ایتھلیٹ ا ولمپیئن حوالدار مرزا خان کی خدمات کے حوالے سے ایک تحریر
ایشین گیمز گولڈ میڈلسٹ ایتھلیٹ اولمپیئن حوالدار مرزا خان نے آرمی سے ایتھلیٹکس کا آغاز ایسے وقت میں کیا جب نہ تو کھلاڑیوں کو مطلوبہ سہولیات میسر تھیں اور نہ ہی باقاعدہ کو چنگ کا جدید انتظام۔ ان تمام تر مسائل کے باوجود انہوں نے 1954ء میں ایشین گیمز میں پاکستان کے کھیلوں کی تاریخ میں پہلا گولڈ میڈل جیت کر سبز ہلالی پرچم کو عالمی سطح پر سر بلند کیا۔ یہ وطن عزیز کے لیے ایک یاد گار لمحہ تھا کیونکہ قومی ترانے کی دھن دیار غیر میں گونج رہی تھی وہ اتنی بلندیوں تک پہنچے کہ ہر پاکستانی اس پر فخر کر سکتا ہے۔
حوالدار مرزا خان 17اپریل 1924ء کو ملک نادر خان اعوان کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق تحصیل فتح جنگ، ضلع اٹک کے گائوں جنگل ڈھوک ڈھولو سے تھا، انہیں شروع ہی سے علاقائی کھیل' پڑ کوڈی' سے بے حد لگائوتھا ۔وہ اکثر گائوں کے مقابلوں میں حصہ لیتے تھے۔مرزا خان نے ملازمت کا آغاز 17اپریل 1941ء کو انڈین برٹش آرمی بلوچ رجمنٹ سے کیا ۔ابتدائی ٹریننگ کے بعد ان کی یونٹ جھانسی انڈیا سے سیلون سری لنکا منتقل ہوگئی۔ انہوں نے وہیں سے ایتھلیٹک کا آغاز کیا، ان کے کمپنی کمانڈر میجر میکنز ی، جو فٹ بال کے کھلاڑی تھے، نے ان کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ مرزاخان نے انٹر کمپنی مقابلوں میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر تے ہوئے 400میٹر دوڑ کے ایونٹ میں پہلی پوزیشن حا صل کی۔کمپنی کمانڈر میجر میکنزی نے انہیں اپنی جیب سے 100روپے بطور انعام پیش کیے ۔انہوں نے ان کی کوچنگ پر خصوصی توجہ دی۔ انہیں ایسے مواقع فراہم کیے جسے مرزا خان اپنی کامیابیوں کی بنیاد سمجھتے تھے ۔قیام پاکستان کے بعد آرمی چمپیئن شپ میں عمدہ کارکردگی کی بنیاد پر قومی ٹیم کے تربیتی کیمپ کے لیے منتخب کر لیے گئے ۔آرمی اسٹیڈیم میں بریگیڈیئر رودھم کی سرپرستی حا صل رہی۔ انہوں نے مرزاخان کی صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے ان پر خصو صی توجہ دی جس کی بدولت مرزا خان نے عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کیا ۔بریگیڈیئر رودھم کو آرمی سپورٹس کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ 1952ء میں اولمپک گیمز کا انعقاد ہیلسنکی میں ہوا جن میں مر زا خان نے 400میٹر ہرڈلز دوڑ کے ایونٹ میں حصہ لیا مگر کامیابی حاصل نہ کر سکے ۔ ہیلسنکی اولمپک گیمز ان کے لیے تجربے کی بنیاد تھی۔ انہیں دنیا کے بہترین کھلاڑیوں سے مقابلہ کر نے کا موقع ملا ۔انہوں نے ہمت نہ ہاری اور ایک نئے جذبے کے ساتھ محنت جاری رکھی ۔
1954ء میں نیشنل گیمز کا انعقاد منٹگمری(اب ساہیوال) میں ہوا جن میں مرزا خان 400میٹر ہرڈلز دوڑ کے ایونٹ میں سلور میڈل جیتنے میں کامیاب رہے ۔سیکنڈ ایشین گیمز کے انعقاد سے قبل قومی ٹیم کا تربیتی کیمپ راولپنڈی میں لگا یا گیا ۔ بریگیڈیئر رودھم نے دوران تربیت ان پر خصو صی توجہ دی۔مرزاخان کو بلا کر انہیں ایک پیکٹ دیا جو وہ ان کے لیے انگلستان سے لائے تھے ۔ مرزا خان نے اسے کھولا تو اس میں سپورٹس شوز کا ایک نیا جوڑا تھاجسے دیکھ کروہ بہت خوش ہو ئے انہوں نے شوز کی قیمت کے بارے میں پوچھا تو کھیلوں سے بے پناہ محبت کر نے والے بریگیڈیئر رودھم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ قیمت یہ ہے کہ وہ ان شوز کے ساتھ وکٹری سٹینڈ پر ہو ں ۔مرزاخان نے ان کی اس خوا ہش کو سچ کر دکھایا ۔مقابلے کی گھڑی آن پہنچی۔ 1954ء میں سیکنڈ ایشین گیمز فلپائن کے شہر منیلا میں منعقد ہوئیں جن میں مرزا خان نے 400میٹر ہرڈلز دوڑ کے ایونٹ میں گولڈ میڈل جیت کر عالمی سطح پر شہرت حا صل کی ۔ ان مقابلوں میں مرزا خان نے نیا ایشین ریکارڈ بنانے کا اعزاز بھی حا صل کیا۔ پاکستان میں خوشی کی لہر دو ڑ گئی۔ پاکستان سے مبارکباد کا پہلا پیغام انہیں جنرل محمد ایوب خان کی طر ف سے بذریعہ ٹیلیگرام پہنچایا گیا۔جنرل ایوب خان نے مرزاخان کی شاندار کامیابی اورپاکستانی ٹیم کی جیت کا جشن منانے کے لیے قومی تعطیل کا اعلان کیا۔اسی سال کامن ویلتھ گیمز کینیڈا کے شہر وینکور میں منعقد ہوئیں جن میں مرزا خان نے 400میٹر ہرڈلز دوڑ کے ایونٹ میں حصہ لیا مگر کامیابی حاصل نہ کر سکے۔
1956ء میں پہلے انڈو پاک ایتھلیٹکس مقابلوں کا انعقاد انڈیا کے شہر نیو دہلی میں ہوا جن میں مرزا خان 400میٹر ہرڈلز دوڑ کے ایونٹ میں پاکستان کو گولڈ میڈل دلوانے میں کامیاب رہے ۔1956ء میں ہی نیشنل گیمز لاہور میں منعقد ہوئیں جن میں مرزا خان نے 400میٹر ہرڈلز دوڑ کے ایونٹ میں سلور میڈل جیتنے کا اعزاز حا صل کیا۔ انٹرنیشنل گولڈ میڈلسٹ ایتھلیٹ اور قومی ٹیم کے سابق کوچ آنریری کیپٹن (ر) عبدالکریم کی معلومات کے مطابق ٹریننگ کے دوران مرز ا خان کا مسل(Muscle) بری طرح متاثر ہو گیا تھا ۔میڈیکل ان فٹ ہو نے کی وجہ سے وہ کھیل کو مزید جاری نہ رکھ سکے۔ اس طرح وطن عزیز ایتھلیٹکس کے میدان میں ان کی خدمات سے محروم ہو گیا ۔تمام تر عسکری خدمات انجام دینے کے بعد مرزا خان 16اپریل 1963ء کو پاکستان آرمی سے ریٹائرڈ ہو گئے ۔ مرزا خان نے دوران سروس انڈین برٹش آرمی کی طرف سے دوسری جنگ عظیم میں جو ش و جذبے کے ساتھ میدان جنگ میں جرأت و بہادری کا مظاہرہ کیا ۔ ان کی یونٹ بمبئی ، مصراور یونان سے ہو تے ہوئے اطالوی/اٹلی کے محاذ پر جاپہنچی۔ دو سال تک وہ کھیل سے دور رہے، جب جنگ ختم ہوئی تو وہ واپس ہندوستان آگئے اور تقریباََ اڑھائی سال بعد کھیل کی طرف متوجہ ہوئے۔
4thسیف گیمز کا انعقاد 1989ء میں جناح سپورٹس سٹیڈیم اسلام آباد میں ہوا جس میں حوالدار مرزا خان کو ایتھلیٹکس کے میدان میں نمایاں کامیابیوں کے اعترا ف میں آفیشل گیسٹ کے طو ر پر مدعو کیا گیا ۔ 9th سیف گیمز2004ء میں اسلام آباد میں منعقد ہوئیں جس کی افتتاحی تقریب میں کھیلوں کی روایت کے مطابق جناح سٹیڈیم میں مشعل روشن کرنے کی تقریب منعقد ہوئی جس میں حوالدار مرزا خان کو خصوصی طور پر بلایا گیا تھا۔ انہوں نے مشعل کے ساتھ دوڑ کر مطلوبہ فاصلہ طے کرتے ہوئے مشعل پاکستان کی مایہ ناز ایتھلیٹ اولمپیئن محترمہ شبانہ اختر کو دی۔مرزا خان کو قومی سطح کے متعدد مقابلوں میں بطور ٹیکنیکل آفیشل خدمات انجام دینے کا اعزاز بھی حا صل ہے۔
مرزا خان بھرپور زندگی گزارنے کے بعد 26جنوری 2022ء کو اس جہان فانی سے کو چ کر گئے، ان کی نماز جنازہ ان کے آبائی گائوں میں ادا کی گئی جس میں جوائنٹ سروسز سپورٹس کے جنرل سیکرٹری آرمی سپورٹس کمیٹی ، پاکستان سپورٹس بورڈکی اعلیٰ شخصیات کے علاوہ کثیر تعداد میں عوام الناس نے شرکت کی۔ ان کی مرقد پر پھولوں کی چادریں چڑھائی گئیں اور بلندیٔ درجات کے لیے خصوصی طور پر دُعا کی گئی۔ مرزا خان بلاشبہ ملک و قوم کا عظیم سر مایہ تھے۔کھیل کے میدان میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔
مضمون نگار کھیلوں سے متعلق موضوعات پر لکھتے ہیں۔
تبصرے