اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 01:47
اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے اداریہ : مارچ 2024 یہ وطن امانت ہے  اور تم امیں لوگو!  وطن کے رنگ    جادوئی تاریخ مینارِپاکستان آپ کا تحفظ ہماری ذمہ داری پانی ایک نعمت  ماہِ رمضان انعامِ رمضان سفید شیراورہاتھی دانت ایک درویش اور لومڑی السلام علیکم نیا سال، نیا عزم نیا سال مبارک اُمیدِ بہار اے جذبہء دل معراج النبیﷺ   علم کی شمع روشنی قومی ترانے کے خالق ابوالاثرحفیظ جالندھری نئی زندگی سالِ نو،نئی اُمید ، نئے خواب ! کیا تمہیں یقین ہے صاف توانائی ، صاف ماحول پانی زندگی ہے! تندرستی ہزار نعمت ہے! قہقہے اداریہ  ہم ایک ہیں  میرے وطن داستان ِجرأت پائلٹ آفیسرراشد منہاس شہید کامیابی کی کہانی  امتحانات کی تیاری ہم ہیں بھائی بھائی ! حکایتِ رومی : جاہل کی صحبت  حسین وادی کے غیر ذمہ دار سیاح مثبت تبدیلی  چچا جان کا ریڈیو خبرداررہیے! ستارے پانی بچائیں زندگی بچائیں! قہقہے بسم اللہ الرحمن االرحیم پہلی بات  السلام علیکم ورحمتہ اللہ ! زندہ قوم  قرار دادِ پاکستان پاکستان سے رشتہ کیا رمضان المبارک   عید مبارک! عید آئی  پیاری امّی! بوجھو تو جانیں! موسم کے رنگ مقصد ِحیات زیرو ویسٹ چیلنج فضائیں وطن کی ہمارے پانی آباد رہیں! 22 مارچ پانی کے عالمی دن پر خصوصی تحریر انگور پاکستان کا قومی جانور مارخور 3 مارچ ... ورلڈ وائلڈ لائف ڈے پرخصوصی تحریر قہقہے
Advertisements

ہلال کڈز اردو

میری پیاری ماں

مئی 2024

سرد رات تھی ۔صبا کو باوجود کوشش کے نیند نہیں آرہی تھی ۔ اُٹھی ، وضو کیا اور جائے نماز بچھا کر نہایت خشوع وخضوع سے نفل پڑھنے لگی ۔پھراللہ تعالیٰ سے اپنی ماں کی سلامتی کی دُعا کرنے لگی۔ اسے اپنی ماں کی بے شمار ، لگاتا ر ،محبتیں ، نوازشیں ، عنایتیں اور پیار یاد آنے لگ گیا جو ہر لمحہ پھوار بن کر اس کی زندگی پر برستا رہا ۔ماں کی بے لوث ، پر خلوص محبتوں کا خیال اسے اللہ کریم کی محبتوں کی طرف لے گیا جو ماں کی طرح بن مانگے دیتا ہے اور احسان نہیں جتاتا ۔ اس کے ہا تھ دعا کے لیے اٹھ گئے ۔



’’ اے اللہ کریم! جو محبتوں کا خالق ہے ،میری ماں اور اس دنیا کی ہر ماں نے اپنی اولاد کی پیدائش سے لے کر پرورش تک جس قدر تکالیف برداشت کی ہیں انھیں اپنی بارگاہ میں قبول کر لے اور اس کے بدلے ان سب پر اپنے شان کے مطابق رحم وکرم اور برکتیں عطا فرما ۔ وہ ماں جس کی دعا نے ہماری ہر مشکل کو آسانی میں بدلا ان کی زندگیوں میں جتنی بھی مشکلات اور پریشانیاں ہیں ان کو راحت و عافیت میں بدل دے۔ اے اللہ ! ماں کی خدمت ہماری ایک اہم    ذمہ داری ہے ، ماں کا حق ہم پر سب سے مقدم ہے تو اے میرے پیارے اللہ ! ہمیں ان کی خدمت کی توفیق عطا فرما۔اے میرے مالک! جو ہماری ماں نے ہمیں اچھی باتیں سکھائی ہیں، وہ سب ہم اپنی ماں کو ہدیہ کرتے ہیں، تو قبول فرما لے ۔اے رحیم وکریم اللہ! جب تیری محبتوں کا سوچتے ہیں تو ماں کا سراپا سامنے آتا ہے ۔ وہ جو ہر لمحہ اپنی اولاد کی خوشیاں مانگتی ہیں انھیں راحت عطا فرما۔ ہمیں ایسی زندگی گزارنے کی تو فیق عطا فرما جو ان کے لیے صدقہ جا ریہ بن جا ئے ۔ ہمیں ویسا بنا دے جیسا تو پسند کرتا ہے۔ آمین !‘‘
’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ کی صدا بلند ہوئی تو یوں لگا اللہ میاں نے صبا کی ساری دعائیں سن لیں ۔ اس کے دل میں ایک سکون سا اتر آیا ۔اس نے پوری توجہ سے اذان سنی اور نماز ادا کی ۔نماز کے بعد اُٹھنے لگی تو اسے خیال آیا کہ آج تو ماؤں کا عالمی دن ہے آج اتوار بھی ہے ۔ آج وہ اپنی ماں کے لیے کچھ خاص کرنا چاہتی تھی۔ وہ ماں کی انتھک محنت ، اور بہترین پرورش کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی ۔ اپنی ماں کو دکھانا چاہتی تھی کہ وہ اس کی قربانیوں کی کتنی قدر کرتی ہے لیکن وہ جانتی تھی کہ اس کا معمولی جیب خرچ قیمتی تحائف کو برداشت نہیں کر سکتا ۔وہ یہ بھی جانتی تھی کہ ماں سے محبت کے اظہار کا کوئی خا ص دن نہیں ہو تا بلکہ ہر دن ہی ماں کا دن ہے لیکن اس کے باوجود وہ ان  لو گوں میں شامل ہو نا چاہتی تھی جو اس دن کو یادگار بناتے ہیں ۔ 
وہ اس دن کو کیسے یادگاربنائے، اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔ اچانک ایک خیال آیا کہ کچھ دن پہلے اس نے سٹور میں اپنی ماں کے پکوان کی تراکیب کی کاپی  دیکھی تھی جو اب گرد آلود تھی ۔ ردی میں بیچنے کے بجائے اس نے اس کی گرد جھاڑ کر دوبارہ سنبھال لی تھی۔
 اس نے وہ کاپی نکالی اور اس میں سے ایک ڈش بنانے کا سوچا ۔اگرچہ اس کا نام مٹ چکا تھا کیونکہ صفحات بہت بوسیدہ ہوچکے تھے ۔ ماں جب کسی کام سے باہر گئیں اسی دوران صبا نے وہ ڈش بنا لی ۔ وہ جب تیار ہو رہی تھی تو اس کی خوشبو اسے اپنے بچپن میں لے گئی ۔ ہر پل اس کی ماں کی محبت کا ثبوت تھا ۔
اسی دوران ماں بھی گھر میں داخل ہوئیں تو ایک بھر پور خوشبو نے اس کا استقبال کیا۔ ماں سے رہا نہ گیا تو وہ حیران ہوکر سیدھی کچن میں پہنچ گئیں۔ صبا اووَن سے وہ ڈش نکال رہی تھی ۔ جونہی ماں اس کے قریب پہنچیں،اس نے وہ ڈش ایک طرف رکھی اور ماں کو گلے سے لگالیا۔اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔ اس سے پہلے کہ ماں اس کی اس حالت کا کچھ اندازہ کرسکتیں، وہ بولی:
 ’’میری پیاری ماں! آج آپ کا دن ہے....ہیپی مدرز ڈے! ‘‘
وہ کا فی دیرماں سے چمٹی رہی ۔اس کی ہر دھڑکن ماں کی محبت اور توجہ کا شکریہ ادا کر رہی تھی۔جو زبان نہ کہہ سکی اس کی آنکھوں کی نمی بیان کر رہی تھی ۔ آواز تھی نہ الفاظ بس احساس تھا۔ ماں نے صبا کی پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر صبا نے اپنی بنائی ڈش کا ایک ٹکڑا ان کے منہ میں ڈال دیا۔ ماں کی آنکھیں بند ہو ئیں۔ان کے چہرے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اس ڈش نے ماں کو اپنی ماں کی یاد دلا دی  تھی ۔ وہ بھی اپنی ماں کی یادوں میں گم ہو گئیں ۔ صبا دوبارہ ماں سے لپٹ گئی اور دھیرے سے ان کے کان میں سر گوشی کی:
’’ پیاری ماں، ہمیشہ میرے لیے موجود رہنے ، مجھے ایک بہتر زندگی دینے اور میری خاطر بہت کچھ قربان کرنے کے لیے آپ کا شکریہ۔ مجھے امید ہے کہ یہ ڈش آپ کی اپنی ماں کی محبت کی دلکش یادیں واپس لا رہی ہو گی۔‘‘
 ماں بیٹی کی محبت ایک دوسرے کا مان بڑھا رہی تھی !