پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع صوبہ بلوچستان 3,47190 مربع کلومیٹر پرپھیلا'رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں۔ قدرت کا یہ حسین شاہکارسونا'کوئلہ'تانبا ،کرومائیٹ، جپسم کے علاوہ دیگر معدنیات کی پیداوار کا مرکز ہے ۔سرزمین بلوچستان میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ آباد ہیں اور یہاں کے باسی صدیوں پرانی روایات پر آج بھی قائم ودائم ہیں۔پاکستان کے تقریباً آدھے رقبے پہ قائم یہ خطہ طویل دریاؤں،میدانی علاقوں، صحرائی زمین اور اونچے اونچے پہاڑی سلسلوں میںمشہورہے۔ بلوچستان کے شمال میں برف پوش چوٹیاں ہیں اور جنوب میںبحیرہ عرب ہے ۔جغرافیائی حوالے سے یہ خطہ منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ بلوچستان قدیم دور سے مختلف تہذیبوں کا سنگم رہا ہے۔ یہاں کاپہاڑی سلسلہ کوہ سلیمان ژوب سے شروع ہو کر کوہ راسکوہ چاغی تک پھیلا ہوا ہے ۔قدیم دورمیںفاتحین کے لیے یہاں کے درّے بھی رہنمائی کی علامت سمجھے جاتے تھے کیونکہ کسی بھی علاقے میں داخل ہونے کے لیے ہموارراستے کی ضرورت پڑتی ہے، اس زمانے میںباقاعدہ سڑکیں نہیں تھیں،البتہ گھوڑوں پر سفر کرکے ایک علاقے سے دوسرے کا رخ کیا جاتا تھا۔اس پس منظر میں بلوچستان کادرّہ بولان'درّہ مولااور ژوب ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔یہاں کچھی اور لسبیلہ کے دوبڑے میدانی علاقوں سمیت دنیا کے بڑے صحراؤں میں شامل ''صحرائے مکران''بھی موجود ہے۔سیاحتی حوالے سے بلوچستان ایک جان دار خطہ ہے۔جس میں لسبیلہ،زیارت' گوادر' قلات' گڈانی' سبی 'ژوب ودیگر علاقے شامل ہیں۔ ملکی وغیر ملکی سیاح سیاحت کی غرض سے ان علاقوں کارخ کرتے ہیں ۔
یہاں پر ایک سیاحتی مقام زیارت ہے جو کوئٹہ سے تقریباً 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔بانی ٔپاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے زندگی کے آخری ایام اسی شہرزیارت میںگزارے تھے۔ قدرتی آبشاروں اور سرسبزباغات وپرفضاء ہوا سے یہ وادی کسی دنیاوی جنت سے کم نہیں۔ تاریخی اہمیت کی حامل اور ملک کی قومی یادگار قائداعظم ریذیڈنسی کا قیام1899ء کوعمل میں آیا۔گرمیوں کے موسم میں ملک کے دیگر علاقوںسے آنے والے سیاحوں کا اس تفریحی مقام پر رش لگا رہتا ہے۔عیدکے موقع پر بھی سیاح زیارت کا رخ کرتے ہیں، کوئٹہ سمیت دیگر شہروں اورزیارت کے گردونواح کے لوگ عید کی چھٹیوں کے موقع پر پکنک منانے کے لیے آتے ہیں۔ سردیوں میں درجہ حرارت منفی 15سے 20 تک چلا جاتا ہے اور یہاں کے پہاڑ برف کی چاندی سے لبریز نظر آتے ہیں۔ ایک فٹ سے ڈیڑھ فٹ تک برف باری ہوتی ہے ۔دوسری اہم بات جو اس شہر میں ہے وہ یہ کہ یہاں پر دنیا کا دوسرا بڑا صنوبر کا نایاب جنگل بھی موجود ہے ۔صنوبر کے درخت دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں ۔یہ درخت ہمیشہ سر سبز رہتے ہیں اور اپنی منفرد خوشبو کے حوالے سے بھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔ہزاروں ایکڑ پر پھیلے ہوئے یہ درخت سیکڑوں سال کی تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے وادی زیارت کے پہاڑوں پر موتیوں کی طرح سجے نظر آتے ہیں۔ماضی میں سوئی گیس نہ ہونے سے یہاں کے باشندے ان قیمتی درختوں کو کاٹ کر سردی سے بچاؤ کے لیے بطور ایندھن ان کی لکڑی کواستعمال کرتے تھے۔ تاہم اب گیس آنے سے ان کے بچاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے ۔اس سیاحتی مقام میں سیب اور چیری کے بڑے بڑے باغات ہیں، جن کا پھل بیرون ممالک بھی ایکسپورٹ ہوتا ہے۔ان تفریحی مقامات پر سیاح آکر دنیا سے بے خبر زندگی کے مزے میں مگن رہتے ہیں۔ تاہم ہر کوئی اپنی مجبوری کی بناء پر چند دن قیام کے بعد واپسی کا رخت سفر باندھ کر ان حسین مناظر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے ذہن میں محفوظ کر لیتا ہے۔
کوئٹہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر بلوچستان کا خوبصورت سیاحتی مقام ''ہربوئی'' واقع ہے۔ ادھر بھی صنوبر کے گھنے اور پرانے درخت پائے جاتے ہیں۔جلیبی کی طرح بل کھاتے راستے اس حسین وادی میں جانے کے لیے سیاح کو ڈراتے بھی ہیں، تاہم وہ مختلف پھولوں کی خوشبو ؤں اور حسین آبشاروں میں اتنے مگن رہتے ہیں کہ ان کو زندگی اور موت کی پروا تک نہیں رہتی۔ہربوئی میں علم و حکمت کی دنیا کے حوالے سے سیکڑوں قسم کی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جن سے یہاں کے مقامی لوگ اپنے روایتی طریقے سے علاج کرتے ہیں۔ نزلہ وزکام اور بخارسے لے کر شوگرجیسی موذیبیماری کا علاج ان جڑی بوٹیوں سے کیا جاتا ہے۔پرفضا ء ہوا اور صاف وشفاف ماحول کی وجہ سے یہاں پر پرندوں کی بھی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔ قدرتی چشموں کے موتی جیسے پانی پر سینٹرل ایشیاء اورمڈل ایسٹ سے پرندے یہاں آکر پڑاؤ ڈالتے ہیں اور سخت سردی میں کچھی کے میدانی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ قلات میں بھی سخت سردی پڑتی ہے یہاں پرسردیوں کے موسم میں اکثر وبیشتر درجہ حرارت منفی میں رہتا ہے اور ایک سے ڈیڑھ فٹ تک برف پڑتی ہے۔
ژوب بلوچستان کے شمال مشر ق میں واقع ایک تاریخی شہر ہے، یہاں پر ایک مشہور تفریحی مقام ''شین غر''واقع ہے۔یہ وادی اخروٹ'پستہ اور چلغوزے کے جنگلات میں گھِری ہوئی ہے۔یہاں''کوہ سلیمان ''بھی ژوب سے شروع ہو کر صوبے کے اکثر علاقوں میں پھیلا ہوا ہے۔11440فٹ بلند مشہو ر چوٹی' تخت سلیمان' بھی یہاں موجود ہے۔
کوئٹہ سے چند کلو میٹر دور سیاحتی مقام'' ہنہ جھیل اور اوڑک'' واقع ہیں 'ہنہ جھیل کے بارے میں مشہور ہے کہ انگریز کے زمانے میں کوئٹہ کے آس پاس کی آبادی کے لیے پانی جمع کرنے کے لیے یہی جگہ تجویز کی گئی تھی'کہتے ہیں جہاںپانی ہووہاں پر زندگی کا وجود عمل میں آتا ہے۔ اس لحاظ سے یہاں پر مقامی لوگوں کا آنا جانا ہوا جو بہترین منظر نگاری کی وجہ سے ایک سیاحتی مقام بن گیا۔بعض اوقات یہاں پر بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے جھیل کے پانی میں کمی واقع ہوتی ہے جس سے یہاں کی رونقیں مانند پڑ جاتی ہیں۔ہنہ جھیل سے آگے ''اوڑک'' کا خوبصورت علاقہ شروع ہوتاہے،جہاں قدرتی آبشاروں اور سیب 'زردالو'آڑو کے باغات کی شادابی سے یہ حسین وادی سیاح کو دنیا کے جھنجھٹ سے آزاد کرکے اپنی گود میں لے لیتی ہے 'چھٹی کے روز کوئٹہ کے باشندے اکثر وبیشتر اس کی سیر کو جاتے ہیں۔
سبی کوئٹہ سے ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تاریخی شہر ہے۔ تاریخی حوالے سے سبی میلہ ملک بھر میں مشہور ہے ،ہر سال فروری کے مہینے میں یہ میلہ منعقد ہوتا ہے جس میں صدر'وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ حکام شرکت کرتے ہیں۔اس میلے میںبلوچستان کے علاقے بھاگناڑی کے مشہور بیل وگائے اور صوبے کے دیگر علاقوں سے آئے جانوروں کی منڈی بھی لگتی ہے، جس میں ایران'افغانستان اور ملک کے دیگر صوبوں کے بیوپاری اعلیٰ نسل کے جانور خریدنے کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔دوسرے حوالے سے سبی ایشیاء کا گرم ترین علاقہ ہے، گرمیوں میں یہاں 50سے52سینٹی گریڈ تک گرمی پڑتی ہے اور اکثر وبیشتر یہاں کے باسی صوبے کے سرد علاقوں کا رخ کرتے ہیں ۔سبی سے تیس کلومیٹر دور لب درہ بولان کے مقام پر دنیا کی قدیم انسانی تہذیب ''مہر گڑھ''موجود ہے 'سات ہزار سال پرانی یہ تہذیب اپنی منفرد حیثیت کی وجہ سے دنیامیں ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔ آثار قدیمہ کے مطابق یہاں قدیمی باشندے اپنے دور میں زراعت اور گلہ بانی سے منسلک رہے ہیں۔یہاں پراندرون ملک کے علاوہ باہر ممالک سے بھی سیاح آتے رہتے ہیں اور قدیم انسانی آباد ی اور ان کے رہن سہن کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
کوئٹہ کے قریب شہر کولپورسے شروع ''درّہ بولان'' بلوچستان کے میدانی علاقے کچھی سے جا ملتاہے۔ یہ درّہ اسی تاریخی تہذیب مہرگڑھ پر آکر ختم ہو تا ہے'ا س درّے میں قدرتی چشموں کا پانی سالہا سال سے رواں دواں ہے ۔یہاں پر ''پیر غائب ''کجھوری اور قدیم پرانے غار موجود ہیں۔یہاں پر آکر سیاح قدرت کے حسین نظاروں کو اپنی آنکھ میں سموتا ہے ۔پیر غائب کے مقام پر سالوں سے 20انچ پانی کا قدرتی چشمہ تاحال جاری وساری ہے۔ اس مقام کے بار ے میں روایت ہے کہ یہاں پانی کی قلت تھی جس سے یہاں کے باشندے بہت تنگ آچکے تھے اورہجرت کررہے تھے کہ اسی دوران یہاںپر نیک بزرگ ''ولی ''آیا ۔ مقامی باشندوں نے اس سے پانی کی قلت کا ذکر کیا ۔اس کے بعد ''اللہ کے ولی ''نے دعا مانگی اورپہاڑ سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا جو آج تک اپنی پرانی ساکھ پر رواں دواں ہے، اس نیک بزرگ کا مزار بھی اس چشمے کے قریب موجود ہے'صوبے کے مختلف علاقوں سے سیاح یہاں زندگی کا بہترین وقت گزارنے آتے ہیں۔
ملک کی ساڑھے سات کلومیٹرپر پھیلی ساحلی پٹی کا شہرگوادر جس کو ایشیا کا دروازہ کہا جاتا ہے،آج کل پوری دنیا کی نظروں کا مرکز ہے۔یہاں کی تیز ہوائیں اور سمندری موجوں کی انگڑائیاں سیاح کو اپنے دامن میں لے لیتی ہیںاورسیاح ذہن میں حسین تصور لیے سائے کی طرح کھڑارہتا ہے ۔گوادر کا شمار صوبے کے مشہور ماہی گیری مرکز میںہوتا ہے ،یہ بندر گاہ پرانی تاریخ کی حامل ہے۔1958 ء کو حکومت پاکستان نے اس کو مسقط کے سلطان سے خرید کر پاکستان میں شامل کیا تھا۔تینوں اطراف سے سمندر میں گھِرا ہوا یہ شہر جس کے مغرب میں 500 فٹ بلند کوہ باطل سمندرکے ساتھ سفید دیوار کی طرح کھڑا ہے، اس کوہ سے پورے شہر کا نظارہ کیا جاتا ہے۔ شہر کے دونوں اطراف ماہی گیروں کی آبادی ہے، جہاں دور دور تک سمندر کے پانی میں ان کی کشتیاں نظر آتی ہیں ۔شام کے وقت جب یہ مقامی ماہی گیر دن بھر کی سخت محنت کے بعد اپنے گھر وں کو لوٹتے ہیں تو سیاح کے لیے سنہرے ساحل پر دلفریب منظر دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔
پرانے سمندری جہاز توڑنے کی ملکی صنعت بلوچستان کے ساحلی علاقے گڈانی میں واقع ہے'یہ ساحلی علاقہ آلودگی سے پاک اور نہایت صاف وشفاف فضاء کا حامل ہے۔ یہاں چھٹی کے روز ساحلی نظاروں سے لطف اندو ز ہونے کے لیے اکثر وبیشتر کراچی سے سیاح آتے ہیں جودنیا کی خوبصورت ساحلی پٹی کا نظارہ کرتے نہیں تھکتے۔بلوچستان کی یہ خوبصورت ساحلی پٹی دنیا بھر میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے،اس پرتوجہ دینے سے یہ ملکی معیشت اور سیاحتی حوالے سے بے مثال ثابت ہو گی۔بلوچستان کے ان حسین سیاحتی مقامات پر توجہ دیتے ہوئے صوبے کے ان قدرتی حسین وجمیل مقامات پر کام کرنے کی ضرورت ہے، سیاحتی مقامات پر توجہ دی جائے تویہ خطہ ملک کی معیشت میں اربوں روپے کا زرمبادلہ کا اضافہ کر سکتا ہے۔
مضمون نگار صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیںاور مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے