بھارت کے ہمسایہ چھوٹے ممالک میں بھارت حمایتی سیاست دان عوامی نفرت کی علامت بن گئے
بھارت کی متعصب حکومت نے اکھنڈ بھارت کا اعلان نو اشاریہ سات(9.7) ارب بھارتی روپوں کی لاگت سے پارلیمنٹ آف انڈیا کی نئی عمارت سے کیا جس میں ایک دیوار پر موریا سلطنت کے تیسرے اور آخری حکمران اشوک کی راجدھانی کا نقشہ بنوایا۔ مہاراجہ اشوک چندر گپت موریا کا پوتا تھا جس کا دارالسلطنت ٹیکسلہ268قبل مسیح تھا۔ اشوک نے اپنے 99بھائیوں کو قتل کیا اور اڑسیا کو فتح کرنے کے لیے 3سال جنگ کی۔ ہزاروں لوگوں کو جنگ میں مروا کر پھر بدل گیا اور بدھ مت کا پیرو کار ہوگیا۔ ہندو اسے اشوک اعظم کہتے ہیں مگر اُس کے دور حکومت میں بھی برصغیر میں ہزاروں راجے، مہاراجے اور ریاستیں تھیں۔ مغل حکمران اکبر بادشاہ اس سے زیادہ مؤثر اور بڑا حکمران تھا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے پارلیمنٹ بلڈنگ کے نقشے کے بعد بھارت کے ہمسایہ ممالک میں بھارتی عزائم آشکار ہوگئے اور ان ممالک کے عوام نے احتجاج شروع کردیا۔ اس دیواری نقشے کے علاوہ بھی بھارت نے اپنا نقشہ جاری کیا جس میں سارے ہمسایہ ممالک کے علاقوں کو اپنے ملک کا حصہ ظاہر کردیا۔ بھارت نے ہمسایہ ملک نیپال کے اندر جاکر کچھ پل اور سڑکیں بنانا شروع کردیں جبکہ بھارت اور نیپال میں سرحدیں کھلی ہیں، آمدو رفت میں کوئی رکاوٹ نہیں مگر بھارت نے نیپال کے دو علاقوں کالا پانی اور لپولک پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جہاں پانی کا بڑا ذخیرہ ہے اور ہزاروں کلو واٹ بجلی باآسانی پیدا کی جاسکتی ہے۔ بھارتیوں نے کئی دھائیوں سے اس علاقے کے عوام کو یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ آپکا ہمارا روٹی بیٹی کا رشتہ ہے (بیٹی دو روٹی لو)۔ اس کے علاوہ نیپال کے نئے دستور کو بھی بھارت نے نافذ کرنے سے روک دیا اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے ستمبر2021 میں نیپال جاکر اس دستور میں 15مطالبات رکھنے کے ساتھ دھمکی بھی دی جس سے نیپال میں 'انڈیا آئوٹ' تحریک شروع ہوئی۔ لاکھوں لوگ مظاہروں میں شامل ہوئے۔
9مارچ 2023کے انتخابات میں بھارتی حمایت یافتہ سباش چندر شکست سے دوچار ہوئے اور رام چندرا بادڈیل صدر منتخب ہوگئے۔ اس طرح مالدیپ میں انڈیا آئوٹ کا نعرہ دینے والے محمد معیزو نے بھارت کے حامی صدر محمد صالح کو شکست دے دی جس کی بڑی وجہ عوام میں بھارت مخالف شدید جذبات تھے۔ بھارت کے ہمسایہ ممالک میں یہ طے ہونا باقی ہے کہ کس ملک سے ''انڈیاآئوٹ''کا نعرہ پہلے لگایا گیا۔ اس طرح بنگلہ دیش میں کروڑوں لوگوں نے اس نعرے کو اپنالیا ہے اور حسینہ واجد کے خلاف یہ تحریک روز بروز بڑھتی جارہی ہے جس پر تلملا کر حسینہ واجد نے اپوزیشن کو جلسوں میں کہنا شروع کردیا کہ ''انڈیا آئوٹ نعرہ لگانے والوں کے گھروں میں پیاز، لہسن ، گرم مسالے بھی نظر نہیں آنے چاہیے کیونکہ وہ انڈیا سے آتے ہیں۔'' بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی اور مخالفین کو جیلوں میں ڈال دیا تھا۔ جنوری2024کو ہونے والے ان انتخابات میں حسینہ واجد کی عوامی لیگ اور اتحادیوں نے 300میں سے 223نشستیں جیت لی ہیں مگر حسینہ واجد کے خلاف انڈیا آئوٹ کا نعرہ ایک نئی تحریک کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ بھارت نے اپنے چھوٹے ہمسایہ ممالک کو معاشی طور پر اپنا دست نگر بنادیا ہے۔ شروع شروع میں وہ اجناس سستے داموں بھجواتا رہا۔ جب ان ممالک میں لوگوں نے ان اجناس کی پیداوار ختم کردی تو بھارت نے بھی اپنی اجناس کی قیمت بڑھا کر ہمسایہ ممالک کے غریب عوام کو لوٹنا شروع کردیا۔ اس کے علاوہ چھوٹے ممالک میں ایک تھانے دار کی طرح بھارتی انٹیلی جنس 'را' اور پولیس ان کے شہریوں کو اٹھاکر لے جاتی ہے، ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور ان کو ماورائے عدالت قتل کردیا جاتا ہے۔ بھارت کے اس رویہ پر سارے ہمسایہ ممالک چلا اُٹھے ہیں اور ان ممالک میں ''انڈیا آئوٹ'' کا نعرہ زور پکڑ رہا ہے۔ نیپال میں بھارت مخالف مظاہروں میں کئی بار اتنی شدت پیدا ہوئی کہ بھارتی وزیر خارجہ کو وہاں جانا پڑا اور مالدیپ میں جے شنکر کی آمد پر فائرنگ ہوئی، کئی پولیس کے ارکان شدید زخمی بھی ہوئے۔
بھارت کو نیپال میں چین کی جانب سے بندرگاہ کی تعمیرو ترقی میں معاونت پر شدید اعتراض ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمسایہ ممالک میں ہمارے مفادات ہیں لہٰذا ہم کسی دشمن ملک کو ان ممالک میں معاشی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے سکتے۔ گویا ان ممالک کی آزادی و خود مختاری بھارت کی مرہون منت قرار پائی ۔ بھارت نے 1984سے 1987تک سری لنکا میں بھی امن قائم رکھنے کے نام پر وہاں اپنی فوج داخل کردی تھی اور پھر بھاری جانی نقصان کے بعد وہاں شکست سے دوچار ہوکر بھاگ کھڑا ہوا۔ 1974ء میں بھارتی حکومت نے ایک معاہدے کے تحت سری لنکا کو ایک جزیدہ (کچا تھیوو) اندرا گاندھی کے دستخطوں سے دے دیا تھا جو بھارت سے 21میل دور ہے مگر بھارت نے اب اس پر اپنا حق جتانا شروع کردیا ہے اور معاملہ بھارت کی سپریم کورٹ میںبھی گیا ہے جبکہ اس جزیرے سے 240سے زائد سری لنکن ماہی گیروں کو بھی گرفتار کرلیاگیا اور' تامل ناڈو' ریاست کو آگے کردیا ہے۔ یہی حال بھوٹان کا ہے جہاں ساری اپوزیشن بھارتی رویےّ سے نالاں ہے۔ نیپال میں بادشاہت کا خاتمہ بھی بھارت نوازی کی وجہ سے ہوا کیونکہ بھارتی حکومت صرف بادشاہ سے روابط اور سہولت کاری کو اولیت دیتی تھی اور عوام بادشاہ کو بھارت کا ٹائوٹ خیال کرتے ہیں جو بھارتی نفرت کی بھینٹ چڑھ گیا۔
بھارت نے ان چھوٹے ممالک میں اپنی توسیع پسندانہ خواہشات کی تکمیل کے لیے وہاں سے مخالفین کو اغوا کروانا، قتل کروانا اور انہیں اغواکر کے سالوں عقوبت خانوں میں رکھنے کے بعد اپنا دائرہ کار یورپ اور کینیڈا تک پھیلا دیا جس میں کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کا قتل بھی شامل ہے جبکہ امریکن شہری گورپتو سنگھ پنوں 'سکھ فار جسٹس' کے رہنما بروقت احتیاطی تدابیر کے باعث قتل ہونے سے بچ گئے۔
بھارت کی نئی پارلیمنٹ میں جس آخری موریہ حکمران اشوک کا نقشہ لگایا گیا ہے وہ تو ہزاروں لوگوں کے قتل عام اوراڑیسا کی فتح کے بعد تائب ہوکر بدھ مت ہوگیا تھا، اس نے جانوروں کے شکار پر بھی پابندی لگا دی تھی، اپنا نام بدل کر یاد رشی رکھ لیا، بیٹی اور بیٹے کو بھگشی بنا کر سیلون بھجوا دیا۔ رحم کرو، نیک بنو، اپنے دل کو پاک کرو ، اپنی راج دھانی میں پہاڑوں پر کنداں کروایا جو آج بھی یادگار کے طورپر موجود ہیں جبکہ بھارتی جنتا پارٹی کا عمل اور سوچ اس سے قطعی مختلف ہے۔ ان کے طرز عمل میں اقلیتوں کو ختم کرکے ایک ہندو توا ریاست کا قیام شامل ہے اور بھارتی سپریم کورٹ کے جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی سربراہی میں 7رکنی بنچ اور جسٹس پی بی جوگندر کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کے فیصلے مورخہ3جنوری 2017کے خلاف ہندو ازم کو ایک مذہب قرار دینا ہے۔ ان دونوں فیصلوں میں بھارتی سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ ہندو کوئی مذہب نہیں طرز زندگی ہے جو مختلف جگہوں پر مختلف ہے ۔ اس کے مطابق نہ ایک خد اہے، نہ پیغمبر، نہ الہامی کتاب مگر اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بدولت بھارتی حکومت اپنے فوجی بجٹ میں چار گناہ اضافہ کرچکی ہے اور ساتھ ہی دنیا پر اپنی بہتر حیثیت کا بھی ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے۔ اگر اسکی آبادی کے حوالے سے زرمبادلہ کو تقسیم کیاجائے تو اسکا موازنہ کسی افریقی ملک سے ہی کیا جاسکے گا۔
ہر ہمسایہ ملک کے کسی نہ کسی حصے پر قبضہ جمانا، ہمسایوں کی معیشت کو برباد کرنا، دہاں دہشت گردی کرواکر ان پر دہشت گردی کا الزام لگانا، بدظنی کا ارتقاب کرنا دنیا میں پنپنے کا رویہ نہیں۔ اس کے لیے ذمہ داری، سچائی، تہذیب اور اخلاق ہی اصل زینہ ہے۔ بھارت جس سے کوسوں دور ہے۔ تحریری عہد ناموں اور کروڑوں عوام سے کیے گئے دعوئوں کو چٹکیوں میں کب تک اڑایا جاسکتا ہے۔ ایک نہ ایک دن تو سارے خطے سے یہ ہی آواز بلند ہوگی ''انڈیا آئوٹ''۔ اسے پھرگھر سے آئوٹ ہونے کے بعد دنیا سے آئوٹ کرنے میں تھوڑا ہی وقت لگے گا۔
مضمون نگارمتعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔سینئر صحافی ہیں۔ قومی و بین الاقوامی موضوعات پر قلم کشائی کرتے ہیں۔
تبصرے