سپاہی رانا محمد نعمان کے حوالے سے نسیم الحق زاہدی کا مضمون
وطن سے عشق کا ہونا ایک فطری جذبہ ہے جو ہرانسان بلکہ ہرذی روح میں پایا جاتا ہے۔بہت سی احادیث سے وطن کی محبت پر رہنمائی ملتی ہے،ہجرت کرتے وقت رسول اکرمۖ نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:''تو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے!اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سواکہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔''(ترمذی)
گائوں کالم شاہ تحصیل وضلع مظفر گڑھ کا سپاہی رانا محمد نعمان آزاد کشمیر رجمنٹ اپنی دھرتی سے عشق کا حق ادا کرتے ہوئے شہادت کا جام پی کر ہمیشہ کے لیے اپنا نام عاشقان وطن کی فہر ست میں لکھوا گیا۔اللہ تعالیٰ اُن کی شہادت کو قبو ل فرمائے۔ (آمین) سپاہی رانا محمد نعمان 10مارچ2001ء کو گائوں کالم شاہ تحصیل وضلع مظفر گڑھ کے راجپوت(رانا)خاندان کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کے والدرانا عبدالفر مان کی شاہ جمال شہر میں چھوٹی سی دوکان ہے ۔شہید کی ایک بہن اور چار بھائی ہیں،وہ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے ۔ان کے چھوٹے بھائی رانا محمد آصف بتاتے ہیں کہ سپاہی رانا محمد نعمان نے ابتدائی تعلیم گائوں کالم شاہ سے حاصل کی اور2016ء میں گورنمنٹ ہائی سکول شاہ جمال شہر سے میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں میں پاس کیا ۔بیمار رہنے کی وجہ سے ان کا ایک سال ضائع ہوگیا۔2019ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج شاہ جمال سے ایف ایس سی کا امتحان بھی اچھے نمبروں میں پاس کیا ۔رانا آصف بتاتے ہیں کہ انہیں بچپن ہی سے فوجی بننے کا جنون کی حد تک شوق تھا ،والدین اور بڑے بھائی کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنیں کیونکہ بڑے بھائی میڈیکل لیب ٹیکنیشن ہیں مگر ان کی پہلی اور آخری خواہش فوجی بننا تھی،سب نے شہید کی خواہش کا احترام کیا اور اس طرح وہ اپنے بچپن کے شوق کی تکمیل کے لیے 21اکتوبر2019 کوملتان فوج بھرتی سنٹر چلے گئے۔ کہتے ہیں کہ اگر لگن سچی ہو تو اللہ تعالیٰ منزل ضرور دیتا ہے ۔کروناوباء کی وجہ سے طویل انتظار کے بعد 2020ء کے آخر میں بھائی کا فوج میں سلیکشن کالیٹر آگیا۔ وہ فوج میں سلیکٹ ہونے پر اتنا خوش تھے کہ ان کی خوشی کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ بھائی آرمی ٹریننگ سنٹر مانسہرہ روانہ ہوئے تو وہ پہلی بار گھر سے اتنا دور جارہے تھے، سب گھر والے خاص طور پر والدہ اور بہن بہت ہی زیادہ اداس تھیں مگران کی خوشی کی خاطر بار بار اپنے آنسو صاف کررہی تھیں ۔والد صاحب اور ہم بھائیوں اور سارے خاندان نے بڑی محبتوں اور دعائوں کے ساتھ بھائی کو روانہ کیا۔اُن کے جانے کے بعد کئی دنوں تک گھر میں اداسی کی فضا چھائی رہی ۔والدہ بات بات پر بھائی کو یاد کرتیں کیونکہ وہ والدہ کے بہت لاڈلے تھے ۔دوران ٹریننگ وہ کبھی کبھار گھر رابطہ کرتے تھے وہ بہت خوش تھے ۔انہیں اپنے وطن سے والہانہ عشق تھا۔ وہ ہمیشہ وطن کی سلامتی اور شہدا ء وطن کی باتیں کرتے تھے ، کم سن شہید راشد منہاس ان کے پسندیدہ ہیروتھے۔ وہ اکثر والدہ سے کہتے کہ ''امی جان میرے لیے دعا کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے نصیب میں شہادت لکھ دے کیونکہ شہید زندہ ہوتے ہیں اور شہادت بہت بڑا مقام ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا ۔''وہ اس دعا کے لیے والدہ سے بار باراصرار کرتے ،والدہ ایسی باتوں سے رنجیدہ ہوجاتیں اور کہتیں کہ ''نعمان اللہ تجھے لمبی عمر عطا کرے، پہلے چندسال اپنے قوم وملک کی حفاظت کا فرض تو نبھا لے پھر ایسی دعا کرونگی ''مگر اس بھولی ماں کو کیا علم تھا کہ اس کا بیٹا وطن سے عشق کی وہ حدیں پار کرچکا ہے جہاں اپنی جان کی کوئی فکر باقی نہیں رہتی۔
سپاہی رانا محمد نعمان شہیدکے بڑے بھائی رانا محمد فرحان بتاتے ہیں کہ شہید ایک بہت ہی پیارا اور انتہائی ملنسار انسان تھا۔ جو بھی اس کے پاس چند لمحے گزار لیتا تھا وہ اسی کا ہوجاتا ۔پانچ وقت کا پکا نمازی اور ایک سچا مسلمان تھا۔ ٹر یننگ کے بعد رانا محمد نعمان کی پہلی پوسٹنگ آزاد کشمیر رجمنٹ ڈیرہ غازی خان میں ہوئی ۔سب خوش تھے کہ بھائی قریب آگیا ہے ،بالخصوص والدہ اور بہن بہت زیادہ خوش تھیں کیونکہ اب نومی ہر پندرہ دن کے بعدگھر چکر لگا لیتا تھا ۔بھائی بتاتے ہیں کہ شہید کو نمکین سویاں بہت پسند تھیں ۔والدہ اس کے آنے سے پہلے ہی سویاں پکاکررکھتیں ،جس دن وہ گھر آتا اس دن گھر میں شادی کا سماں ہوتا، ہم سارے کزنز اکٹھے ہوتے ، نعمان بھائی ہمیں فوج کے جوانوں کی بہادری کے قصے سناتے اور بتاتے کہ انہیں ہر وقت کس طرح ہر قسم کی صورت حال کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے ۔بھائی کو چکن پلائو بھی کافی پسند تھا ،والدہ ایک بڑے پتیلے میں چکن پلائو بناتیں اور ہم سب کزنز مل کر کھاتے ۔بھائی والدہ کے سامنے بچوں کی طرح بیٹھ جاتے اوروالدہ کے ہاتھ سے کھانا کھاتے ،جس پر سب گھر والے کہتے کہ نومی تو ابھی تک بچہ ہے ۔
شہید کے چھوٹے بھائی رانا محمد آصف بتاتے ہیںکہ شہید محمد نعمان اس قدر احساس کرنے والے انسان تھے کہ بچپن میں جب سکول میں کسی بچے کے پاس لنچ بکس نہیں ہوتا تھا تو وہ اپنا ٹفن،اپنے حصے کاکھانا اس کو کھلا دیتے اور خود بھوکا رہ لیتے۔وہ جب شدید بیماربھی ہوتے تو اپنی تکلیف پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اور کہتے کہ میںنے سنا ہے کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ''بخار کو گالی مت دو!یہ گناہوں کو اس طرح دور کرتا ہے جس طرح آگ لوہے کی میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔''وہ پورے خاندان میں سب سے زیادہ ہنس مکھ انسان تھے ۔رانا محمد آصف یہ بتاتے ہوئے سسکیاں لے کر رونے لگے اور بتایا کہ ایک مرتبہ میں اچانک شدید بیمار ہوگیا، حالت اس قدر خراب ہوگئی کہ بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی۔ بھائی محمد نعمان اپنی شہادت سے پندرہ دن پہلے جب چھٹی پر گھر آئے تو میری حالت دیکھ کر کافی پریشان ہوئے اور جائے نمازپر بیٹھ کر میرے لیے دعا کرنے لگے ،میں نے ان کو اپنے لیے روتے دیکھا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے میری صحت یابی کے لیے دعا کررہے تھے ۔کافی دیر بعد جائے نماز سے اٹھے اورمیرے پاس آکر کہنے لگے تم بہت جلد ٹھیک ہوجائوگے دیکھ لینا ،اللہ تعالیٰ کسی کو والدین اور بہن بھائیوں کا دکھ نہ دکھائے،اور خود ہمیں ہمیشہ کی جدائی کا دکھ دے گئے۔
شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ ابھی شہید کو فوج میں بھرتی ہوئے 22ماہ ہی ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعا کو شرف قبولیت سے نواز دیا، مورخہ 21جولائی 2022ء رات ساڑھے بارہ بجے سپاہی رانا محمد نعمان ساتھیوں سمیت ڈیرہ غازی خان کے علاقے فورٹ منرومیں رائونڈ (گشت)پر تھے کہ اچانک دہشت گردوں نے حملہ کردیا ۔جوانوں نے بھر پور جواب دیا ،اس حملے میں بھائی محمد نعمان کو دوگولیاں سینے پر اور ایک گولی چہرے پر لگی جس کی وجہ سے بھائی محمد نعمان شدید زخمی ہوگئے ،سینئرز بتاتے ہیں کہ وہ خود ایمبولینس میں بیٹھے اور ایک سینئرنے جب ان کے بوٹ اتارنا چاہے تو محمد نعمان نے انہیں منع کردیا اور اپنے بوٹ خوداپنے ہاتھوں سے اتارے ۔خون زیادہ بہہ جانے اور سانس کی نالی میں جانے کی وجہ سے وہ جام شہادت نوش فرماگئے۔(اناللہ واناالیہ راجعون)
صبح دس بجے کے قریب والد صاحب کوبھائی کی یونٹ کی طرف سے فون آیا کہ آپ کا بیٹا شہید ہوچکا ہے اور ہم اس کا جسد خاکی لے کر آرہے ہیں ۔والد صاحب نے جب یہ خبر والدہ کو دی تو والدہ نے اونچی آواز میں کہا کہ' اے اللہ میں تیری رضا میں راضی ہوں اور تیرا شکر ادا کرتی ہوں کہ تو نے مجھے شہید کی ماںہونے کے اعزاز سے نوازا ہے۔' جس دن بھائی نے چھٹی پر گھر آنا تھا،اسی دن وہ شہید ہوگئے۔ رونا توایک فطری عمل ہے اور وہ بھی ایک21سالہ جوان بیٹے کی۔اس پاک دھرتی کی عظمت اس بوڑھے باپ سے جاکرپوچھیے جس نے اپنے جوان بیٹے کی لاش کو کندھا دیا ہو،اس ماں سے پوچھیے جو کھانا بنائے اپنے بیٹے کی آنے کی راہ تک رہی ہو ،اس بہن سے پوچھیے جو اپنے بھائی کے سر پر دولہے کا سہرا سجانے کا خواب اپنی آنکھوںمیں سجائے بیٹھی ہو ،ان بھائیوں سے جاکر پوچھیے جنہوں نے اپنا جوان بھائی کھویا ہو۔شہید کے بھائی کا کہنا ہے کہ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے بھائی نے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے بہادروں کی طرح سینے پر گولیاں کھائیں ،اپنی جان دیدی مگر وطن پر آنچ نہیں آنے دی ۔ دن دو بجے کے قریب سبز ہلالی پرچم میں لپٹے شہیدسپاہی رانا محمد نعمان کا جسد خاکی گھر شاہ جمال لایا گیا، لوگوں نے منوں پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے شہید کااستقبال کیا۔ شام پانچ بجے فوجی افسران ،سیاسی ،سماجی شخصیات کے علاوہ ہزاروں سوگواران کی موجودگی میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ وطن کے عاشق کو وطن کی مقدس مٹی کے سپرد کردیا گیا ۔شہید سپاہی رانا محمد نعمان کا جنازہ شاہ جمال کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا اور وہ اپنے گائوں کالم اور شاہ جمال شہرکے پہلے شہید ہیں۔ اللہ تعالیٰان پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔آمین ۔
شہید کا یہ مقام کیسا افق کے اس پار جاکر دیکھو
حیات تازہ کے کیا مزے ہیں ذرا گردن کٹا کے دیکھو
مضمون نگارمختلف قومی اخبارات اور رسائل کے لیے لکھتے ہیں اور متعدد کتب کے مصنف ہیں-
[email protected]
تبصرے