سوشل میڈیا پر جھوٹی او رمن گھڑت خبریں بچوں اور نوجوانوں کے کچے ذہنوں میں نفرت کا زہر گھول رہی ہیں۔ایسی خبروں سے کیسے بچا جائے اس بارے میں
عدیلہ خالد کی فکر انگیز تحریر
’’صارم جلدی سے اٹھ جائو،سکول کے لیے دیر ہو رہی ہے ۔ ‘‘ ثمن نے بھائی کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا تو وہ لحاف کے اندر سے ہی بہانہ بنا کر کہنے لگا، ’’آج میں اسکول نہیں جائوں گا ۔تم میڈم سے کہہ دینا کہ اس کی طبیعت خراب تھی۔‘‘
’’جھوٹ...‘‘ ابو جان جو اسی دوران کمرے میں آئے تھے،صارم کی بات سن کرحیران رہ گئے۔
’’کتنی بُری بات ہے...جھوٹ بولنا کہاں سے سیکھ لیا؟‘‘ ابو کو اچانک دیکھ کر تو گویا صارم کے اوسان خطا ہو گئے ۔ وہ جلدی سے اُٹھ کر واش روم کی طرف بھاگ نکلا۔ابو خاموشی سے اُسے دیکھ رہے تھے۔ پھر وہ باہر چلے گئے۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ دونوں بہن بھائی ا سکول کی جانب رواں دواں تھے۔اسکول پہنچ کر جب صارم اپنی کلاس میں داخل ہوا تو اس کی نظر سامنے بورڈ پر پڑی جہاں انگریزی میں دو الفاظ لکھے تھے"Echo Chambers"
بینچ پر بیٹھتے ہوئے اس نے اپنے دوست ہادی سے ان الفاظ کے بارے میں پوچھا تو ہادی نےاسے یاد دلایا کہ آج ہمیں میڈم کسی نئی بات کے بارے میں آگاہ کرنے والی ہیں۔
’’ہاں ، یاد آیا...اچھا تو یہ ہے نئی بات...؟‘‘ صارم نے الفاظ پر ایک مرتبہ پھر غور کیامگر اسے ان کے بارے میں کچھ سمجھ نہ آئی۔وہ اسی کشمکش میں تھا کہ میڈم کلاس میں داخل ہوتے ہی پوچھنے لگیں: ’’کسی کی سمجھ میں آئے یہ الفاظ....؟‘‘
ان کے سوال پر ساری کلاس خاموش رہی۔ سب کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ ’’یہ الفاظ آپ کے لیے نئے ہیں۔آج میں اسی کے بارے میں بتائوں گی...‘‘ میڈم نے ان کے الجھے چہروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ یہ ہمارے سبق کا حصہ تو نہیں لیکن آج سوشل میڈیا اور فیک نیوز کے شور میں ایسی چیزوں کے بارے میں آپ کو جاننے کی ضرورت ہے۔ ‘‘سب بچے میڈم کی بات پوری توجہ سے سن رہے تھے۔میڈم نے ایک نظر ان پر ڈالی اور پھر گویا ہوئیں: ’’پیارے بچو! آپ جانتے ہیں کہ سچ بولنا اور سچ سننا اعلیٰ کردار اور اخلاق کی نشانی ہے۔ آپ میں جو کوئی بھی سچ بولتا ہے، وہ اس کی پہچان بن جاتا ہے۔ اس کی کہی بات کو سب توجہ سے سنتے ہیں اور اسے اہمیت دیتے ہیں۔ جبکہ جھوٹ بولنے والے کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ وہ وقتی طور پر اس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے مگرجب سچ سامنے آتا ہے تو سب کی نظروں سے گِر جاتا ہے۔‘‘
میڈم کی باتوں میں ایک جادو تھا، تما م بچے بڑی دلچسپی سے ہمہ تن گوش تھے۔ صارم کو تو اب صبح چھٹی والے جھوٹ پر شرمندگی ہونے لگی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس جھوٹ پر ابو کو کتنا دُکھ ہوا ہوگا، وہ تو اسے سچا اور باکردار انسان دیکھنا چاہتے ہیں۔وہ انہی سوچوں میں گُم تھا کہ میڈم کی آواز نے اسے چونکا دیا۔
’’جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے اورقرآن پاک میں جھوٹ بولنے والے پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے۔‘‘
صارم کا چہرہ یہ سن کر اور بھی پیلا پڑ گیا۔ وہ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگا۔ اس نے سوچا کہ جھوٹ بولنا تو ہمارے معمولات کا حصہ بن چکا ہے۔ ہم جانے انجانے جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ جب وہ موبائل یا انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا استعمال کررہا ہوتا ہے تو بہت سے لوگ ایک دوسرے سے جھوٹی خبریں شیئر کررہے ہوتے ہیں۔ اسے ایک فیس بک دوست بھی یاد آگیا جس نےاسے بتایا تھا کہ وہ امریکہ میں رہتا ہے حالانکہ وہ اس کے شہر میں ہی رہتا تھا۔ اسی طرح یوٹیوب پر اس نے ایسی بہت ساری ویڈیوز بھی دیکھی تھیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا، لیکن لوگ بڑی ڈھٹائی سے اسے سچ بیان کررہے تھے۔ یہ تو اس کے ابو تھے جو وقتاَ فوقتاَ اسے سچ بتاتے رہتے تھے۔
’’میڈم، آپ نے پہلے Echo Chamber لکھا اور پھر اس کے نیچے جھوٹ۔ ان کا آپس میں کیا تعلق ہے ...؟‘‘ حنا نے جو سوال پوچھاتھا، صارم بھی میڈم سے یہی پوچھنا چاہتا تھا۔
’’یہی بات سمجھانے کے لیے میں نے ان دونوں کویہاں اکٹھا لکھا ہے۔ پیارے بچو! آج چونکہ سوشل میڈیا کا ہم زیادہ استعمال کررہے ہیں اوربہت سے لوگ اس کافائدہ اُٹھاتے ہوئے غیرمحسوس طریقے سے ہمارے ذہنوں میں ہماری ثقافت، ہمارے وطن اور ہمارے لوگوں کے بارے میں منفی اور نفرت انگیز خبریں ڈال رہے ہیں جنہیں اتنا پھیلایا جاتا ہے کہ بہت سے ناسمجھ انہیں سچ جان لیتے ہیں۔اس طرح وہ ہمارے اتحاد ویکجہتی کو نقصان پہنچا تے ہیں۔اس لیے ہمیں ایسے جھوٹے لوگوں سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘ میڈم کی باتوں نے سب بچوں کی آنکھیں کھول دی تھیں۔ ہاشم نے یہ سنا تو اس نے اپنا ہاتھ ماتھے پر رکھ کر نظریں جھکالیں۔
’’کیا ہوا ہاشم...؟ ‘‘ صارم نے اس کی یہ حالت دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یار! میں تو بنا سوچے سمجھے بہت سی پوسٹیں شیئر کردیتا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ بہت سے مکار اور جھوٹے لوگ ہمیںاپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔‘‘ میڈم نے دونوں کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی، ’’ ہاں تو بچو! Echo Chambersکا مطلب ہے جھوٹے پراپیگنڈے کے ذریعے بچوں کے ذہنوں میں ایسی جھوٹی اور منفی باتیں ڈالنا کہ وہ انہیں تصدیق کیے بغیر سچ مان لیں۔آج سوشل میڈیا کا زیادہ تر استعمال ایسے مقاصد کے لیے ہی کیا جارہا ہے۔ آپ نے غور کیا ہو گا کہ بہت سارے لوگ جب کوئی چیز شیئر کرتے ہیں یا کسی پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہیں تو ہم بھی انہی کا حصہ بن کر نہ صرف اسے سچ جانتے ہیں بلکہ بنا تصدیق آگے شیئر کردیتے ہیں۔ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ جھوٹی اور نفرت انگیز پوسٹیں ہمارے معاشرے اور ہمارے وطن کے لیے کس قدر نقصان دہ ہوسکتی ہیں۔ نفرت کی یہ لہرہمارے معاشرے کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔‘‘
’’یاد رکھیں! Echo Chambersسے وابستہ لوگ دراصل ایسامنظم گروہ ہے جو سوشل میڈیا پر کسی ایک خاص عنوان کو لے کر اس پر بات چیت کا آغاز کرتا ہے۔ پھر اس میں چند اور جھوٹی باتیں شامل کرتا ہے اور آخر میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہی درست ہے۔ اسی طرح بہت ساری تصاویر کو بناتصدیق شیئر کیا جارہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ڈس انفارمیشن وائرل ہو جاتی ہے اور نہ جانے کتنے لوگوں کے ذہنوں کو بھٹکانے کا باعث بنتی ہے۔‘‘
’’ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم جانے انجانے اس پراپیگنڈے کو آگے بڑھانے کا ذریعہ تو نہیں بن رہے ۔ اگر ایسا ہے تو ہم بھی جھوٹ کا حصہ بن کر اپنے کردار کوتو داغدار کرتےہی ہیں، اپنے وطن کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔‘‘
یہ باتیںجاری تھیں کہ اسی دوران عائشہ اپنی اسلامیات کی کتاب لے کر کھڑی ہوگئی اور میڈم سے اجازت لے کر کہنے لگی :’’میڈم یہ دیکھیں! ہماری کتاب میں جھوٹ ترک کرنے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔‘‘
’’بہت خوب !‘‘ میڈم نے اسے شاباش دی اور بولیں:’’دینِ اسلام میں جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں حتیٰ کہ مذاق میں بھی جھوٹ بولنا منع ہے۔ جھوٹ بولنا ایک بڑا گناہ ہے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اسی لیے وہ صادق اور امین کہلائے۔آپ ﷺ نے جھوٹ سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’ کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے۔‘‘(صحیح مسلم)
’’اسی طرح قرآن مقدس میں بیان ہوا ہے :’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شخص خبر لے کر آئے تو اس کی خوب تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم انجانے میں کسی قوم پر حملہ کر دو اورپھر تم اپنے کیے پر نادم ہو جاؤ۔‘‘ (الحجرات:آیت6)
تمام بچے میڈم کی باتوں کو پوری توجہ سے سن رہے تھے۔ انہیں ایسی باتیں پہلے کسی نے نہیں بتائی تھیں۔ میڈم اپنی بات ختم کرتے ہوئے بولیں ،
’’بچو،یاد رکھیں! سوشل میڈیا کا استعمال کوئی بری بات نہیں ہے لیکن ہمیں خبردار رہنا چاہیے کہ کوئی ہماری معصومیت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمیں گمراہ تو نہیں کررہا۔‘‘
میڈم نے اپنی بات ختم کی توصارم سمیت ہر طالبعلم نے عہد کیا کہ آج کے بعد وہ نہ کبھی خود جھوٹ بولےگا اور نہ جھوٹے لوگوں کی باتوں کوشیئر کرے گا۔
تبصرے