شمالی بھارت کے کسانوں کے احتجاج سے دارالحکومت دہلی ایک بار پھر لرز رہا ہے۔ پنجاب اورہریانہ کے سرحدی علاقے پکڑ دھکڑ اور قتل وغارت کا نمونہ بن گئے ہیں۔ ہزاروں کسان زرعی شعبے کے کالے قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ۔۔ یہ وہی کسان ہیں جو چار سال قبل سال بھر سے زیادہ کے احتجاج میں بھی شریک تھے۔ اس وقت اِن کا خود کو آزمائش میں ڈالنا اس لیے فائدہ مند ثابت ہوا تھا کیوں کہ حکومت نے تین زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کردیا تھا مگر جو وعدے ان سے کیے تھے وہ پورے نہیں ہوئے ورنہ اس احتجاج کی ضرورت نہ پیش آتی۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں کم سے کم سپورٹ پروگرام کے تحت فصلیں خریدنے کی قانونی گارنٹی دی جائے ۔ مظاہرین نے مودی کی پالیسوں کے خلاف فروری میں یوم سیاہ بھی منایا۔ ٹریکٹروں اور ٹرالیوں پر ریلیاں نکالیں۔ سیاہ جھنڈے لہرائے ۔ اپنی پگڑیوں پر سیاہ کپڑا باندھا۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کا پُتلا جلایا اورمودی اور ریاستی حکومتوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔''دہلی چلو مارچ'' کے دوران کسانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں اب تک کئی جانیں جا چکی ہیں ۔ اس ظلم وستم کی گونج بھارت کے ایوانوں میں بھی سنائی دی ۔اپوزیشن جماعتوں نے بھی کسانوں کے مطالبات پرغور کرنے میں ناکامی پر مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی سرکار جمہوری ملک میں حقیقی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مودی کے بھارت میں آج کا کسان اپنے بچے کو کسان نہیں بنانا چاہتا۔ وہ مودی کی من کی بات سن سن کر پک چکا ہے۔ 15 کروڑ کسانوں کی تکلیف زیادہ بڑی ہے یا ایک سرکار کی ناک؟۔ لیکن مودی سرکار کسانوں کے مطالبات تسلیم کرنے پر ٹس سے مس نہیں ہو رہی ۔ ادھر کسان بھی کالے قانون کو ماننے سے صاف انکاری ہیںاور اپنے مقصد پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔
بھارت میں کسانوں کا یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا ہے جب لوک سبھا کے انتخابات ہونے والے ہیں ۔ وزیرِ اعظم نریندرمودی تیسری بار وزارتِ عظمی کا تاج سر پر سجانے کی بھرپور تیاریوں میں مگن ہیں ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت کسانوں کے ساتھ کسی بڑے تصادم سے بچنا چاہتی ہے اور کسانوں کے تھکنے کا انتظار کر رہی ہے۔ مودی حکومت کے پیش نظر یہ منصوبہ بھی ہوسکتا ہے کہ عام انتخابات کے اعلان تک کسانوں کو احتجاج کرنے دیا جائے۔ الیکشن کا اعلان ہوجائیگا تو یہ کس سے بات کریںگے، مجبوراً انہیں گھر واپس جانا ہی پڑے گا۔ رہا سوال ان کے مطالبات کا تو دوبارہ اقتدار میں آنے کی صورت میں ان پر نئی حکومت بننے کے بعد ان سے نمٹنے کی نئے سرے سے کوشش ہوگی۔ادھرکسانوں کا کہنا ہے کہ ان کے مطالبات کی منظوری میں تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں جس سے کسانوں کو نقصان ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پچاس فیصد بھارتیوں کا روزگار زراعت سے جڑا ہے۔ آج بھارتی جی ڈی پی میں 23 فیصد حصہ رکھنے والا یہ شعبہ بھارت کی سڑکوں پر پس رہا ہے۔ پنجاب سے دیگر بڑے شہروں کا رخ کرنے والوں کے اعداد و شمار دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ 90 کی دہائی اور بعد کے ادوار میں ان علاقوں سے مقامی آبادی نے تیزی سے نقل مکانی کی ۔ ان کی جگہ دیگر صوبوں کے غریب لوگوں نے پُر کی ۔اصل مسئلہ وہاں زرعی کاروبار سے جڑے چھوٹے دیہاڑی دار مزدوروں کا ہے جو زیادہ تر دوسری ریاستوں بہار اوراڑیسہ سے آتے ہیں۔ کچھ واپس چلے جاتے ہیں اور کچھ اپنے خاندانوں کے ساتھ یہاں بس جاتے ہیں۔ انہیں بروقت تنخواہ نہیں دی جاتی اور زیادہ تر سرمایہ بڑے کسان لے جاتے ہیں۔
