پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ عوام کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ زراعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بھی ہے۔ پاکستان کے اقتصادی سروے 2023 کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 22 فیصد سے زائد ہے جبکہ زرعی شعبہ 37 فیصد ملازمتوں کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ ملکی برآمدات کا غالب حصہ بھی زراعت ہی کا مرہون منت ہے مثلاً ٹیکسٹائلز، چمڑے کی مصنوعات ،اور چاول وغیرہ۔
ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کو ملکی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمدات کا سہارا لینا پڑرہا ہے۔ آبادی میں مسلسل اضافے، شہری آبادیوں میں تیزی سے پھیلائو، اشیائے خورونوش کی سمگلنگ اور زرعی شعبے میں عمومی پیداواری جمود جیسے اسباب کی وجہ سے ملکی غذائی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا ہے۔
پاکستان کو بیرونی تجارت میں بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ ہر سال اشیائے خورونوش کی بڑھتی ہوئی درآمدات سے تجارتی خسارے کا حجم بے قابو ہو رہا ہے۔حالیہ سالوں کے دوران پاکستان میں زرعی اجناس یعنی گندم، دالوں اور آئل سیڈزکی قلت نے یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ روایتی سانچے سے ہٹ کر زرعی پیداوار میں بھرپور اضافے کے لیے زرعی شعبے کو نئے انقلابی اقدامات اور امکانات سے روشناس کرایا جائے۔
پاکستان میں روایتی طورپر زراعت کے شعبے میں آبائی زمینیں تقسیم در تقسیم کے نتیجے میں بالعموم چھوٹے قطعات اراضی پر مشتمل ہیں جسے ماہرین زراعت مائیکرو فارمنگ کے نام سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں بڑے اور کمرشل لیول کی فارمنگ رائج ہے۔ بڑے قطعات اراضی پر کمرشل انداز میں فارمنگ کے نتیجے میں بہتر ین بیج، فصلوں کی نگہداشت ، برداشت ، اسٹوریج اور سپلائی چین کے معاملات احسن طریقے، مقابلتاً کم پیداواری لاگت اور بہتر منافع کے ساتھ انجام پاتے ہیں ۔ اس طرز زراعت کو کمرشل فارمنگ یا کارپوریٹ فارمنگ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ماضی میں پاکستان میں کمرشل فارمنگ یا کارپوریٹ فارمنگ کی دو تین بار حکومتی سطح پر سنجیدہ کوششیں کی گئیں لیکن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
اسی دیرینہ مسئلے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور ماضی کے تجربات کے تجزیے کے بعد حکومت نے ایک نئے عزم اور بھرپور پلاننگ کے ساتھ پاکستان میں'گرین پاکستان انیشیٹو' کے ذریعے جدید کارپوریٹ فارمنگ متعارف کروانے کا ڈول ڈالا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ سال جولائی میں' لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم (LIMS)'کا افتتاح کیا ۔ اس ادارے کا مقصد زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے فروغ دینا ہے۔
لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم کے سربراہ کے مطا بق سبز پاکستان یعنی گرین انیشیٹو کو سٹریٹیجک پراجیکٹس میں شامل کیا گیا ہے جس کے سربراہ آرمی کے ڈائریکٹر جنرل سٹریٹیجک پراجیکٹس ہوں گے۔گرین انیشیٹو کے اس منصوبے کا مقصد 70 لاکھ ہیکٹرز سے زائد غیر کاشت شدہ اراضی کو استعمال کرتے ہوئے جدید زرعی فارمنگ کو فروغ دینا ہے۔
لمز (LIMS) کے تحت گرین پاکستان انیشیٹو کی کارکردگی کو عالمی معیار کا حامل بنانے اور جدید زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال کی حوصلہ افزائی کے لیے چین سے سمارٹ زرعی مشینری درآمد کی گئی ہے۔درآمد شدہ مشینری صحرائے چولستان میں اپنے کام کا آغاز کر چکی ہے ، یہ اقدام عالمی طرز عمل کے مطابق مکمل زرعی سائیکل ( Agri cycle) میں کارپوریٹ کاشتکاری کے بڑے پیمانے پر فروغ کا سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے ۔
اس انیشیٹو کا مقصد زراعت اور مویشیوں کے لیے جدید زرعی ٹیکنالوجی کے ذریعے مکمل نظام کا قیام ہے۔ گرین پاکستان انیشیٹو میں پانی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ، ہر موسم میں علاقوں تک رسائی کو یقینی بنانا، بجلی کی فراہمی اور زرعی مالز (Agri Malls) کا قیام، پانی کی کفالت اور محدود وسائل کے استعمال سے کثیر پیداوار حاصل کرنا گرین پاکستان انیشیٹو کا اولین مقصد ہے۔
ان اقدامات سے وسیع فصلی اراضی، ناقابل استعمال قابل کاشت بنجر زمین اور رینج لینڈ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روایتی مائیکرو فارمنگ کلچر کے برعکس ہائی ٹیک، زیادہ پیداوار اور کم لاگت کمیونٹی پر مبنی ماڈرنائزڈ یعنی جدید کارپوریٹ فارمنگ کی طرف منتقل ہو کر زرعی شعبہ انقلابی راستے پر گامزن ہو سکتا ہے۔
زرعی انقلاب کے ثمرات
گرین انیشیٹو کے ان اقدامات کے متوقع ثمرات مندرجہ ذیل ہیں۔
• چولستان میں 50,000 ایکڑ پر محیط بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنایا جائے گا۔
• تقریباً 37.55 بلین روپے منافع کا تخمینہ ہے۔
کارپوریٹ فارمز کی اعلی معیار کی پیداوار کو مشرق وسطی سمیت دیگر ممالک کو برآمد کرنے سے ملکی ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ ممکن بنایا جاسکے گا ۔ زرعی پیداوار میں بھرپور اضافے سے ایک طرف ملکی غذائی ضروریات میں خودکفالت کا حصول ممکن ہوسکے گا جبکہ دوسری طرف ایکسپورٹس میں اضافہ اور تجارتی خسارے میں کمی کا اہتمام بھی ممکن ہو سکے گا۔
• جدید طرز کی کاشتکاری کے ذریعے گندم، کپاس، کنولا اور باجرے کی سالانہ فی ایکڑ پیداوار کو بڑھایا جاسکتا ہے۔
• لوکل سطح پر چولستان کے ہنر مند باسیوںکے لیے ملازمتوں کے وسیع مواقع پیدا ہونگے جس سے معاشی استحکام کو فروغ ملے گا ۔
• زیادہ پیداوار والی فصلوں کی برآمدات کے ذریعے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں اضافہ بھی ہوگا۔
• دیرپا خوشحالی کے لیے جدید ٹیکنالوجیز متعارف کرواتے ہوئے، سرمائے سے بھرپور کاشتکاری کے ساتھ دہائیوں تک طویل لیکن کم فائدہ مند پیداوار والی زراعت سے چھٹکارا ملے گا۔
• اناج، تیل کے بیجوں، کپاس، پھلوں اور سبزیوں کے لیے مضبوط مقامی اور عالمی منڈیوں تک رسائی حاصل ہوگی۔
• مقامی کاشتکاروں کی زندگی میں ناقابلِ یقین حد تک معاشی بہتری آئے گی۔
• مقامی سطح پر پیسٹیسائیڈز(کیڑے مار ادویات) اور بیج کا کاروبار بڑھے گا۔
• کھاد کی مانگ بڑھنے سے لوکل کھاد سپلائی چین کو فائدہ ہوگا۔
• لوکل اور بین الاقوامی گڈز ٹرانسپورٹ کی آمد ورفت کے بڑھنے سے مقامی سطح پر روزگار بڑھے گا۔
• زرعی اجناس کی مقامی منڈیوں اور زرعی مشینری کی مقامی ورکشاپس کی مانگ میں بھی اضافہ ہوگا۔
• کاروباری امکانات کی موجودگی میں مقامی ہنر مند افراد کو اپنے ہی علاقوں میں کاروبار کرنے کی سہولت میسر ہوگی۔
گرین انیشیٹو ایک منفرد ،جامع اور مؤثر منصوبہ ہے، اس منصوبے کی کامیابی سے نہ صرف غریب کسان خوشحال ہوگا بلکہ زرعی شعبہ پاکستان میں معاشی انقلاب کا نقیب ثابت ہو سکتا ہے۔ انفردای سطح سے لے کر قومی سطح تک گرین پاکستان انیشیٹو کے زیرِ انتظام کارپوریٹ فارمنگ کا یہ منفرد منصوبہ پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ کامیابی کی صورت میں یہ منصوبہ ملک کی غذائی سکیورٹی اور معاشی استحکام کے لیے انتہائی اہم اور کلیدی کردار ادا کرسکے گا۔
مضمون نگار ایک قومی اخبارمیں سیاسی ' سماجی اور معاشی موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے