواح کو ماحول کہتے ہیں۔‘‘ فیصل نے جواب دیا۔
’’بابا جان! اس میں زمین، پہاڑ، دریا، جانور پرندے، سمندر، ہوا، پانی اور سب سے بڑھ کر پیڑ پودے بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ سب مل کر ماحول بناتے ہیں۔ ‘‘سمیرا نے بھی گفتگو میں اپنا حصہ ڈالا۔
’’شاباش بیٹا! ماحول میں پائی جانے والی ہر قدرتی چیز ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ کوئی بھی چیز کم یا زیادہ ہوتی ہے تو اس کا ماحول پر گہرا اثرپڑتا ہے‘‘، بابا جان نے وضاحت کی۔
’’ لیکن جو ںجوں انسان ترقی کررہا ہے اورشہری آبادی بڑھ رہی ہےتوں توں ہمارا ماحول بھی خراب ہو رہا ہے۔اس حوالے سے خبردار رہنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ اسے کیسے کم کیا جائے‘‘، سمیرا نے فکر مندی سے کہا۔
’’بیٹا! آپ کی بات ٹھیک ہے۔واقعی آلودگی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔اس میں ہمارا بھی قصور ہے۔ ہم اپنا گھر صاف رکھتے ہیں اورگندگی باہر پھینک دیتے ہیں۔ گلیوں اور سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر لگ جاتے ہیں جو ہوا سے اُڑ اُڑ کرندی نالوں کے بہائو کو روک دیتے ہیں۔ بارش ہو جائے تو گندگی کے یہ ڈھیر اِدھر اُدھر پھیل کر بہت سی بیماریاں پھیلاتےہیں۔بچو!کیا آپ میں سے کوئی بتا سکتاہے کہ ہمیں محلے کو کوڑےسے محفوظ رکھنے کےلیے کیا کرنا چاہیے؟‘‘
علی فوراََ بولا، ’’باباجان میں بتاتا ہوں۔‘‘
’’جی علی! آپ بتائیے۔‘‘باباجان مسکراتے ہوئے بولے۔
علی نے اپنا گلا صاف کیا اور ایک مقرر کے سے انداز سے بولا، ’’ اگر ہم اپنے گھر کا کوڑا ڈسٹ بِن میں جمع کرکے خاکروب یا میونسپل کمیٹی کے سٹاف کے ذریعے ٹھکانے لگائیں تو یقینا ہم اپنے گلی محلے کو کوڑا کرکٹ سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔‘‘
’’شاباش علی بیٹا! ...اب فیصل ہمیں آبی آلودگی کے بارے میں بتائے گا۔‘‘باباجان نے فیصل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’بابا جان!پانی ہماری زندگی کا لازمی جزو ہے۔ جب ہم اس کو ضائع کرتے ہیں تو یہ مختلف جگہوں پر جمع ہوکر آبی آلودگی پھیلاتا ہے۔ بارش کے دنوں میں یہ پانی گلیوں میں کھڑا رہتا ہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والا پانی کئی بار نالوں سے باہر نکل کر پھیلنا شروع ہوجاتاہے۔اس گندے پانی پر مچھر اور مکھیاں خوب پھلتے پھولتے ہیں۔یہ گندگی لے کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے اورمختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں لہٰذا پانی کو اِدھر اُدھرجمع نہیں ہونے دینا چاہیے۔آلودہ پانی آبی حیات کی صحت کے لیےبھی خطرہ ہے۔‘‘
’’زبردست بیٹا!آپ نے بہت عمدہ طریقے سے آبی آلودگی کے بارے میں بتایا۔‘‘ بابا جان فیصل کی معلومات پر حیران تھے۔
’’بابا جان ! اب فضائی آلودگی کے بارے میں مَیں بتائوں گی۔‘‘ سمیرا نے جلدی سے ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے کہا۔
’’ جی بالکل بیٹا!‘‘بابا جان نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔
’’فضائی آلودگی کارخانوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں سے پیدا ہو رہی ہے۔ کوڑا کرکٹ کو آگ لگا دینے سے اس میں اضافہ ہورہا ہے۔اسی طرح فیکٹریوں کی چمنیوں، گاڑیوں، بسوں، موٹر سا ئیکلوںسے خارج ہونے والا دھواں اور گیسیں ہماری صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ خاص طورپر اس سے سانس کی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔‘‘
’’بہت خوب سمیرا بیٹی!‘‘ بابا جان نے سمیرا کی معلومات کو بھی سراہا۔ پھر مسکرا کر بولے چونکہ آپ سب کے شور سے میں متاثر ہوتا ہوں، اس لیے شور کی آلودگی کے بارے میں میں بتائوں گا۔ بابا جان کی بات پر سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔
’’ بچو! شور بھی آلودگی کی ایک قسم ہے۔اُونچی آواز میں موسیقی سننا اور پریشر ہارن، گاڑیوں و موٹر سائیکلوں کی پاں پاں سے کانوںپر برا اثر پڑتاہے۔ شور کی آلودگی کے باعث بچے اوربزرگ بے آرام ہوجاتےہیں، مریضوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور طالب علموںاور تخلیقی کام کرنے والوں کی توجہ بٹ جاتی ہے۔ اس طرح شور بہت سی ذہنی بیماریوںکا سبب بنتا ہے ۔‘‘
باباجان نے اپنی بات ختم کی تو عمران بولا،’’اچھا! اب معلوم ہواکہ ماحولیات کا عالمی دن کیوں منایا جاتا ہے؟ ‘‘
’’کیوں منایا جاتا ہے؟‘‘ بابا جان نے اُس سے پوچھا۔
’’اس لیے کہ ہم آلودگی کے بارے میں جان کر اس کو ختم کرنے کا سوچیں!‘‘
’’شاباش بیٹا، آپ ٹھیک سمجھے۔پوری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے بہت سے لوگ کام کررہے ہیں۔ان سب کی کوششوں کے بارے میں ہمیں بھی معلوم ہونا چاہیے کیونکہ اگر ہر شخص آلودگی کم کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالے گا تو یہ مسئلہ جلدی حل ہوجائے گا۔ ‘‘
’’بالکل، بابا جان...ہم آئندہ اپنا کچرا ، کوڑے دان میں ڈالیں گے، گندگی نہیں پھیلائیں گے، پانی ضائع نہیں کریں گے اور نہ اسے جمع ہونے دیں گے اور ہاں ہم بالکل بھی شور نہیں کریں گے۔ ‘‘ آخری بات انہوں نے اس قدر زور سے کہی تھی کہ بابا جان اپنے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے،’’ بالکل ، میں آپ کی بات سمجھ گیا۔ ‘‘ اس پر سب مسکرا دیے۔پیارے بچو! جب ہر کوئی آلودگی کم کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالے گا تو ہمارا ماحول صاف ستھرا ہوجائے گا۔بیماریاں کم ہوجائیں گی اور ہر کوئی صحت و تندرستی سے لطف اٹھائے گا۔پرندے ہرے بھرے درختوں پر چہچہانے لگیں گے... ا س طرح ہماری زمین امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گی۔
تبصرے