احتجاجی کسانوں نے 13 فروری کو دہلی کی طرف مارچ شروع کیا تو مودی سرکار کی ٹانگیں کانپنے لگیں ۔ ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ ہریانہ پولیس نے دہلی جانے کی کوشش کرنے والے کسانوں کو پنجاب کے ضلع سنگرور میں کھنوری سرحد پر(دارالحکومت دہلی سے شمال میں تقریبا 200 کلومیٹر دور) روک دیا۔ انہیں پیچھے دھکیلنے کے لیے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح نام نہاد جمہوریت کمزور پڑی۔ کسان پیچھے نہ ہٹے توحکومت نے دکھاوے کے مذاکرات کر ڈالے لیکن کسان باتوں میں نہ آئے۔ اپنے مؤقف پرڈٹ گئے ۔ صاف کہہ دیا کہ اس بار مطالبات منوا کر ہی گھر لوٹیں گے۔ کسانوں کے مطالبات ہیں کہ کم سے کم سپورٹ پروگرام پر فصلوں کی خریداری کی ضمانت دی جائے ۔ سوامی ناتھن کمیشن کی رپورٹ نافذ کی جائے۔ تمام فصلوں کو ایم ایس پی (زرعی پیداوار کے لیے کم ازکم امدادی قیمت)کے تحت لایا جائے نہ کہ چند منتخب فصلوں کو اس میں شامل کیا جائے اورباقی کو چھوڑ دیا جائے۔ کسانوں کو فصل اگانے پر آنے والی لاگت پر 50 فیصد منافع دیا جائے۔ قرض معاف کیے جائیں ۔ تحریک کے دوران درج مقدمات واپس لیے جائیں ۔ مودی حکومت نے کسانوں کو 5 سالہ معاہدے کے تحت اناج خریدنے کا لالچ بھی دیا لیکن کسانوں نے اس آفر کوبھی مسترد کر دیا۔ پنجاب اور ہریانہ سے تعلق رکھنے والے کسانوں کا مؤقف ہے کہ جب منڈی سے باہر ہی نجی کمپنیاں فصل خرید کرذخیرہ کرلیں گی تو کسانوں کو ان کی محنت کا پھل نہیں مل سکے گا۔ یہ پہلا موقع نہیں جب کسانوں نے اپنے حق کی آواز اٹھائی ہے۔ 2018 میں بھی کسانوں نے دہلی کا رخ کیا تھا ۔اس وقت بھی کسان قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کے لیے آئے دن خودکشیاں کر رہے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق بیس برس میں 3 لاکھ کسانوں نے اپنی جانیں گنوائی تھیں۔ اس وقت بھی کسانوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ زرعی قرضے معاف کیے جائیں اور قومی اسمبلی میں پڑا زرعی اصلاحات کا بل منظور کیا جائے، جس میں کسانوں کو ان کی فصل کا جائزاوربہتر معاوضہ دلوانے کی بات کی گئی تھی۔ 2016 میں بھی مودی حکومت نے زرعی شعبے میں کسانوں کو سہانے خواب دکھا کرسرمایہ کاری بڑھانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کا مقصد 2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنا تھی لیکن وہ وعدہ بھی وفا نہ ہوا۔ کسانوں کی شکایت تھی کہ کاشت کے اخراجات میں اضافہ جب کہ آمدنی کم ہو گئی ہے جس سے کاشت کاری خسارے کا شعبہ بن رہا ہے۔
بھارتی فوجی بھی مودی کی پالیسیوں سے نالاں ہیں ۔ حاضر سروس بھارتی فوجیوں کی بڑی تعداد "دہلی چلو مارچ "میں شامل ہورہی ہے۔ مارچ میں شامل ایک بھارتی فوجی کا کہنا ہے کہ وہ کسان کا بیٹا ہے، احتجاج چھ مہینے جاری رہے یا چھ سال ،وہ ملازمت سے استعفیٰ دے دیگا، اس کے لیے انڈین آرمی ضروری نہیں ہے۔ایک اور بھارتی فوجی کا کہنا تھا کہ سرحد کے بجائے بھارت کے اندر اپنے ہی شہری کسان مارے جا رہے ہیں ۔"دہلی چلو مارچ'' روکنے کے لیے جتنا مضبوط بارڈر مودی سرکار نے بنایا ہے ،اتنا مضبوط ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی نہیں بنایا گیا ۔ جب تک احتجاج جاری رہے گا ہم اس مارچ کا حصہ رہیں گے۔
کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصاراس ملک کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ رویوں پربھی ہوتا ہے۔ بھارتی فوجی بھی مودی کی پالیسیوں سے نالاں ہیں ۔ حاضر سروس بھارتی فوجیوں کی بڑی تعداد "دہلی چلو مارچ "میں شامل ہورہی ہے۔ مارچ میں شامل ایک بھارتی فوجی کا کہنا ہے کہ وہ کسان کا بیٹا ہے، احتجاج چھ مہینے جاری رہے یا چھ سال ،وہ ملازمت سے استعفیٰ دے دیگا، اس کے لیے انڈین آرمی ضروری نہیں ہے۔ایک اور بھارتی فوجی کا کہنا تھا کہ سرحد کے بجائے بھارت کے اندر اپنے ہی شہری کسان مارے جا رہے ہیں ۔"دہلی چلو مارچ " روکنے کے لیے جتنا مضبوط بارڈر مودی سرکار نے بنایا ہے ،اتنا مضبوط ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی نہیں بنایا گیا ۔ جب تک احتجاج جاری رہے گا ہم اس مارچ کا حصہ رہیں گے۔
بیلجیئم، فرانس، نیدر لینڈ، جرمنی، اسپین اور دیگر ملکوں میں بھی حکومتی پالیسیوں کے خلاف کسانوں کا احتجاج ہوا مگر چند ہی دنوں میں ان کے مطالبات کو تسلیم کرلیا گیا لیکن مودی کے نئے بھارت میں ایسا نہیں ہورہا۔ 'اچھے دن آنے والے ہیں' کا نعرہ لگانے والے نریندر مودی کے بھارت میں غربت دھبہ بن چکی ہے۔ اس وقت بھارت میں بائیس کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ ملک میں بے روزگاری کی شرح 8.7 فی صد ہے۔ جس نے لاکھوں کروڑوں زندگیوں کو تباہ کردیا۔ یہ اعدادو شمار دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے کے دعویدار ملک بھارت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ بھارتی حکومت کسانوں کے احتجاج کو سنجیدہ نہیں لے رہی ۔ بھارتی حکومت کی کوشش ہے کہ کھیت تو رہیں کسان نہ رہیں ۔ کسان کیونکہ موجودہ حکومت پراعتماد نہیں رکھتے لہٰذا قانون میں واضح تبدیلی چاہتے ہیں جس میں منڈیوں اور کم سے کم قیمت کی وجہ سے انہیں نقصان نہ اٹھانا پڑے۔دوسری جانب بڑی بڑی کمپنیوں کو ایسا کسان نہیں چاہیے جو فصل کی معقول اُجرت کا مطالبہ کرنے لگا ہے ۔مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں سڑکیں جام کردیتا ہے، دھرنا دیتا ہے اور نرمی سے مگر سخت باتیں کرتا ہے، اس کے لہجے میں غصہ ہے، اس کے تیور مزاحمتی ہیں اور اس میں احساس خودی جاگ چکا ہے۔ جوش نے اپنی طویل نظم 'کسان' میں کسانوں کو کئی القاب سے نوازا ہے۔ یہ بھی کہا کہ
خون جس کا بجلیوں کی انجمن میں باریاب
جس کے سر پر جگمگاتی ہے کلاہ آفتاب
شعرا ء و ادبا کے دلوں میں کسانوں کے لیے یہی جذبہ تھا مگرمودی کے بھارت میں کسانوں کے حقوق سے متعلق چشم پوشی برتی جا رہی ہے۔ بڑی بڑی کیلیں گاڑھ کر ان کے راستے مسدود کرنا ضروری اور ان پر آنسو گیس چھوڑنا مجبوری بنتا جا رہا ہے۔ کسانوں کے احتجاج نے مودی سرکارکو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ لوگ جن کی زندگیاں کھیتوں میں گزرتی ہیں، موسموں کی تبدیلیوں ہی کے عادی نہیں ہوتے، حالات کی سختی کو بھی ہنستے کھیلتے سہہ جاتے ہیں۔
مضمون نگار صحافی ہیں۔ حالاتِ حاضرہ اور سماجی و سیاسی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے