پاکستان کی بگڑتی ہوئی معیشت کے پیش نظر سول اور عسکری قیادت نے محسوس کیا کہ پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کے لیے کچھ ایسے اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں جن سے معیشت کو فوری طور پر سنبھالا دیا جا سکے ۔ اس مقصد کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی)کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ ایس آئی ایف سی کا ایک مقصد یہ تھا کہ زراعت ، معدنیات و کان کنی، توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دفاعی پیداور جیسے پانچ اہم شعبوں پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے ان کی ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں ۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک چھت کے نیچے جمع کیا جائے تاکہ سرمایہ کاری کے ضوابط اور طریقہ کار میں آسانی پیدا کرتے ہوئے سرمایہ کاروں کے لیے سہولت پیدا کی جا سکے۔ ماہرین کے مطابق یہ اقدامات قومی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو اپنی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
ایس آئی ایف سی میں خصو صی توجہ کے مستحق قرار دئیے جانے والے پانچ شعبوں میں سے دفاعی پیداوار کا شعبہ ملٹری کے سپردکر دیا گیا جبکہ باقی چار شعبے ایس آئی ایف سی کو سونپ دیے گئے ۔ گزشتہ ایک برس سے ان تمام شعبہ جات کی ترقی کے لیے خاطرخواہ اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن آج ہم زرعی شعبے کے حوالے سے گفتگو کریں گے ۔
زرعی شعبے کی تعمیرو ترقی کے لیے'' گرین پاکستان انیشی ایٹو'' پروگرام لانچ کیا گیا ۔ اعدادو شمار کے مطابق وطنِ عزیز کا جغرافیائی رقبہ 79 ملین ہیکٹر ہے جس میں سے 15.7 ملین ہیکٹر رقبہ زیر کاشت ہے جبکہ 8.2 ملین ہیکٹر سے زائد رقبہ غیر آباد ہے۔ اور اس میں سے لاکھوں ایکڑ رقبہ ایسا ہے جو کاشت کے قابل ہے لیکن ابھی تک اس کو زیر کاشت نہیں لایا جا سکا۔ لہٰذا غیر آباددشت و صحرا کی صورت میں پڑی ہوئی دو سے تین ملین ایکڑ اس زمین کو زیر کاشت لا کر صحرا کو سرسبز و شاداب بنانے کا اہم مقصد ایس آئی ایف سی کی ترجیح ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے ابتدائی طور پر 40 لاکھ ایکڑ زمین جو زیادہ تر چولستانی علاقہ جات اور ریلوے کے رقبہ جات پر مشتمل تھی ایس آئی ایف سی کو مہیا کر دی گئی ۔ ایس آئی ایف سی نے اس زمین کے ایک ایک ہزار ایکڑ کے بلاک بنائے اور یہ اصولی فیصلہ کیا گیا کہ کسی بھی سرمایہ کار کو کم از کم ایک ہزار ایکڑ زمین دی جائے گی تاکہ وہ اس زمین پر سرمایہ کاری کر کے اسے آباد کرے اور پھر اس زمین سے زرعی پیداوار حاصل کر کے ملک کی مجموئی قومی پیداوار میں اضافہ کرے۔ گرین پاکستان انیشی ایٹو کے مطابق یہ زمین بدستور حکومت پنجاب کی ملکیت رہے گی اور سرمایہ کاروں کو یہ زمینیں محض 30 سال کے لیے لیز پر دی جا رہی ہیں۔
گرین پاکستان انیشی ایٹو کو لانچ کیے ہوئے تقریباً ایک سال کا عرصہ ہونے کو ہے۔ آج سے ایک سال قبل جب اس پروگرام کو آگے بڑھایا گیا تو اس میں بہت سی پیچیدگیاں اور عملی مسائل درپیش تھے ۔ خاص طور پر قانونی معاملات ایسے تھے جن کو حل کیے بغیر گرین پاکستان کے ایجنڈے کو موثر طور پر آگے بڑھانا مشکل تھا ۔ لہٰذا نہایت احتیاط کے ساتھ قانونی معاملات کا جائزہ لیا گیا اور مختلف قانونی فورمز سے منظوری کے بعد انہیں سرمایہ کاروں کے لیے آسان بنا دیا گیا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران زیادہ تر قانونی پیچیدگیاں حل کر لی گئی ہیں اور اب امید کی جا رہی ہے کہ آنے والے سالوں میں گرین پاکستان انیشی ایٹو کامیابی سے آگے بڑھے گا۔
گرین پاکستان انیشی ایٹو کے تحت کیے گئے اب تک کے اقدامات میں سے لینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم ایک قابل ذکر پیش رفت ہے۔ اس سسٹم کے تحت پاکستان بھر میں دستیاب مواد کو جمع کر کے ایک ایسا ڈیجیٹل سسٹم بنا دیا گیا ہے جس سے کاشتکاروں کو نہ صرف اپنی زمینوں کی زرخیزی کے بارے میں معلومات مل سکتی ہیں بلکہ وہ اپنے مخصوص علاقے میں موسم کے بارے میں بھی درست معلومات حاصل کر سکیں گے۔ جب کاشتکار لینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم کی ویب سائٹ پر رجسٹر ہو تا ہے تو یہ سسٹم کاشتکار کو ہفتہ وار رپورٹ مفت فراہم کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ کاشتکار کی فصل کو کتنے پانی کی ضرورت ہے، کون سی کھاد کتنی مقدار میں چاہیے ، یہ سسٹم ان تمام معاملات میں کاشتکار کی رہنمائی کر تا ہے ۔
گرین پاکستان انیشی ایٹو میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ زرعی ترقی کے اہداف ، زرعی ایکو سسٹم اور حیاتیاتی تنوع (بائیو ڈائیورسٹی) کو ڈسٹرب کیے بغیر حاصل کیے جائیں۔ مزید یہ کہ اس پروگرام کے تحت بہتر بیجوں کی پیداوار کے لیے بھی کام ہو رہا ہے۔
گرین پاکستان انیشی ایٹو کی گزشتہ ایک سال کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو اس پروگرام کے تحت پاکستان میں 50 ہزار ایکڑ پر گندم کاشت کی گئی ہے جس سے گندم کی مجموعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے ۔ واضح رہے کہ یہ 50 ہزار ایکڑ لق و دق صحرا اور غیر آباد زمینوں پر مشتمل تھے جس کی نئی آباد کاری کر کے زرعی پیداوار حاصل کی گئی ہے۔ اگلے سالوں میں یہ رقبہ بڑھے گا جس سے زرعی پیداوار میں مزید اضافہ ہو گا۔
گرین پاکستان انیشی ایٹو میں قدرتی وسائل کے منصفانہ استعمال کے لیے بھی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ نئے آباد کاروں کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ کھلا پانی دینے کی بجائے اپنی فصلوں کو قطرہ قطرہ آبپاشی (Drip Irrigation)سے ہی سیراب کریں گے۔ اس سے پانی جیسے قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ کھاد کی بھی بچت ہوگی ۔ سرمایہ کار کاشتکاری کے جدید طریقوں کو بروئے کا لا رہے ہیںجس سے لاگت کم اور پیداوار میں اضافہ ہو گا۔ کم لاگت سے حاصل ہونے والی زیادہ پیداوار ، زیادہ منافع کی ضمانت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی قومی کمپنیاں اب زرعی سرمایہ کاری کے اس دائرے میں شامل ہو رہی ہیں۔ یہ ادارے پچاس پچاس ہزار ایکڑ تک زمین حاصل کر کے بے آباد زمینوں کو آباد کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی سرمایہ کاری کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو اس میں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ یہ معاہدے افریقی طرز کے معاہدوں کی طرح نہیں ہیں جہاں بین الاقوامی کمپنیاں ابتدائی لاگت کے بعد سالہا سال منافع جمع کر کے ملک سے باہر لے جا رہی ہیں۔ ظاہر ہے اس سے کسی بھی ملک کی معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ پاکستان میں آنے والے سرمایہ کاروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایک حد سے زیادہ منافع پاکستان سے باہر نہیں لے جا سکتے اور منافع کا ایک قابل ذکر حصہ پاکستان میں خرچ کریں گے۔
چولستان میں آباد چولستانی لوگوں کا ذریعہ روزگار صحرا اور صحرا کے نباتات کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ زمینوں کی آباد کاری سے ان لوگوں کے ذرائع روزگار متاثر ہو رہے ہیں لیکن ان کو مناسب زر تلافی دیا جا رہا ہے اور انہی دوسری جگہوں پر آباد ہونے میں ان کی مناسب معاونت کی جا رہی ہے۔
ضروری ہے کہ چولستانی لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے حکومت خصوصی اقدامات کرے تاکہ سرمایہ دار ان کے ساتھ زر تلافی طے کرتے ہوئے منصفانہ طرز عمل اختیار کریں۔ امید کی جا رہی ہے کہ آنے والے سالوں میں گرین پاکستان انیشی ایٹو پاکستان کی زرعی ترقی اور مجموعی قومی پیداوار میں قابل ذکر اضافہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔
مضمون نگار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ایسوسی ایٹ پروفیسرکے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
تبصرے