”عمار تمہارا فیصلہ درست نہیں ۔تم نہ صرف اپنے ساتھ زیادتی کررہے ہو بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی خطرے کا باعث بن رہے ہو۔“
’’ مجھے آگے جانا ہے، بہت آگے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب میں اپنے آباءاجداد کے باغ پر ایک جدید شاپنگ مال بناؤ ں۔ ‘‘ عمار نے اپنا فیصلہ سنایا۔
” دوست! تم اس باغ سے بھی پیسے کما سکتے ہو، اس باغ میں انواع اقسام کے پھول ہیں، تم ان پھولوں کی نمائش کرواؤ اور سیب اور امرود بیرونی ممالک میں ایکسپورٹ کردو۔ اس طرح تمہاری آمدنی میں اضافہ ہوتا رہے گا اور باغ کی وجہ سے ماحول کی خوبصورتی برقرار رہے گی۔ “ احمد نے مخلصانہ مشورہ دیا۔
”احمد! میرے پاس اتنی فرصت نہیں ہے۔مجھے آج ہی فیصلہ کرنا ہے، کل جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ “
”سوچ لو، کہیں یہ غلطی نہ ہو عمار!“ احمد نے پھر کہا۔
”ٹھیک ہے! میں دیکھ لوں گا۔“مختصر گپ شپ کے بعد دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کو الوداع کہا اور اپنی اپنی راہ لی ۔
وقت گزرتا گیا۔ عمار نے خوب ترقی کی۔ اس نے پودوں اور درختوں کو کاٹ کاٹ کر پلازے، شاپنگ مال،ہوٹل بناکردولت تو خوب کمائی لیکن ماحول کو نظر انداز کردیا۔ایک صبح وہ بیدار ہوا تو اسے عجیب بےچینی ہورہی تھی۔ائرکنڈیشنڈروم ہونےکے باوجود وہ پسینے میں شرابور تھا اور اس کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔اسے فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا جس نے عمار کو بے چینی دور کرنے کی دوائی دی اور ساتھ ہی کچھ دنوں کے لیے ماحول بدلنے کا مشورہ بھی دیا۔
جب وہ ہسپتال سے گھر واپس آرہا تھا تو ڈرائیور چچا جو کافی عرصے سے ان کے پاس کام کررہے تھے، مشورہ دیا کہ وہ ان کے گائوں چلا جائے جہاں کا صاف ستھرا ماحول اور چہچہاتے پرندے اس کی صحت کو بحال کردیں گے۔
عمار نے ڈرائیورچچا کی بات مان لی ۔
”چچا! یہ تو ایک بالکل مختلف دنیا ہے، یہاں کی ہوا کتنی تازہ اور خوشگوار ہے اور پرندوں کی خوبصورت آوازیں کانوں میں رس گھول رہی ہیں، یوں لگ رہا ہے جیسے میں کسی دوسری دنیا میں آگیا ہوں۔“ عمار نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا۔
”وہ اس لیے کہ یہاں ہر طرف پیڑ پودے ہیں اور یہ ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے ہمیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں، اس لیےیہ ہوا آلودگی سے پاک ہے۔“ ڈرائیور چچا نے وضاحت کی۔
”تو پھر یہاں کے لوگ صحت مند ہوں گے۔‘‘
”جی بالکل! ہمارے گاؤں کے لوگ بہت محنتی اور جفاکش ہیں۔ وہ آلودگی سے پاک ماحول میں رہتے اور صاف ستھری ہوا میں سانس لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے تندرست رہتے ہیں۔آپ جانتے ہیں کہ قدرتی ماحول اور سبزہ جسم کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہن کو بھی تروتازہ رکھتا ہے۔‘‘چچا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ویسے بھی ہمیں قدرتی ماحول سے کھانے پینے کی اشیا بھی مل جاتی ہیں۔ ہم شہر کے پیزوں اور فاسٹ فوڈ سے دور رہتے ہیں، اچھی صحت کا یہ بھی ایک راز ہے۔اوراگر کبھی کوئی بیمار ہوبھی جائے تو ہم اکثر جڑی بوٹیوں سے اس کا علاج کرلیتے ہیں۔‘‘
”وہ کیسے میں سمجھا نہیں؟ ‘‘ عمار حیران تھا۔
”میرا مطلب ہے ہمارے علاقے میں بہت سارے پیڑ پودے ایسے ہیں جن کے پتے،بیج، پھول اور جڑیں مختلف بیماریوں میں بہت مفید ہوتی ہیں ۔“عمار جیسے جیسے ڈرائیورچچا کی باتیں سن رہا تھا اس کے دل میں اپنے آبائی باغ کی یادتازہ ہورہی تھی۔ وہ اس کے خوبصورت ماحول کو یاد کررہا تھا جہاں اکثر اس کے بابا اس سے مسواک اتروایا کرتے تھے۔وہ اپنی انہی سوچوں میں گم تھا کہ ایک مرتبہ پھر چچا کی آواز نے اسے چونکا دیا۔
”بیٹا! گاؤں میں آپ کو کسی کے گھر میں ائرکنڈیشنڈ نہیں ملے گاکیونکہ پیڑ پودے یہاں کے درجہ حرارت میں اضافہ نہیں ہونے دیتے۔ وہ گرمی کو اپنے اندر جذب کر کے درجہ حرارت کو متوازن رکھتے ہیں۔اس وجہ سے موسم بھی خوشگوار رہتا ہے اور ہمارے علاقے میں سیلاب بھی نہیں آتا۔ “
”کیا اس کی وجہ بھی پیڑ پودے ہیں؟ “عمار نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”بالکل ایسا ہی ہے۔ پیڑ پودوں کی جڑیں نہ صرف پانی کو جذب کرتی ہیں بلکہ پانی جذب کرنے میں مٹی کی بھی مدد کرتی ہیں۔ اس کے باعث پانی جمع ہو کر سیلاب کی شکل اختیار نہیں کرتا۔سب سے بڑی بات پودوں کی جڑیں زمین کی مضبوطی میں اضافہ کرکے اس کے کٹائو کو بھی کم کرتی ہیں۔‘‘چچا کی باتوں سے عمار کو اب پودوں کی اہمیت کا اندازہ ہونے لگا تھا۔ پہلے تو وہ صرف بزنس کے زاویے سے سوچتا تھا۔ اسے افسوس ہورہا تھا کہ وہ پودوں کی اہمیت سے بے خبر کیوں رہا ۔
چچا اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھے۔’’بیٹا! یہ جو آپ اتنا خوبصورت علاقہ دیکھ رہے ہیں ...پہلے یہ بھی ویران اور قحط زدہ تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمیں پہلے پودوں کی اہمیت کا اندازہ نہ تھا۔ ہم انہیں صرف لکڑی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ پھر ایک سمجھدار شخص یہاں آیا جس نے شجر کاری سے یہاں کا نقشہ بدل دیا۔اس نے ہمیں پودوں کی دیکھ بھال کرنا سکھایا۔ اس نے بتایا کہ اگرہم آج پودے نہ اُگائیں گے تو کل اس کا خمیازہ ہماری نسلوں کو بیماری اور قدرتی آفات کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔“ چچا کی باتیں سن کر عمار کو اس آدمی سے ملنے کا اشتیاق ہوا۔جس نے یہاں کے لوگوں میں شعور بیدارکرکے ان کی قسمت بدل دی تھی۔
’’چچا، کیا وہ شخص اب بھی یہیں ہے۔‘‘
’’جی بیٹا! وہ زراعت میں اعلیٰ ڈگری رکھتا ہے اور یہاں کچھ عرصے سے رہ رہا ہے۔‘‘
’’میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ چچا نےعمار کی خواہش فوراََ پوری کرنے کا وعدہ کیا اور بولے، ’’دیر کس بات کی ، آئیں،ان سے ابھی مل لیتے ہیں۔ ‘‘
تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد جب وہ اس شخص کے پاس پہنچے تو عمار اسے دیکھتے ہی پہچان گیا۔وہ اس کا دوست احمد تھا۔
عمار کو اچانک دوردراز علاقے میں دیکھ کر وہ حیران رہ گیا اور بولا: ’’کہیں مجھے ڈھونڈتے ہوئے تو یہاں نہیں چلے آئے۔ میں تو سمجھا تھا تمہیں میری کوئی فکر نہیں بلکہ تم مجھے بھول چکے ہو گے۔‘‘
’’یہی سمجھو! میںواقعی تمہیںاور تمہاری باتوں کو بھول چکا تھا۔شکر ہے تم مل گئے۔ تم پودوں سے پیار کرنے والے شخص ہو۔آج مجھے تمہاری باتوں کا احساس ہوچکا ہے۔واقعی میں غلطی پر تھا۔ مجھے اتنی بے دردی سے درختوں کی کٹائی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ آج شہروں میں درختوں اور پودوں کو کاٹ کر گھر بنائے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ماحول کافی آلودہ ہوچکا ہے۔ ہم نے شاپنگ مالز اور دکانوں سے پیسے تو خوب کمائے لیکن ماحول پر پڑنے والے ان کے منفی اثرات بھول گئے۔یہی وجہ ہے کہ آج ہماری سانسیں بھی آلودہ ہوچکی ہیں۔‘‘ عمار کی آنکھوں میںنمی تھی۔
”دیر آیددرست آید... عمار، میرے دوست، اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ ہم نے جتنے پیڑ پودے کاٹے ہیں، اگران کی جگہ پودے لگانا شروع کردیں تو ہم آئندہ نسلوں کو صاف ستھرا ماحول مہیا کرسکتے ہیں۔ ‘‘
’’تو پھر دیر کس بات کی، ابھی چلتے ہیں۔میں اپنے ہاتھ سے شجر کاری میں حصہ لوں گا اوران کی خوب دیکھ بھال کروں گا۔‘‘ عمار نے عزم کیا تو احمد خوشی خوشی اس کے ساتھ جانے کے لیے راضی ہوگیا۔
دوسرے روزوہ اپنے ماحول کو صحت مند اور پُرفضا بنانےکا عزم لیے شہر کی جانب رواں دواں تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرے