صوبہ گلگت بلتسان دنیا بھر کے 20 بہترین اور مقبول ترین سیاحتی مقامات میں شامل ہے
''سیر و سیاحت'' محض دو الفاظ کا مجموعہ نہیںبلکہ ایسے خوش نما و سنسنی خیز تجربے کا نام ہے جو رگ و پے میں اِک سرور اور ترو تازگی بھر دے۔ چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے، سیر و سیاحت ہر کسی کو زندگی کے نئے مفہوم اور فطرت کے انوکھے مگر دل نشین روپ سے متعارف کرواتی ہے۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ وطن عزیز قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ بالخصو ص ارضِ پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع گلگت بلتستان کی دیومالائی سرزمین روئے زمین پر قدرت کے ایک بے مثال قدرتی شاہ کار کے طور پر جانی مانی جاتی ہے۔
گلگت بلتستان کو دنیا بھر کے بیس بہترین اور مقبول ترین سیاحتی مقامات میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہو چکاہے۔آنکھیں خیرہ کرنے والا فطری حسن، فلک بوس سنگلاخ پہاڑی سلسلے اور دِل موہ لینے والے حسین و جمیل نظاروں سے بھرپور صوبہ گلگت بلتستان درحقیقت پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کا اہم باب بھی ہے۔ بنیادی طور پر گلگت بلتستان دو خطوں پر مشتمل ہے۔ایک حصہ '' بلتستان'' جب کہ دوسرا ''گلگت'' کہلاتا ہے۔ سحر انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی جغرافیائی حیثیت بھی خوب اہمیت کی حامل ہے۔ کوہِ قراقرم، کوہِ ہمالیہ اور کوہ ِہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے سنگلاخ و د ل فریب قدرتی حصار میںکسی انمول ہیرے کی طرح جگمگاتا گلگت بلتستان کا خطہ پہلے شمالی علاقہ جات کے نام سے مشہور تھا۔
تقریباً پندرہ لاکھ آبادی اور چودہ اضلاع پر مشتمل یہ صوبہ حسین وادیوں،دل موہ لینے والے میدانوں، برف پوش پربتوں، قدرت کی رعنائیوں،نایاب پھولوں اور رسیلے پھلوں سے لدے خوب صورت باغات کی بدولت جنت نظیر کا درجہ رکھتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح ہر برس گلگت بلتستان کے خوب صورت ترین مقامات کی سیر و سیاحت اور تفریح کے لیے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ صوبے کے اہم سیاحتی مقامات میں دیوسائی، شنگریلا، فیری میڈوز، کچورا جھیل، خنجراب، بابوسر ٹاپ، عطا آباد جھیل، خلتی جھیل،ستپارا جھیل، راما، سرد صحرا، پھنڈر، شندور وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ موسمِ گرما کا آغاز ہوتے ہی پاکستان کے مختلف شہروں سمیت دنیا بھرکے لوگ سیر و سیاحت کی غرض سے یہاں کھچے چلے آتے ہیں۔ چند ہی برسوں میں یہ صوبہ اپنی مبہوت کر دینے والے حسن و دل کشی، سحر انگیزپربتوں اور بے پناہ قدرتی وسائل کی بدولت اپنی الگ شناخت بنا چکا ہے۔
دُنیا کا بلند ترین سرد صحرا''سرفا رنگا''
گلگت بلتستان کا صدر مقام اسکردو ہے۔ قراقرم کے فلک بوس پہاڑوں کے نرغے میں یہ پتھریلا، سرد خشک، ریتلا اور تاحد نگاہ تک پھیلا علاقہ ہے۔ اسکردو سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر کٹپانا گاؤں ہے۔یہاں ریت کے ہیت بدلتے اورفریب نظر دیتے پہاڑ ہیں۔ سیاچن گلیشیئر کے لیے راستہ بھی یہیں سے جاتا ہے۔ دُنیا کے سب سے بڑے سرد صحرا سرفا رنگا کو کٹپانا ڈیزرٹ، سترنگی اور کولڈ ڈیزرٹ بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے سرد ترین شہر اسکردو میں شیر دریا،دریائے سندھ اور دریائے شگار کے سنگم پر واقع یہ سرد صحرا، وادی خپلو سے وادی نبرہ لداخ اور شگار سے مقبوضہ کشمیر کی وادی تک پوری آب و تاب سے اپنی جگہ بنائے ہوئے ہے۔بہر کیف سرد صحرا کا بڑا حصہ اسکردو اور وادی شگار میں پھیلا ہے۔
کٹپانا صحرادر حقیقت سطحِ سمندر سے تقریباً دس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع دُنیا کا بلند ترین صحراہے۔ اس کی من موہنی پراسراریت کے سامنے باقی سرد صحرائوں کی خوب صورتی ہیچ لگنے لگتی ہے۔ ِاس قدر اونچائی پر ہونے کے باعث یہاں شب بسری اور آسمان کے نظارے کا الگ ہی سحر اور فسوس خیزی ہے ۔ اِک جانب پرسکون شب معنی خیز سرگوشیاں کرتی ہے تو ساتھ ہی ساتھ رات کے آنچل پر جھلملاتے ستاروں سے پھوٹتی مقناطیسی چمک اور غیر معمولی حجم سیاحوں کو مبہوت کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِس صحرا کی شان ہیںریت کے وہ بلند و بالا ٹیلے جو تیز ہوا کی تال پر رقص کناں رہتے ہوئے اپنی ہئیت اور مقام دیکھتے ہی دیکھتے یوں بدلتے ہیں کہ فریب نظر ہونے لگے۔ موسمِ سرما میں سرد صحرا کا درجہ حرارت منفی پچیس ڈگری سینٹی گریڈ تک گرجاتا ہے۔اسی لیے اِس صحرا کی سرد خاک چھاننے کے لیے سیاح موسمِ گرما کو موزوں سمجھتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے یہاں باقاعدگی سے شان دارجیپ ریلی کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ملکی و غیر ملکی خواتین و حضرات ڈرائیور سمیت سیاحوں کی کثیر تعداد اِس رنگا رنگ ریلی میں جلوہ افروز ہوتی ہے۔
سیاحوں کی جنت ''وادی شنگریلا''
سیاحوں کی جنت کہلانے والی ''وادی شنگریلا'' بلاشبہ گلگت بلتستان کے ماتھے کا جھومر ہے۔ وادی شنگریلا کی مسحور کن خوب صورتی اور ہوش ربا قدرتی مناظر کی سحر انگیزی کے باعث اِس مشہورزمانہ سیاحتی مقام کو زمین پر جنت کے لقب سے نوازا گیا ہے جہاںاپنے آپ میں بے مثال وادیٔ شنگریلا سے قریباً ایک ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر کچورا گاؤں ہے جہاںاپنے سحر میں جکڑ لینے والی نیلے پانی کی قدرتی جھیل کچورا جھیل کہلاتی ہے۔ وادی کی پر سکون آغوش میں دھیرے دھیرے ہمکتی کچورا جھیل میں سانس لینے والی لذیذ ٹرائوٹ مچھلی سیاحوں کے لیے باعثِ کشش ہے۔ اِس خوب صورت قدرتی جھیل کی دل کشی اور سحر آفرینی سے محظوظ ہونے کے لیے کشتی رانی سیاحوں کی اولین ترجیح ٹھہرتی ہے۔
دُنیا کا بلند ترین پہاڑی میدان'' دیو سائی''
دیوسائی دنیا کی چھت کہلانے والا اہم تر سیاحتی مقام گلگت بلتستان کی خاص پہچان بن چکا ہے۔ دیوسائی دو الفاظ دیو اور سائی کا مجموعہ ہے جس کا مطلب ہے دیو کا سایہ۔ ایسا پراسرار خطہ جس کے بارے میں صدیوں سے کہانیاں مشہور ہیں کہ یہ میدان مافوق الفطرت مخلوق کا دیس ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی مقامی آبادی پختہ یقین رکھتی ہے کہ اِس حسین وادی میں دیو بستے ہیں۔یہاں آن کی آن میں موسم کے تیور شرارت پر اتر آتے ہیں۔ موسم سرما میں اچانک کالی گھٹائیں وادی کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں اور شدید ژالہ باری ہونے لگتی ہے ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بادل اوجھل ہونے لگتے ہیں اور دھوپ چھاؤں کی آنکھ مچولی شروع ہو جاتی ہے۔ہمالیہ کے وسیع دامن میں دنیا کے بلند ترین اور اپنی نوعیت کے منفرد پہاڑی میدان دیوسائی کی بلندی کسی بھی مقام پر چار ہزار میٹر سے کم نہیں۔ سال کے کم و بیش آٹھ ماہ تک یہ پراسرار میدان برف کی دبیز چادر اُوڑھ کرخواب خرگوش کے مزے لوٹتا رہتا ہے۔ یخ بستہ جھکڑ، تند و تیز برفانی ہوائیں اور نادر ونایاب جنگلی جانوروں کے مسکن دیوسائی میں زندگی گزارنے کا تصورآج بھی ممکنات سے باہر ہے ۔ اِس خطے میںآج تک کوئی بھی انسان مسکن بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
موسمِ گرما کے چار مہینے دیو سائی کو موسمِ بہار مکمل طور پر اپنے رنگین آنچل میں چھپالیتا ہے۔تنگ و تاریک گھاٹیوں اور پہاڑی ڈھلوانوں پر مشتمل تین ہزار مربع کلومیٹر کے قدرے ہموار دیو سائی میدان بیش بہا قدرتی رنگوں کے نایاب اور شوخ و چنچل جنگلی پھولوں کاشان دار مسکن بن جاتا ہے۔ دیومالائی میدان کا دامن معطر و دل کش رنگوں کے پھول بوٹوں سے کھچا کھچ بھر جاتا ہے جیسے یہاں سے کبھی خزاں کا گزر ہوا ہی نہ ہو۔ سرسبز وشاداب میدان میں آنے والے نایاب نسل کے انتہائی خوب صورت پرندے اور پھول بوٹے سیاحوں کو مبتلائے حیرت کر دیتے ہیں۔ اِس میدان میں پائے جانے والے بھورے ریچھ کا شمار دُنیا کے نایاب جانوروں میں ہوتا ہے۔ دیو سائی میںبہتے صاف پانی کے جابجا چشمے، شتونگ نالہ اور اِس میں پائے جانے والی سنہری ٹراؤٹ مچھلیاں سیاحوں کو بہت بھاتی ہیں۔ دیو سائی نیشنل پارک اور دُنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے ایک، شیوسر جھیل بھی دیوسائی کا حسن ہے۔ مقامی زبان میں شیوسر کا مطلب ہے اندھی جھیل ۔جھیل کے گہرے نیلے پانی میں اِک عجیب سا ذومعنی ٹھہراؤ روح تک اُترنے والاسکون طاری کر دینے کی قوت رکھتاہے۔ دِل کی شکل جیسی دکھائی دیتی شیوسر جھیل کو بلاشبہ دیوسائی کا دل کہا جا سکتا ہے، جس کا نظارہ دَم بخود کر دیتا ہے۔
پریوں کا مسکن''فیری میڈوز''
سطح سمندر سے قریباً تینتیس سو (3300)میٹرز کی اوسط بلندی پر پریوں کا دیس یعنی فیری میڈوز پوری شان و شوکت سے آباد ہے۔ گلگت بلتستان کی مشہور زمانہ قاتل چوٹی، نانگا پربت کے ایک جانب دیوسائی کا میدان ہے تو دوسری جانب پریوں کا دیس ۔ پریوں کی اِس حسین وادی پر قدم دھرنے کے لیے بارہ کلو میٹر پر محیط پتھریلے راستے کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ یہ راستہ دُنیا کا دوسرا خطرناک ترین جیپ ٹریک تصور کیا جاتا ہے۔پرشوق نگاہوں کو ٹھنڈک پہنچاتی تاحدِ نگاہ سرسبز زمین کی دل کشی، میٹھے پانی کے جا بجا چشمے، اور اِن کے کناروں پر اُگے رسیلے پھل پریوں کے دیس کی انوکھی پہچان ہیں۔ یہاں تاریکی میں ڈوبے پہاڑوں کے ساتھ گھنا جنگل، خوش گوار ٹھنڈی ہوا، چہار سو ہریالی، معطر فضا ،بے فکری سے جگالی کرتے چرند، خوب صورت پرندے اور تارڑ جھیل بھی پائی جاتی ہے۔گو کہ یہاںتک پہنچنے کے لیے کوئی پکی سڑک نہیں پھر بھی ہر برس کثیر تعداد میں غیر ملکی سیاح یہاں ہری بھری چراگاہیں، خوب صورت جھیلیں، گھنے جنگل، شفاف پانی کے جھرنے اور نانگا پربت کے سحر انگیز نظارے سے لطف اندوز ہونے کے لیے کھچے چلے آتے ہیں۔
فلک بوس پربتوں کا خطہ
بلند وبالا پہاڑی سلسلے کی بدولت گلگت بلتستان کا خطہ ملکی و غیر ملکی کوہ پیماؤں اور سیاحوں کی توجہ کا خصو صی مرکزبن چکا ہے۔ گلگت بلتستان میں دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے کوہ قراقرم، کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندوکش پائے جاتے ہیں۔ ایک محتاط عالمی اندازے کے مطابق دنیا کے قریباً ساٹھ سے سترفیصد پہاڑ گلگت بلتستان میں پائے جاتے ہیں۔دنیا کی دوسری اور پاکستان کی سب سے بلند چوٹی کے ٹو اور قاتل پہاڑ نانگا پربت، گلگت بلتستان کی جان ہیں۔ دنیا کی آٹھ ہزارمیٹرسے بلند چودہ چوٹیوں میں سے پانچ گلگت بلتستان میں پائی جاتی ہیں جیسے کے ٹو، نانگا پربت، راکاپوشی وغیرہ جسے سر کرنے کے لیے آنے والے ہزاروں ملکی وغیرملکی کوہ پیما اِس خطے کے قدرتی حسُن کے قصیدے پڑھتے ہیں۔ دُنیا کے بلند ترین پہاڑوں مثلاً کے ٹو، براڈ پِیک اور گاشابروم تک پہنچنے کا راستہ گلگت بلتستان سے ہی نکلتا ہے۔
دُنیا کا بلند ترین ''شندور پولو گراؤنڈ''
سطح سمندر سے چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر دُنیا کا بلند ترین شندور پولو گراؤنڈ واقع ہے۔ یہاں جولائی کے پہلے ہفتے میں شندور میلا سجتا ہے جسے دیکھنے کی خاطر دنیا بھر سے سیاح شندور پہنچتے ہیں۔ شندور میلے کی وجہِ شہرت یہاں کھیلا جانے والا فری سٹائل پولو اور دل موہ لینے والے قدرتی نظارے ہیں۔ گلگت اور چترال کی ٹیمیںفری سٹائل پولو میںایک دوسرے کے حریف کے طور پر شرکت کرتی ہیں۔ یہ کھیل اتنا دل چسپ ہوتا ہے کہ سارا سال اِس میلے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ لاکھوںکی تعداد میں پولو کے شائقین اَپنے اَپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کا جوش و جذبہ بڑھانے کے لیے یہاں پہنچتے ہیں۔ شندور فیسٹیول میں پولو کے علاوہ پیراگلائڈنگ سمیت دیگر سرگرمیوں کے شان دار مظاہرے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سیاحوں کی دل چسپی کی ایک اہم وجہ پولو گرائونڈ کے ساتھ واقع شندور جھیل ہے جس کی دل کشی اور اس میں اُترنے والے نایاب پرندے فطرت کی مدح سرائی پر مجبور کر تے ہیں۔
دُنیا کی بلند ترین پختہ سڑک''شاہراہِ قراقرم''
شاہراہِ قراقرم جیسی عظیم الشان سڑک پاکستان اورہمسایہ دوست ملک چین کے مابین واحد زمینی راستہ ہے۔ 1978ء میں تکمیل پانے والی یہ عظیم شاہراہ پاکستان اور چین کے مابین رابطہ استوار کرنے کے لیے کوہ ہمالیہ اور قراقرم کے بلند و بالاپہاڑی سلسلوں کو کاٹ کر تعمیر کی گئی۔ پچاسی پلوں پر مشتمل دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہلانے والی شاہراہِ قراقرم کی کُل لمبائی تقریباً تیرہ سو کلو میٹر ہے، جس میں سے 887 کلو میٹر پاکستان اور 413 کلو میٹر چین میں ہیں۔ خنجراب پاس پر 4,693 میٹر کی حدِ اونچائی کو چھو لینے والی اِس سڑک کی بدولت دُنیا کی رسائی دور دراز کے ان خوب صورت پہاڑی علاقوں تک ممکن ہو پائی جو قیمتی ثقافتی ورثے اور تہذیبوں کو اپنی آغوش میں چھپائے ہوئے ہیں۔ گلگت بلتستان میں واقع شاہراہِ قراقرم کے ساتھ ساتھ چلاس کی سنگلاخ پہاڑی چٹانیں ششدر کر دینے والے نقوش اور زمانہ قدیم کی تحریروں سے مزین ہیں جو اِس علاقے کی منفرد شناخت گردانی جاتی ہیں۔ انسانوں، جانوروں، اور مہاتما بدھ کی شبیہ کے علاوہ یہاں بدھ مت تہذیب اور شکار کے ایسے مناظر بھی پتھروں پرکندہ ہیں جن میں جانور شکاری سے حجم میںکئی گنا بڑے دکھائے گئے ہیں۔ تقریباً انتیس سوسال پُرانی یہ چٹانیں آثارِ قدیمہ کا نادر و نایاب حصہ ہیں۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے مطابق گلگت بلتستان کے اِس انمول تار یخی خزانے کی چٹانوں پر قریباًپچاس ہزار تصاویر اور پانچ ہزار سے زائد تحریریں قدیم زبانوں مثلاً براہمی، خروستھی، سوگڈہن، پروٹوثرادا، اور چینی زبان میں رقم ہیں۔ چٹانوں پر کندہ نقوش اور تحریریں نویں صدی قبل از مسیح سے سولہویں صدی بعد از مسیح تک کی مانی جاتی ہیں۔منفرد نقش و نگار اور لکھائی کا نمونہ یہ چٹانیں کئی صدیوں کے تہذیبی اِرتقا کو اُجاگر کرتی ہیں بالخصوص شتیال اور رائے کوٹ پل کے درمیان تقریباً سو کلومیٹر پر محیط علاقے میں پانچ ہزار سے زائد چٹانیں مبہوت کر دینے والی نقش و نگاری کی ایک جیتی جاگتی نمائش گاہ کی حےثیت رکھتی ہیں۔خطے کی علاقائی اہمیت سمیت یہ چٹانی نقش و نگار سیاحوں کو مختلف اَدوار کے تاریخی، سماجی، ثقافتی، مذہبی اور معاشرتی پس منظر سے بھی روشناس کرواتے ہیں۔
صوبہ گلگت بلتستان کا چپہ چپہ سیر وسیاحت اور قدرتی مناظر کے حوالے سے اَپنی مثال آپ ہے۔ غذر کی حسین ترین وادی پھنڈر کی رعنائی زمین پرجنت کے کسی ٹکڑے سے کم نہیں۔دل موہ لینے والے میدان، دودھیا پانی کی آبشاریں، سحر انگیز جھیلیں اور فلک بوس پہاڑی سلسلے دُنیا بھر کے سیاحوں کو دعوتِ نظارہ دیتے ہیں۔ رسیلے اور مزے میں یکتا پھلوں جیسا کہ خوبانی اور چیری کی متعدد اقسام سمیت پاکستان کی چوڑی ترین آبشار گلگت بلتستان میں پائی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان روئے زمین پر ایسی جنتِ نظیر سرزمین کا درجہ رکھتی ہے جو جغرافیائی طورپر نہایت اہمیت کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ سیاحتی اعتبارسے بھی پوری دُنیا میں اپنا آپ منوا رہی ہے۔ اِس خطے کی مبہوت کردینے والی دلکشی کو اپنی آنکھوں سے سراہنے کے لیے ہر برس لاکھوں سیاح یہاں کے فطری حسن سے لطف اندوز ہونے کی خاطر حسین وادیوں میں پڑائو ڈالتے ہیں۔
تبصرے