کسی بھی ملک کی ترقی اور سلامتی میں آبادی ایک اہم کردار اداکرتی ہے۔ 80اور90کی دہائی کے مسائل اور آبادی کے گھمبیر معاملات آج کی بیسویں صدی سے کچھ مختلف تھے۔ اگر ہم غور کریں تو گزشتہ ایک صدی میں دنیا کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھی ہے اور اس کے اثرات ہرشعبۂ زندگی پر نظرآرہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی سے وسائل کی کمی اور اہم قومی امور بھی مصلحت کاشکار ہوجاتے ہیں اورتوازن کے پلڑے الٹ جاتے ہیں۔
ماضی میں جائیں تو پتہ چلے گاکہ صدر ایوب خان نے خاندانی منصوبہ بندی کو اس وقت منشور کا حصہ بنایا تھا جب تقریباً آبادی پانچ کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ اس سے متعلق جو کام اس وقت ہوا تھا اگر اس کو جاری رکھاجاتا تو آج ہم اس گھمبیرصورتحال کا سامنا نہ کررہے ہوتے۔
خاندانی منصوبہ بندی، روز افزوں آبادی کو کم کرنے کا ایک مصنوعی طریقہ کار سمجھا جاتاہے۔حکومتِ پاکستان بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل کے پیش نظرنہ صرف اقدامات کررہی ہے بلکہ اس کے لئے علیحدہ محکمے کا قیام بھی عمل میں آچکاہے جو لوگوں کوضبط تولید کے متعلق مشورے اور ادویات مہیاکرتاہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں آگہی کو وسیع پیمانے پر فروغ دینے کے باوجود اکثر پاکستانی خاندان اسے ایک حساس موضوع سمجھ کر بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور جو بہبود آبادی کے لوگ ان تک پہنچتے ہیں ان سے تعاون نہیں کرتے اوران معاملات کو بالکل ذاتی سمجھ کر اس پہ تبادلۂ خیال نہیں کرتے، نہ گھر کی عورتوں کوکرنے دیتے ہیں۔یہ صورتحال زیادہ ترپاکستان کے پسماندہ اور دور دراز کے علاقوں میں، مختلف صوبوں کی مختلف روایت کے مطابق، جہاں مردوں کی اجارہ داری ہوتی ہے، وہاں دیکھنے کو ملتی ہے اور وہاں بھی جہاں مرد،خاندانی زندگی کے بہت سے پہلوئوں پرمکمل اختیار رکھتے ہیں۔ان اختیارات میں مالیات سے لے کر ازدواجی تعلقات تک آتے ہیں۔
خاندانی منصوبہ بندی کی حمایت کرنے کے لیے اور تمام معلومات کو سمجھنے سازگار ماحول پیداکرنے اور معلومات بہم پہنچانے والوں سے تعاون کرنے کے لیے پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ نے اپنی حکمت عملی میں مذہبی رہنمائوں کو خاص طور پر شامل کیاہے۔ ان کی شمولیت کا مقصد بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ بڑھنے والے مسائل اور کم ہونے والے والے وسائل سے باخبر رکھنا ہے، خاندانی منصوبہ بندی کو آگہی پروگرام کے ذریعے تیزکرناہے۔ یہ تمام کارروائی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے جو کہ تمام صوبائی حکومتوں اور سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیارکیاگیاہے۔ مختلف صوبوں میں اس حکمت عملی کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔2022 میں50لاکھ کے لگ بھگ آبادی والے ضلع گوجرانوالہ کے ڈسٹرک پاپولیشن ویلفیئرآفیسر نے خوبصورت مثال پیش کی۔ اُن کی ایماء پر صحت اور آبادی کی بہبود کے محکموں نے کام کرنے کا بیڑا اٹھایاکہ مساجد سے لے کرمختلف سیمینارز تک خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق مثبت پیغامات پھیلائے جاسکیں۔اسی ضمن میں پوپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ نے خاندانی منصوبہ بندی پر ایک وکالت سیشن رکھاجس میں حیرت ناک طور پر تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے تیس سے زائد مذہبی رہنمائوں نے شرکت کی۔
