تقریبا ًتین سو برس پہلے کی بات ہے۔ میسور میں نواب حیدر علی کی حکومت تھی۔ ٹیپو سلطان نواب حیدر علی کے بیٹے تھے ۔ وہ 10نومبر 1750ء کو پیدا ہوئے۔
حیدر علی نے ٹیپو سلطان کی تعلیم کی طرف خاص توجہ دی۔اچھے استادوں اور کامل دانشوروں کو بیٹے کی تعلیم و تربیت پر مامور کیا۔ چنانچہ ٹیپو نے چھوٹی عمر میں ہی مختلف علوم پر عبور حاصل کر لیا۔ اسلامی علوم کے علاوہ انہیں عربی اور فارسی میں خاص مہارت تھی۔انہوں نے انگریزی اور فرانسیسی زبان بھی سیکھی۔ ٹیپوسلطان کو اس زمانے کے فنون سپہ گری پرعبورحاصل تھا۔
شہسواری میں ٹیپوسلطان کو برتری حاصل تھی۔ وہ گھوڑے کی سواری پسند کرتے تھے۔ ان کے والد جب بھی فوج کا معائنہ کرتے ان کو ساتھ رکھتے ۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں فوجی نظم و ضبط اور فنون جنگ کی کافی تربیت ملی۔ وہ جب پندرہ برس کے تھے تو حوصلے اور بہادری کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ ایک دستے کے ساتھ دشمن کا تعاقب کرتے ہوئے جنگل میں جا گھسے اور دشمن کوہتھیار ڈالنے پر مجبورکر دیا۔اس موقع پران کے والد حیدر علی نے انہیں ان کی بہادری اور دلیری پر پانچ سو سواروں کا کماندار بنادیا۔
جب حیدر علی کا انتقال ہو گیا تو انگریزوں کی سازشیں بڑھ گئیں۔ انہوں نے ٹیپو سلطان کے علاقے پر حملہ کر کے کئی قلعوں پر قبضہ کر لیا۔اس لڑائی میں انگریزوں نے ان کے ایک سردار کو لالچ دے کر اپنی طرف کر لیا۔چنانچہ جب وہ آگے بڑھے تو وہ بھاگ گیا۔ سلطان کا مقابلہ انگریز فوج سے ہوا۔ انگریز ایک قلعہ میں بند ہو گئے ۔ ٹیپو سلطان نے 18دن کی لڑائی کے بعد وہ قلعہ سر کر لیا۔ اس فتح کے بعد سلطان اور آگے بڑھے تو ان کا مقابلہ ایک دوسری انگریز فوج سے ہوا۔ سلطان نے اسے بھی شکست فاش دی اور بہت سارا سامان قبضے میں کرنے کے ساتھ ساتھ دشمن کے بہت سے فوجیوں کو بھی گرفتارکرلیا۔ اب انگریز ٹیپو سلطان سے اس قدر ڈر گئے کہ انہوں نے کھلے میدان میں ان سے مقابلہ کرنے کا خیال چھوڑ دیا بلکہ انہیں صلح کا پیغام بھیجا اور بہت سے تحفے تحائف بھی روانہ کیے۔ ٹیپو سلطان نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئےان کے قیدیوں کو رہا کر دیا۔
اس صلح کے بعد مرہٹوں اور نظام حیدر آباد نے مل کر سلطان ٹیپو کی سلطنت پر حملہ کر دیا۔ سلطان نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستانی آپس میں لڑ کر اپنی قوت تباہ کر لیں اور انگریز ان پر قبضہ جمالے۔ چنانچہ انہوں نے اتحاد کی بہت کوشش کی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ اب سلطان کے پاس سوائے جنگ کے کوئی چارہ نہ تھا۔ مرہٹوں اور نظام کو شکست ہوئی تو سلطان کی سلطنت اس قدر مضبوط ہو گئی کہ اس زمانے میں ہندوستان میں کوئی سلطنت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔
دوسری جانب مسلسل شکستوں کے بعد انگریزوں نے ٹیپو سلطان کے خلاف سازشوں کا ایک اور جال بچھانا شروع کر دیا۔ ٹیپو سلطان اور انگریزوں کے درمیان دو سال تک جنگ جاری رہی اور آخر کار انگریز فوجیں شکست کھا کر مدراس چلی گئیں۔میدان جنگ میں ناکام ہو کر انگریزوں نے میسور کے لوگوں کو سلطان کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔ میر صادق جیسے غداروں کی بدولت انگریزوں کو کامیابی ہوئی اور میسور کا پایہ تخت سرنگا پٹم محاصرے میں آ گیا۔ آخر کارسلطان کی فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیپوسلطان بہت بہادر اور دلیرسالار تھے۔ اگر غدار دشمنوں سے نہ ملتے تو انہیں کوئی شکست نہ دے سکتا تھا۔ ٹیپوسلطان نے اپنے خون سے آزادی کا چراغ روشن رکھااورغلامی کی زندگی پر آزادی کی موت کو ترجیح دی۔وہ 4مئی 1799ء کو میدان جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔
ٹیپوسلطان کا یہ قول کہ ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔“ قیامت تک ان لوگوں کے لیے مشعل راہ بنا رہےگا جو دنیا کی مصیبتوں اور مشکلات سے گھبراکر بھاگ جانے کے بجائے جرأت و بہادری سےان کا مقابلہ کرتے ہیں۔
تبصرے