’’اُف اللہ! نیلی یہ کیا کررہی ہو؟‘‘ فاریہ باجی نے فرنچ فرائز کی پلیٹ ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔
’’ کلر کررہی ہوں‘‘ تین سالہ نیلی نے رنگ برنگی کاپی لہرائی۔ ’’کلر تو کر رہی ہو مگر کس سے؟‘‘ فاریہ نے اُس کا کان کھینچا۔
’’ سیب میں سرخ رنگ ہوتا ہے نا۔ سرخ پنسل نہیں مل رہی تھی۔‘‘
’’پنسل نہیں ملی تو آپ نے ماما کی پسندیدہ لپ اسٹک کو رنگ بنا لیا۔ ساری لپ اسٹک برباد کردی، آج تمہاری خیر نہیں ۔‘‘ فاریہ نے اس سے لپ ا سٹک چھینی۔
’’مجھے عالی بھیا نے کہا تھا۔‘‘ نیلی نے اپنی موٹی موٹی آنکھیں کھول کر کہا۔
’’عالیان!‘‘فاریہ باجی نے اُس کے ہاتھ سے ناول چھینا جو وہ پاپ کارن کھاتے ہوئے بڑے انہماک سے پڑھ رہا تھا۔
’’تم نے نیلی سے کہا کہ ماما کی ریڈ لپ اسٹک سے سیب میں رنگ بھرلو؟‘‘ فاریہ نے غصّے سے پوچھا۔
’’یہ مجھے تنگ کررہی تھی، اسی لیے...‘‘ عالی نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔
’’تم منع نہیں کرسکتے؟‘‘ فاریہ تابش کی طرف مڑی ۔
’’جب میں آیا، سیب پر سرخی لگ چکی تھی۔‘‘
’’سیب تو سرخ ہوگیا مگر لپ اسٹک آدھی بھی نہیں بچی۔‘‘ فاریہ لپ اسٹک دیکھ رہی تھی۔
’’کسی میں تمیز نہیں!‘‘ وہ بڑبڑاتی ہوئی لپ اسٹک صاف کرنے لگی کیونکہ امی کو پتا چلتا تو سب کی شامت آجاتی۔
........
’’امی جان! آپ کہیں جارہی ہیں؟‘‘ فاریہ نے انہیں جلدی میں کار کی چابیاں اٹھاتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
’’تابش کے سکول سے کال آئی ہے، اُس کا کسی سے جھگڑا ہوگیا ہے۔ پرنسپل نے بلایا ہے۔ آپ کےابو کی میٹنگ ہے وہ نہیں جاسکتے۔‘‘
........
’’تمہیں ضرورت کیا تھی اُس سے جھگڑا کرنے کی؟‘‘ فاریہ تیسری بار پوچھ رہی تھی۔ تابش لاؤنج میں منہ پھلا ئے بیٹھا تھا۔
’’امی نے مجھ سے خواہ مخوا ہ معذرت کروائی۔ میں غلطی پر نہیں تھا۔ اُس نے پہلے مجھے تنگ کیا تھا۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے آپ جھگڑا کرنے لگو ؟‘‘امی قدرے غصّے سے بولیں۔
’’ اس نے مجھے دھکا دیا تھا۔ میں نے اسے ہاتھ لگایا تو وہ سچا ہوگیا؟‘‘ تابش یہ کہہ کر لاؤنج سے اُٹھ گیا۔
........
’’ اپنی اِس گیم کی آوازآہستہ کر دو...‘‘ عالیان حکم بجا لایا۔ تابش X Box پر گیم کھیلنے میں مگن تھا ۔ پتا ہے ناں نیلی کو بخار تھا۔ امی ساری رات جاگتی رہی ہیں۔ ابھی سوئی ہیں۔‘‘ عالیان بولا۔
’’اچھا بھئی! آہستہ، میری گیم نہ خراب کرو۔‘‘ تابش لاپروائی سے بولا۔
........
’’فاریہ! پھر کیا فائنل کیا؟‘‘ عالیان نے پوچھا۔
’’کچھ خاص ہونا چاہیے جس سے امی خوش ہوجائیں۔‘‘ فاریہ نے جواب دیا۔
’’تو بس پھر زبردست قسم کا لنچ یا ڈنر اور ان کا پسندیدہ کیک لے آتےہیں۔‘‘ عالیان نے کہا۔
’’مدرز ڈے آرہا ہے، اسے اچھی طرح مناتے ہیں۔ تمہارے پاس کتنے پیسے ہیں تابش!‘‘ فاریہ نے پوچھا۔
’’ہیں! میرے پیسوں کا کیا لینا دینا؟‘‘ تابش بولا۔
’’بھئی، سب اپنے جمع کیے ہوئے پیسے ملائیں گے تو ہی کوئی بندوبست ہوگا۔‘‘ فاریہ بولی۔
’’میں نے اپنی گیم کے لیے کچھ پیسے جمع کیے ہیں۔ ویسے ماں کا کوئی ایک دن نہیں ہوتا سب دن ہی ماں کے ہوتے ہیں۔‘‘ تابش لاپروائی سے بولا۔
’’تو تم اپنے جمع کیے ہوئے پیسے شامل نہیں کرو گے؟‘‘ عالیان نے حیرت سے پوچھا۔
’’کہاناں، ماں کا کوئی ایک دن نہیں ہوتا، سب ہی دِن ماں کے ہوتے ہیں۔‘‘ تابش بولا۔
’’مدرز ڈے سے دو دن پہلے تمہاری سالگرہ آرہی ہے۔ پھر تواسے بھی نہیں منانا چاہیے۔‘‘ فاریہ باجی غصے سے بولیں۔
’’ سالگرہ تو ایک الگ چیز ہے۔‘‘ تابش بولا۔
’’تم ہمارے ساتھ شامل ہورہے ہو یا نہیں؟‘‘ فاریہ نے پوچھا۔
’’آپی! میں نے اپنی وڈیو گیم کے لیے پیسے جمع کیے ہیں۔ پھرصرف ایک دن یہ کہنے سے کیا ہوگا کہ ہمیں اپنی امی سے پیار ہے۔ پیار تو ہمیں ہر لمحہ ہی رہتا ہے۔‘‘ تابش اپنی بات پر قائم تھا۔
’’ٹھیک ہے۔ تم اپنے پیسے سنبھال کر رکھو۔ ہم اُن کے بغیر بھی کچھ کر لیں گے۔‘‘ عالیان بولا۔
........
’’اُف امی جان! آ بھی جائیں۔ بہت بھوک لگی ہے۔‘‘ سب بچے سکول سے آچکے تھے اور کھانے کی میز پر امی کا انتظار کررہے تھے۔ سب کی پسندیدہ ڈش دال چاول بنے تھے، جو صرف تابش کو پسند نہیں تھے۔
’’بچو! تم لوگ شروع کرو بس میں یہ پاستالے کر آرہی ہوں۔ تابش دال چاول پسند نہیں کرتا تو اُس کے لیے پاستا بنا رہی ہوں۔‘‘امی کچن سے بولیں۔
’’ یہ کوئی خاص ہے؟ جو سب کھا رہے ہیں، یہ بھی کھالے گا۔ آپ اتنی گرمی میں اِس کے لیے کیوں ہلکان ہورہی ہیں۔‘‘ فاریہ بولی۔
’’کوئی بات نہیں بیٹا! چلوسب کھانا کھاؤ۔‘‘ انہوں نے دال کا ڈونگا اپنی جانب سر کایا۔
دس مئی کو تابش کی سالگرہ تھی۔ جو ہر سال بہت دھوم دھام سے منائی جاتی تھی اور اُسے بہت سے تحائف بھی مِلتے تھے۔ مگر اِس سال کچھ مختلف ہونے والا تھا۔ابو کے ایک دوست کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی تدفین مغرب کے بعد تھی۔ امی ابو دوپہر کو ہی وہاں چلے گئے تھے۔ کسی نے بھی تابش کوسالگرہ کی مبارکباد نہیں دی تھی۔ لگتا تھا کسی کو یاد ہی نہیں۔
نیلی نے دو چار بار پوچھا، ’’تابش بھائی آپ پریشان نظر آرہے ہیں؟ کیا بات ہے؟‘‘ تابش جواب میں خاموش رہا۔اس نے چپکے چپکے سارا گھر گھوم کر بھی دیکھا کہ شایدکسی سرپرائز پارٹی کی تیاری ہورہی ہو مگر دور دور تک کسی پارٹی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ پہلے اُسے غصّہ آیا اور پھر شدید رویا کہ اس کی سالگرہ سب بھول گئے، مبارکباد تک نہیں دی۔ دوپہر، شام اور شام رات میں ڈھل گئی۔ اب تو وہ پوری طرح مایوس ہوچکا تھا۔ عشا کے بعد امی ابو واپس آئے تو تابش نے بھاگتے ہوئے گیٹ کھولا۔
’’بیٹا! سالگرہ مبارک!‘‘ امی نے اُسے اندرآتے ہی مبارک باد دی اور گلے لگا لیا۔ابو نے بھی اسےپیار کیا۔
’’آپ کو یاد تھا؟‘‘
’’جی بالکل یاد تھا۔سب کو بلا لو، کیک کاٹتے ہیں....‘‘ وہ اپنے ساتھ ایک کیک بھی لائے تھے۔
’’اور یہ رہا تمہارا گفٹ!‘‘ امی نے اُس کی طرف ایک پیکٹ بڑھادیا۔یہ وہی وڈیو گیم تھی جس کے لیے وہ پیسے جمع کررہا تھا۔
کھانے کے بعد تابش سب کے تحفے کھول کر دیکھ رہا تھا۔عالیان نے اُسے پیار ا ساپین دیا تھا، فاریہ نے اسے ناول گفٹ کیا تھا اور نیلی نے اُسے چاکلیٹس دی تھیں۔
........
’’کیسے لگےتحائف؟‘‘ عالیان نے پوچھا۔
’’بہت اچھے ، زبردست۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ کسی کو میری سالگرہ یاد ہی نہیں۔‘‘
’’بُرا لگ رہا تھا؟‘‘ فاریہ نے پوچھا۔
’’ بہت بُرا...‘‘ تابش مسکراتے ہوئے بولا۔
’’یعنی یہ دن ہم نے بہت خاص بنا دیا ... ہےناں؟‘‘ فاریہ نے پوچھا۔
’’سال بھر امی ہمارا خیال رکھتی ہیں ۔من پسند ناشتہ اور کھانا، سکول سے ایمرجنسی کال آئے تو بھاگتے ہوئے جانا، کوئی بچہ بیمار ہے تو اُس کے ساتھ خود بھی ساری رات جاگنا... تو کیا ہم ان کے لیے سال کا ایک دن بھی خاص اور خوبصورت نہیں بنا سکتے!‘‘ فاریہ اسے سمجھا رہی تھی جبکہ تابش اپنا سر جھکا کر خاموشی سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔
12 مئی کا دن بھی آگیا۔ سارا دن خاموشی تھی۔ شام کوگھر کی گھنٹی بجی۔ فاریہ نے گیٹ کھولا اورچلائی، ’’دادی جان!‘‘ دادی جان نے کراچی سے اچانک پہنچ کر سب کو سرپرائز دیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد دوبارہ گھنٹی بجی... ’’نانی جان!‘‘اب کی بار عالیان پکارا۔
’’نانی جان نے اسلام آباد سے لاہور آکر سب کوحیرت زدہ کردیا تھا۔‘‘
سب بہت خوش تھے۔
’’آپ سب اچانک کیسے پہنچ گئے؟ ‘‘ابو حیران ہوتے ہوئے بولے۔
’’میرے بچے تابش نے اتنے پیار سے بلایا تو کیسے نہ آتی!‘‘ نانی جان بولیں۔ ’’میں بھی تابش کے اصرار پر انکار نہ کرسکی۔‘‘دادی جان نے کہا، تابش نے دو اَور ماؤں کوبھی بلا کر اُس خاص دن کو بہت خاص بنا دیا تھا۔
میز پر تین کیک رکھے تھے۔ ’’ابو کی امی یعنی ماں جی‘‘ ’’امی کی امی‘‘ اور’’ہماری پیاری امی ‘‘ ... ساتھ ڈھیر سارے پھول۔‘‘
’’جنہوں نے کی اپنی زندگی بچوںپر قربان، ان مائوں کومیرا سلام!‘‘ یہ کہتے ہوئے تابش نے امی کو گلے لگالیا۔ سب کی آنکھوں میں ماں کی محبت کے آنسو چھلک رہے تھے۔
یہ مائیں جو ہوتی ہیں
بہت دل کے پاس ہوتی ہیں
پیار اور محبت میں بے مثال ہوتی ہیں
چوٹ جو لگے اولاد کو
تکلیف سے یہ بے حال ہوتی ہیں
یہ مائیں جو ہوتی ہیں
بہت خاص ہوتی ہیں!
تبصرے