آبادی کے دھماکہ خیز مسائل کی سنگینی کے متعلق کہاگیا کہ ہم بحیثیت معاشرہ سماجی، معاشی اور ترقیاتی چیلنجز سے گزر رہے ہیں جو آبادی میں بے تحاشا اضافے سے مستقبل کو مزید پیچیدہ بنادیںگے، پھر علماء اور آئمہ کرام سے درخواست کی گئی کہ وہ اس مسئلے پر نمازجمعہ اور دیگرمذہبی سیمینارز جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے خاندانی منصوبہ بندی اور بچوں کی پیدائش کے فرق کے بارے میں معلومات فراہم کریں اور اسے مذہبی خطبات کا باقاعدہ حصہ بنائیں۔
اجلاس میں شریک مذہبی رہنمائوں نے زچہ وبچہ کی صحت کو بہتر بنانے پر خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقوں کے اثرات پرغورکرتے ہوئے اسلامی قوانین کی روشنی میں گفتگو اور بحث ومباحثہ کرتے ہوئے مثبت اور پرجوش کردار اداکیا۔ وہاں موجود مختلف ماسٹرز ٹرینرز اور مذہبی سکالرز نے کچھ یوں کہاکہ
''اسلام ماں اور بچے کی صحت اور تندرستی پر بہت زور دیتاہے، بچوں کی پیدائش کے درمیان وقفہ ماں اور بچے کی بہترین صحت اور آنے والی نسلوں کی نشودنما میں اہم کردار اداکرتاہے اس سلسلے میں خاندانی منصوبہ بندی میں خواتین کی رائے کو انتہائی اہمیت دی جانی چاہیے''۔خاندانی منصوبہ بندی کو وسائل سے ہم آہنگ کرنے کی تلقین بھی کی گئی۔
آج دستیاب وسائل اور آبادی کے درمیان توازن پیداکرنے کا وقت ہے۔ وسائل کی کمی کے نتیجے میں معاشی ترقی میں کمی ہوگی۔علمائے کرام کو اسلامی معاشرے کا اہم ستون سمجھاجاتاہے لہٰذا انہیں معاشرے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کو اپنانے کیلئے بیداری پیدا کرنا ایک اہم شعبہ اور فریضہ ہے۔
ایسے وکالت سیشنز کا انعقاد ہر علاقے میں صوبائی اور ضلعی سطح پر ہونا ضروری ہے جہاںمذہبی رہنما اپنے خطبات میں خاندانی منصوبہ بندی کے پیغامات پہ زور دینے میں تعاون کا یقین دلائیں،پاپولیشن ویلفیئرڈیپارٹمنٹ مقامی مذہبی رہنمائوں کی ذہنی سرگرمیوں اور کیمپوں میں اپنے منصوبے کا اشتراک کرے تاکہ علاقے میں مذہب سے متعلق خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت کو اجاگرکیاجاسکے اور ذہنی خلفشار دور ہوسکے۔ مذہبی رہنمائوں کا شعوری منصوبہ بندی کاپیغام پھیلانے کا اعتماد دلانا خوش آئند ہے اسی عمل سے ایک بہتر تعلیم یافتہ قوم بن سکے گی۔
تہذیب وروایت کے علاوہ مذہب کا انسانی رویوں پر بہت اثرہوتاہے۔ اس بات کا سب کو پختہ یقین ہے کہ مسلسل کوششوں سے ہم ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کو برقرار رکھنے کے لیے غلط فہمیوں اورانتظامی رکاوٹوں جیسی مشکلات پر قابو پالیں گے اس میں علمائے کرام کا کردار اہم کڑی ثابت ہوگا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ملک کی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پاکستان کی فلاح وبہبود تعلیم ،روزگار کے مواقع اور صحت کی دیکھ بھال کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔
آبادی کا ناگ جس طرح ہمیں ڈس رہاہے اس سے متعلق زمینی حقائق ہمیں خطرناک صورتحال سے آگاہ کررہے ہیں، معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ جو انتشار معاشرے کی صحت مند آب وہوا کو زہریلا کررہاہے اس کے لیے ہمیں اپنی آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم کرنالازم ہوچکاہے۔ ہسپتالوں میں فرش پہ بیٹھے درد سے چلاتے ہوئے افراد، دوائیوں کی بروقت فراہمی سے محروم مریض اور ان کی اموات، ہرگیارہ ماہ کے بعد جنم دینے کے لیے تیار ایک عورت لاغر اور بیمار بچوں کو جنم دے کر موت کے راستے کا مسافر ہوتی ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی میں ایک گھر کے دس افراد ایک کمانے والامزدور اور شام کونشہ کرکے زندگی کے تکلیف دہ حقائق سے نظریں چرانے والا ایک بے بس مرد، بچوں کا بلکنا، عورت کا روٹی کپڑے کا مطالبہ کرنا، پھر لڑائی جھگڑا، بچوں کے اندر پیدا ہونے والا خوف اور نجانے کیاکچھ! شاید اتناکچھ کہ ہم اندازہ بھی نہیں لگاسکتے کہ ایسے گھرانوںمیں سانس لینے والوں پہ کیاکیا قیامتیں گزرتی ہیں۔ شرح اموات میں اضافہ، بیماری کی طوالت اورمعذوری کی شرح میں اضافہ، تعلیمی پسماندگی اور شعور کی کمی سے روزگار حاصل کرنے کے مسائل نے غیراخلاقی اور غیرشرعی قدم اٹھانے کے اسباب پیدا کیے، مجرم بنے اور عزت دار گھرانے کے ماتھے پہ کلنک کا ٹکہ بن گئے، دھتکار دیئے گئے اور مستقل نشئی یا مجرم بن کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے جاپہنچے، یوں زندگی بے کار وبرباد ہوتی چلی گئی۔
ہمارا معاشرہ انسان دوست معاشرہ بھی اس لیے نہیں رہا کہ ہرکوئی آبادی بڑھنے کے مسائل سے لڑرہاہے۔ وسائل پیداکرنے کی جنگ میں حرص و ہوس کاجوار بھاٹا کہیں تھمنے کانام نہیں لے رہا۔ کل کی فکر نے انسان کو انسان دوست نہیں رہنے دیا۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے بسا اوقات ہماری نوجوان نسل پاکستان سے باہرکسی بھی ملک میں جانے کے لیے کوئی بھی غلط غیرقانونی راستہ اپناکر اپنی جان خطرے میں ڈالنے سے نہیں ڈرتی۔ یاد رکھیے کہ جب تک ہم خاندانی منصوبہ بندی کی حکمت عملی پر حکومتی سطح، معاشرتی سطح اور خاندانی سطح پر ایک سوچ اورعقیدے کے ساتھ عمل پیرا نہیں ہونگے تو بیان کردہ حقائق سے ہماری نوجوان نسل میں مایوسی پیدا ہوتی رہے گی۔
پاکستان کا شمار اگرچہ ترقی پذیر ممالک میں ہوتاہے لیکن یہاں آبادی میں کمی کے بجائے اضافے کانمایاں رجحان نظرآتاہے اور ہرسال چھتیس لاکھ افراد کا اضافہ ہورہاہے۔عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات مثلاً رہائش، تعلیم، صحت اور روزگار فراہم کرنے کے لیے جتنے بھی منصوبے بنائے جاتے ہیں اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں کیونکہ آبادی کا دیوملکی وسائل کو تیزی سے نگلتاجارہاہے۔شاعر نیاز سواتی نے شعری انداز میں کیا خوبصورت مثال پیش کی ہے کہ
دوسرے شعبوں میں ہم جُزرس بھی ہیں اور سست بھی
پر نہیں پیدائشِ اولاد میں ہرگز بخیل
قومی یکجہتی کا ہوگا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت
کردیا ہے ہم نے بچوں میں وطن کو خود کفیل
مضمون نگار ایک قومی اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
[email protected]
تبصرے