اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 17:28
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد
Advertisements

ڈاکٹر شوکت علی

مضمون نگار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔

Advertisements

ہلال اردو

گرین پاکستان پروگرام: حال اور مستقبل

جون 2024

پاکستان کی بگڑتی ہوئی معیشت کے پیش نظر سول اور عسکری قیادت نے محسوس کیا کہ پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کے لیے کچھ ایسے اقدامات ناگزیر ہو چکے  ہیں جن سے معیشت کو فوری طور پر سنبھالا دیا جا سکے ۔ اس مقصد کے لیے  خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی)کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ ایس آئی ایف سی کا ایک مقصد یہ تھا کہ زراعت ، معدنیات و کان کنی، توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دفاعی پیداور جیسے پانچ اہم شعبوں پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے ان کی ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں ۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک چھت کے نیچے جمع کیا جائے  تاکہ سرمایہ کاری کے ضوابط اور طریقہ کار میں آسانی پیدا  کرتے ہوئے سرمایہ کاروں کے لیے سہولت پیدا کی جا سکے۔  ماہرین کے مطابق یہ اقدامات قومی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو اپنی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔



 ایس آئی ایف سی میں خصو صی توجہ  کے مستحق قرار دئیے  جانے والے پانچ شعبوں میں سے دفاعی پیداوار کا شعبہ ملٹری کے سپردکر دیا گیا جبکہ باقی چار شعبے ایس آئی ایف سی کو سونپ دیے گئے ۔ گزشتہ ایک برس سے ان تمام شعبہ جات  کی ترقی کے لیے خاطرخواہ اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن آج ہم زرعی شعبے کے حوالے سے گفتگو کریں گے ۔ 
زرعی شعبے کی تعمیرو ترقی کے لیے'' گرین پاکستان انیشی ایٹو''  پروگرام  لانچ کیا گیا ۔ اعدادو شمار کے مطابق  وطنِ عزیز کا جغرافیائی رقبہ 79 ملین ہیکٹر ہے جس  میں سے 15.7 ملین ہیکٹر رقبہ زیر کاشت ہے جبکہ 8.2 ملین ہیکٹر سے زائد رقبہ غیر آباد ہے۔  اور اس میں سے لاکھوں ایکڑ  رقبہ ایسا ہے جو کاشت کے قابل ہے لیکن ابھی تک اس کو زیر کاشت نہیں  لایا جا سکا۔  لہٰذا غیر آباددشت و صحرا کی صورت میں پڑی ہوئی دو سے تین ملین ایکڑ اس زمین کو زیر کاشت  لا کر صحرا کو سرسبز و شاداب  بنانے کا اہم مقصد ایس آئی ایف سی کی ترجیح ہے۔اس مقصد کے حصول کے  لیے  ابتدائی طور پر 40 لاکھ ایکڑ زمین جو زیادہ تر چولستانی علاقہ جات اور ریلوے کے رقبہ جات پر مشتمل تھی ایس آئی ایف سی کو مہیا کر دی گئی ۔ ایس آئی  ایف سی نے اس زمین کے ایک ایک ہزار ایکڑ کے بلاک بنائے اور یہ اصولی فیصلہ کیا گیا کہ کسی بھی سرمایہ کار کو کم از کم ایک ہزار ایکڑ زمین دی جائے گی تاکہ وہ اس زمین پر سرمایہ کاری کر کے اسے آباد کرے اور پھر اس زمین سے زرعی پیداوار حاصل کر کے ملک کی مجموئی قومی پیداوار  میں  اضافہ کرے۔ گرین پاکستان انیشی ایٹو کے مطابق یہ زمین بدستور حکومت پنجاب کی ملکیت رہے گی اور سرمایہ کاروں کو یہ زمینیں محض 30 سال کے لیے لیز پر دی جا رہی ہیں۔
 گرین پاکستان انیشی ایٹو کو لانچ کیے ہوئے تقریباً ایک سال  کا عرصہ ہونے کو ہے۔ آج سے ایک سال قبل جب اس پروگرام کو آگے بڑھایا گیا تو اس میں بہت سی  پیچیدگیاں  اور عملی مسائل  درپیش تھے ۔ خاص طور پر قانونی معاملات ایسے تھے جن کو حل کیے بغیر گرین پاکستان  کے ایجنڈے کو موثر طور پر آگے بڑھانا مشکل تھا ۔ لہٰذا نہایت احتیاط کے ساتھ قانونی معاملات کا جائزہ لیا گیا اور مختلف قانونی فورمز  سے منظوری کے بعد انہیں سرمایہ کاروں کے  لیے آسان بنا دیا گیا۔ گزشتہ ایک سال  کے دوران زیادہ تر قانونی پیچیدگیاں حل کر لی گئی ہیں اور اب امید کی جا رہی ہے کہ آنے والے سالوں میں  گرین پاکستان انیشی ایٹو کامیابی  سے آگے بڑھے گا۔
 گرین پاکستان انیشی ایٹو کے تحت کیے گئے  اب تک کے اقدامات میں سے لینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم  ایک قابل ذکر پیش رفت ہے۔ اس سسٹم کے تحت پاکستان بھر میں دستیاب مواد کو جمع کر کے ایک ایسا ڈیجیٹل سسٹم بنا دیا گیا ہے جس سے کاشتکاروں کو نہ صرف اپنی زمینوں کی زرخیزی کے بارے میں معلومات مل سکتی ہیں بلکہ وہ اپنے  مخصوص علاقے میں موسم کے بارے میں بھی درست معلومات  حاصل کر سکیں گے۔ جب کاشتکار لینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم  کی ویب سائٹ پر رجسٹر ہو تا ہے تو یہ سسٹم کاشتکار کو ہفتہ وار رپورٹ مفت فراہم کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ کاشتکار کی فصل کو کتنے پانی کی ضرورت ہے،  کون سی کھاد کتنی مقدار میں چاہیے ، یہ سسٹم ان تمام معاملات میں کاشتکار کی رہنمائی کر تا ہے ۔ 
 گرین پاکستان انیشی ایٹو  میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ زرعی ترقی کے  اہداف ، زرعی ایکو سسٹم اور  حیاتیاتی تنوع (بائیو ڈائیورسٹی) کو ڈسٹرب کیے  بغیر حاصل کیے جائیں۔ مزید یہ کہ اس پروگرام کے تحت بہتر بیجوں کی پیداوار کے لیے بھی کام ہو رہا ہے۔ 
گرین پاکستان انیشی ایٹو کی گزشتہ ایک سال کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو  اس پروگرام کے تحت پاکستان میں 50 ہزار ایکڑ پر گندم کاشت کی گئی ہے جس سے گندم کی مجموعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے ۔ واضح رہے کہ یہ 50 ہزار ایکڑ لق و دق صحرا اور غیر آباد زمینوں پر مشتمل تھے جس کی نئی آباد کاری کر کے  زرعی پیداوار حاصل کی گئی ہے۔  اگلے سالوں میں یہ رقبہ بڑھے گا جس سے زرعی پیداوار میں مزید اضافہ ہو گا۔
گرین پاکستان انیشی ایٹو میں قدرتی وسائل کے منصفانہ استعمال کے  لیے بھی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ نئے آباد کاروں کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ کھلا پانی دینے کی بجائے  اپنی فصلوں کو  قطرہ قطرہ آبپاشی (Drip Irrigation)سے ہی سیراب کریں گے۔ اس سے پانی  جیسے قدرتی وسائل  کے ساتھ ساتھ کھاد کی بھی بچت ہوگی ۔ سرمایہ کار کاشتکاری کے جدید طریقوں کو بروئے کا لا رہے ہیںجس سے لاگت کم اور پیداوار میں اضافہ ہو گا۔ کم لاگت سے حاصل ہونے  والی زیادہ پیداوار ، زیادہ منافع کی ضمانت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی قومی کمپنیاں اب زرعی سرمایہ کاری کے اس دائرے میں شامل ہو رہی ہیں۔ یہ ادارے پچاس پچاس ہزار ایکڑ تک زمین حاصل کر کے بے آباد زمینوں کو آباد کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی سرمایہ کاری کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو اس میں اس بات کا تذکرہ  ضروری ہے کہ یہ معاہدے افریقی طرز کے معاہدوں کی طرح نہیں ہیں جہاں بین الاقوامی کمپنیاں ابتدائی لاگت کے بعد سالہا سال منافع جمع کر کے ملک سے باہر لے  جا رہی ہیں۔ ظاہر ہے اس سے کسی بھی ملک کی معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ پاکستان میں آنے والے سرمایہ کاروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایک حد سے زیادہ منافع پاکستان سے باہر نہیں لے جا سکتے اور منافع کا ایک قابل ذکر حصہ پاکستان میں خرچ کریں گے۔
 چولستان میں آباد چولستانی لوگوں کا ذریعہ روزگار صحرا اور صحرا کے نباتات کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔  زمینوں کی آباد کاری سے ان لوگوں کے ذرائع روزگار متاثر ہو رہے ہیں لیکن ان کو مناسب زر تلافی دیا جا رہا ہے اور انہی دوسری جگہوں پر آباد ہونے میں ان کی مناسب معاونت کی جا رہی ہے۔
ضروری ہے کہ چولستانی لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے حکومت خصوصی اقدامات کرے تاکہ سرمایہ دار ان کے ساتھ زر تلافی طے کرتے ہوئے منصفانہ طرز عمل اختیار کریں۔ امید کی جا رہی ہے کہ آنے والے سالوں میں گرین پاکستان انیشی ایٹو پاکستان کی زرعی ترقی اور مجموعی قومی پیداوار میں قابل ذکر اضافہ کرنے میں  اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔


مضمون نگار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد  میں ایسوسی ایٹ پروفیسرکے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
 

ڈاکٹر شوکت علی

مضمون نگار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔

Advertisements