سرد رات تھی ۔صبا کو باوجود کوشش کے نیند نہیں آرہی تھی ۔ اُٹھی ، وضو کیا اور جائے نماز بچھا کر نہایت خشوع وخضوع سے نفل پڑھنے لگی ۔پھراللہ تعالیٰ سے اپنی ماں کی سلامتی کی دُعا کرنے لگی۔ اسے اپنی ماں کی بے شمار ، لگاتا ر ،محبتیں ، نوازشیں ، عنایتیں اور پیار یاد آنے لگ گیا جو ہر لمحہ پھوار بن کر اس کی زندگی پر برستا رہا ۔ماں کی بے لوث ، پر خلوص محبتوں کا خیال اسے اللہ کریم کی محبتوں کی طرف لے گیا جو ماں کی طرح بن مانگے دیتا ہے اور احسان نہیں جتاتا ۔ اس کے ہا تھ دعا کے لیے اٹھ گئے ۔
’’ اے اللہ کریم! جو محبتوں کا خالق ہے ،میری ماں اور اس دنیا کی ہر ماں نے اپنی اولاد کی پیدائش سے لے کر پرورش تک جس قدر تکالیف برداشت کی ہیں انھیں اپنی بارگاہ میں قبول کر لے اور اس کے بدلے ان سب پر اپنے شان کے مطابق رحم وکرم اور برکتیں عطا فرما ۔ وہ ماں جس کی دعا نے ہماری ہر مشکل کو آسانی میں بدلا ان کی زندگیوں میں جتنی بھی مشکلات اور پریشانیاں ہیں ان کو راحت و عافیت میں بدل دے۔ اے اللہ ! ماں کی خدمت ہماری ایک اہم ذمہ داری ہے ، ماں کا حق ہم پر سب سے مقدم ہے تو اے میرے پیارے اللہ ! ہمیں ان کی خدمت کی توفیق عطا فرما۔اے میرے مالک! جو ہماری ماں نے ہمیں اچھی باتیں سکھائی ہیں، وہ سب ہم اپنی ماں کو ہدیہ کرتے ہیں، تو قبول فرما لے ۔اے رحیم وکریم اللہ! جب تیری محبتوں کا سوچتے ہیں تو ماں کا سراپا سامنے آتا ہے ۔ وہ جو ہر لمحہ اپنی اولاد کی خوشیاں مانگتی ہیں انھیں راحت عطا فرما۔ ہمیں ایسی زندگی گزارنے کی تو فیق عطا فرما جو ان کے لیے صدقہ جا ریہ بن جا ئے ۔ ہمیں ویسا بنا دے جیسا تو پسند کرتا ہے۔ آمین !‘‘
’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ کی صدا بلند ہوئی تو یوں لگا اللہ میاں نے صبا کی ساری دعائیں سن لیں ۔ اس کے دل میں ایک سکون سا اتر آیا ۔اس نے پوری توجہ سے اذان سنی اور نماز ادا کی ۔نماز کے بعد اُٹھنے لگی تو اسے خیال آیا کہ آج تو ماؤں کا عالمی دن ہے آج اتوار بھی ہے ۔ آج وہ اپنی ماں کے لیے کچھ خاص کرنا چاہتی تھی۔ وہ ماں کی انتھک محنت ، اور بہترین پرورش کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی ۔ اپنی ماں کو دکھانا چاہتی تھی کہ وہ اس کی قربانیوں کی کتنی قدر کرتی ہے لیکن وہ جانتی تھی کہ اس کا معمولی جیب خرچ قیمتی تحائف کو برداشت نہیں کر سکتا ۔وہ یہ بھی جانتی تھی کہ ماں سے محبت کے اظہار کا کوئی خا ص دن نہیں ہو تا بلکہ ہر دن ہی ماں کا دن ہے لیکن اس کے باوجود وہ ان لو گوں میں شامل ہو نا چاہتی تھی جو اس دن کو یادگار بناتے ہیں ۔
وہ اس دن کو کیسے یادگاربنائے، اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔ اچانک ایک خیال آیا کہ کچھ دن پہلے اس نے سٹور میں اپنی ماں کے پکوان کی تراکیب کی کاپی دیکھی تھی جو اب گرد آلود تھی ۔ ردی میں بیچنے کے بجائے اس نے اس کی گرد جھاڑ کر دوبارہ سنبھال لی تھی۔
اس نے وہ کاپی نکالی اور اس میں سے ایک ڈش بنانے کا سوچا ۔اگرچہ اس کا نام مٹ چکا تھا کیونکہ صفحات بہت بوسیدہ ہوچکے تھے ۔ ماں جب کسی کام سے باہر گئیں اسی دوران صبا نے وہ ڈش بنا لی ۔ وہ جب تیار ہو رہی تھی تو اس کی خوشبو اسے اپنے بچپن میں لے گئی ۔ ہر پل اس کی ماں کی محبت کا ثبوت تھا ۔
اسی دوران ماں بھی گھر میں داخل ہوئیں تو ایک بھر پور خوشبو نے اس کا استقبال کیا۔ ماں سے رہا نہ گیا تو وہ حیران ہوکر سیدھی کچن میں پہنچ گئیں۔ صبا اووَن سے وہ ڈش نکال رہی تھی ۔ جونہی ماں اس کے قریب پہنچیں،اس نے وہ ڈش ایک طرف رکھی اور ماں کو گلے سے لگالیا۔اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔ اس سے پہلے کہ ماں اس کی اس حالت کا کچھ اندازہ کرسکتیں، وہ بولی:
’’میری پیاری ماں! آج آپ کا دن ہے....ہیپی مدرز ڈے! ‘‘
وہ کا فی دیرماں سے چمٹی رہی ۔اس کی ہر دھڑکن ماں کی محبت اور توجہ کا شکریہ ادا کر رہی تھی۔جو زبان نہ کہہ سکی اس کی آنکھوں کی نمی بیان کر رہی تھی ۔ آواز تھی نہ الفاظ بس احساس تھا۔ ماں نے صبا کی پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر صبا نے اپنی بنائی ڈش کا ایک ٹکڑا ان کے منہ میں ڈال دیا۔ ماں کی آنکھیں بند ہو ئیں۔ان کے چہرے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اس ڈش نے ماں کو اپنی ماں کی یاد دلا دی تھی ۔ وہ بھی اپنی ماں کی یادوں میں گم ہو گئیں ۔ صبا دوبارہ ماں سے لپٹ گئی اور دھیرے سے ان کے کان میں سر گوشی کی:
’’ پیاری ماں، ہمیشہ میرے لیے موجود رہنے ، مجھے ایک بہتر زندگی دینے اور میری خاطر بہت کچھ قربان کرنے کے لیے آپ کا شکریہ۔ مجھے امید ہے کہ یہ ڈش آپ کی اپنی ماں کی محبت کی دلکش یادیں واپس لا رہی ہو گی۔‘‘
ماں بیٹی کی محبت ایک دوسرے کا مان بڑھا رہی تھی !
تبصرے