کشمیرپالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کی روشنی میں مرتب کردہ مضمون
کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ مظفرآباد نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر رپورٹ جاری کر دی۔ 65 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں 05 اگست2019 سے لے کریکم مئی2024 تک کے بھارت کے غاصبانہ اقدامات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ڈائریکٹر کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان کے مطابق بھارت، مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کی ہیت کو بدلنے، حق خودارادیت کی جدوجہد کو دبانے اور کشمیریوں کے تشخص کو مٹانے کے لیے ریاستی طاقت کا وحشیانہ استعمال کر رہا ہے۔ 2023 تک بھارتی نے 6.15 ملین لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے ڈومیسائل جاری کیے ان میں بھارتیوں کے علاوہ وہ 1.7 ملین وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بھارت اور مشرقی پاکستان سے مختلف ادوار میں کشمیر میں رہائش پذیر ہوئے، ان میں ایک بڑی تعداد بھارت سے کشمیر میں آئے ہوئے مزدوروں کی بھی ہے۔ ڈومیسائل کے قانون کی تبدیلی کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ مقامی کشمیری باشندوں کو اقلیت میں بدلنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کشمیریوں سے ان کا حق نمائندگی چھیننے کے لیے جہاں بھارتیوں کو ووٹر بنایا جا رہاہے وہیں انتخابی حلقوں میں اضافہ اور ردوبدل، آبادی کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے انتخابی حلقے بنانا بھی شامل ہے۔ 2019 میں مقبوضہ کشمیر کے ووٹران کی تعداد 76 لاکھ تھی جبکہ یکم جنوری 2024 تک ان میں 11 لاکھ کا اضافہ ہو گیا کیونکہ ان میں بھارتی ووٹرز بھی شامل کیے گئے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی ضلعی اور تحصیل انتظامیہ کی اکثریت بھارت سے غیر مسلم افسران پر مشتمل ہے۔ ملازمتوں کے اشتہار میں نئے ڈومیسائل قانون کے بھارتی بھی اہل ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر کی جیلوں میں 3629 قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ قیدیوں کی تعداد 5 ہزار سے زائد ہے۔ جیلوں میں تشدد اور طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی حریت قیادت اور سیاسی قیدیوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں۔ حریت رہنما سیدعلی گیلانی، اشرف صحرائی، الطاف احمد شاہ، افضل گورو،مقبول احمد سمیت کئی رہنما زیر حراست شہید ہوئے۔
بے روزگاری کا بھارت میں تناسب 7.8 فیصد ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں یہ تناسب 23.1 فیصد ہے۔بھارت نے کشمیر میں قبائلی، زبانوں اور علاقوں کی بنیاد پر تقسیم کو پیدا کرنے اور اس کو وسیع کرنے کے لیے سال 2023 میں شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کے حوالہ سے قانون سازی کرکے ان میں پہاڑی قبائل کو شامل کیا۔ ان قبائل کو شامل کرنے کا ایک مقصد بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے ووٹ بڑھانا بھی ہے۔ اس طرح ان کے لیے اسمبلی میں نشستیں بھی مختص کی گئی ہیں۔بجلی کی لوڈشیڈنگ سے لوگوں کے کاروبار اور مقامی صنعتیں زبوں حالی کا شکار ہیں، مقبوضہ کشمیر میں صرف دن میں دو یا تین گھنٹے بجلی دستیاب ہوتی ہے۔کشمیر میں بے زمین لوگوں کی آبادکاری کے منصوبے کا اعلان کیا گیاجس کے مطابق 199,550 نئے گھر بنائے جانے ہیں جبکہ2021 کے ایک سروے کے مطابق کل بے گھر افراد کی تعداد 19 ہزار ہے۔ اس منصوبے کا مقصد بھی بھارت سے لوگوں کو لا کر مقبوضہ کشمیر میں آباد کرنا ہے۔
بھارت کی حکومت نے آل پارٹیز حریت کانفرنس سمیت تمام آزادی پسند سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا کر ان کے دفاتر کو تحویل میں لے لیاہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نہ صرف حریت قیادت بلکہ ان تمام کشمیریوں کی جائیدادیں اور مکان ضبط یا تباہ کیے جا رہے ہیں جو بھارتی حکومت کے مظالم کے خلاف آواز بلندکرتے ہیں۔ سید علی گیلانی، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، ظفر اکبر بٹ، قاضی یاسر، محمد اقبال میر، عبداللہ شاہ، فاطمہ شاہ اور ان تمام مہاجرین کی جنہوں نے آزاد کشمیر کی طرف ہجرت کی، جائیدادیں ضبط کی جا چکی ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے عوام کی معیشت کو اور کاروبار کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ 2019 کے آخری چار ماہ میں کشمیریوں کو تقریباً2.4 بلین امریکی ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔ 5 لاکھ کے قریب لوگوں کا روزگار متاثر ہوا۔کشمیری کرافٹ کا کاروبار امرتسر منتقل کیا جا رہاہے۔ کشمیر میں ٹیکسز میں بے تحاشا اضافہ کیا گیاہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی تمام حریت قیادت جیلوں میں ہے۔ مسرت عالم بٹ، یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، ڈاکٹر قاسم فکتو، ایاز اکبر بٹ، نعیم احمد خان،فہمیدہ صوفی، پیر سیف اللہ، معراج الدین کلوال، شاید السلام، مشتاق السلام، ڈاکٹر حمید فیاض، نور محمد فیاض، محمد یوسف فلاحی، عبدالاحد پارے، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، غلام قادر بٹ، سید شاید یوسف، سید شکیل یوسف، محمد رفیق گنائی، حیات احمد بٹ، عمر عادل ڈار، فیاض حسین جعفری، سرجان برکتی، محمد یاسین بٹ، سلیم نانجی، ظہور احمد بٹ، محمد ایاز اکبر جیلوں میں بنا کسی جرم کے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز، صحافی آصف سلطان، عرفان مجید اور تقریباً 40 خواتین صرف انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز اٹھانے پر سالہا سال سے جیلوں میں ہیں۔
حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے ایک نئی پالیسی بنائی جس کے مطابق کسی بھی سرکاری ملازم کے خاندان سے بھی اگر کوئی بھارت کی حکومت کے غیر قانونی اقدامات پر کسی بھی طریقہ سے کوئی آواز بلند کرے گا اس کو بغیر انکوائری نوکری سے فارغ کر دیا جائے گا۔ بھارتی حکومت کے اعداد وشمار کے مطابق اس وقت تک 60 کے قریب سرکاری ملازمین کو برطرف کیا جا چکا ہے جبکہ اصل تعداد اس سے کئی گنازائد ہے۔چھاپوں اور تلاشیوں کے نام پر تشدد، بے حرمتی اور اجتماعی سزا لوگوں کو دی جا رہی ہے، فیک انکاؤنٹرز میں سیکڑوں نوجوان شہید کیے جا چکے ہیں۔ پولیس اور فوج کی چوکیوں میں روزانہ دو وقت حاضری پر نوجوانوں کو پابند کر کے ان کا ذر یعۂ معاش ختم کر دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں 05 اگست 2019 سے 5 مئی 2024 کے واقعات کا ایک اجمالی جائزہ بھی پیش کیا گیاہے۔ رپورٹ کے مطابق اس عرصہ میں 867 عام شہریوں کو شہد کیا گیا۔ 2400 کو ٹارچر کے ذریعہ زخمی کیا گیا۔ 23,415 افراد کو گرفتار رکھا گیا، 1116 جائیدادیں تباہ کی گئیں اور خواتین کی آبروریزی کے133 واقعات رپورٹ ہوئے۔
مضمون نگار قومی و عالمی امور پر لکھتے ہیں۔
تبصرے