(جھوٹی خبروں کی تشہیر ،پراپیگنڈہ اور ریاست مخالف مذموم کارروائیوںکے ممکنہ طریقے، اسباب اور تدارک)
گزشتہ چند برسوں سے فیک نیوز،ہائبرڈ وار، ففتھ جنریشن وار ، ففتھ کالم اور ایکو چیمبر جیسی اصطلاحات کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر بڑھتے ہوئے استعمال نے صارفین سمیت مقتدر حلقوں میں بے چینی کی لہر پیدا کر دی ہے۔ ظاہری طور پر چاہے لفظ کوئی بھی ہو،اس کا بنیادی مقصدایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہے جھوٹ بولنا، جھوٹ پھیلانا اور جھوٹ کے بیانیے کو فروغ دینا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کا ہدف بھی ایک ہی ہوتا ہے یعنی قومی سلامتی کو نشانہ بنا کر اعلیٰ اداروں کی تضحیک کرنا اور پھر انہیں کمزور کر کے ریاست اور معاشرے کے اندر انتشار پھیلانا ۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ ان سب میں بظاہر دشمن نظر نہیں آتا لیکن وہ نہ صرف موجود ہوتا ہے بلکہ منظم طریقے سے اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایسے حربے استعمال کرتا ہے جس سے بعض اوقات ریاست کی بنیادیں ہل جاتی ہیں اور پوری قوم افراتفری کا شکار ہو جاتی ہے۔
یہی حال مملکت خداداد کا بھی ہے جس میں ایسے بیانیے او ر بے بنیاد جھوٹی خبروں کی تشہیر میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا کا خاصا بن چکے ہیں۔یہ سب ایسے منظم طریقے سے انجام پا رہا ہے کہ اب روایتی جنگ لڑنے کی ضرورت باقی نہیں رہی بلکہ سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کر کے متعلقہ اہداف مکمل کیے جا رہے ہیں۔
جھوٹی خبروں کی تشہیر ہو یا پھر ایکو چیمبرز جیسے منظم گروہ، یہ سب ریاست مخالف کارروائیوں کے ذریعے ملکی وقار، نظریاتی اساس، اعلیٰ اداروں اور قیادت کے امیج کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایکو چیمبرز قدرے نئی اصطلاح ہے جس سے بہت سارے لوگ واقف نہیں ہیں ۔ اس سے مراد سوشل میڈیا پر موجود افراد کا ایک ایسا منظم گروہ ہے جن کا مقصد جھوٹی خبروں کے ذریعے لوگوں کے اذہان کو پراگندہ کرنا ہوتا ہے۔بظاہر یہ لوگ قابل ، پڑھے لکھے ، منجھے اور سلجھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن در پردہ ایسی مذموم کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں کہ جن سے بڑی بڑی ریاستوں کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ عموما ًان گروہوں کا ہدف نوجوان ہوتے ہیںجو کچے ذہن اور کم عمری کی بدولت بڑی آسانی کے ساتھ ان کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
ان گروہوں کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں میں عموما ً ایک یا ایک سے زیادہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے وہاں ایک ایسی پروفائل یا پیج بنایا جاتا ہے جس پر کسی خاص موضوع کے متعلق منفی مواد کا اشتراک کیا جاتا ہے۔ پھر کسی بیانیے کو فروغ دے کر ایک ٹرینڈ چلایا جاتا ہے۔ نوجوانوں کواس کا حامی بنا کر انہیں باور کرایا جاتا ہے کہ اس ٹرینڈ کی بدولت ان کی قسمت بدلی جا سکتی ہے یا انہیں سیاسی نظام سے چھٹکارا مل سکتا ہے ۔ ایسے رجحانات (ٹرینڈ ز) میںاکثر ملک کے اعلیٰ سول و عسکری اداروں اور اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کے خلاف نفرت آمیز مواد پھیلا کر اشتعال انگیزی کا بیج بویا جاتاہے جس کا لا محالہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک بد امنی کی طرف چلا جاتا ہے ۔
گزشتہ برس مئی 2023ء میںبلاشبہ ملکی تاریخ کا ایک افسوس ناک سانحہ ہوا جببعض عناصر نے عسکری قیادت اور قومی اداروں کے خلاف ایک طوفان بد تمیزی برپا کیا ۔ حساس فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ، مملکت خداداد کے غازیوں کی بے توقیری اور شہدا ء کی بے حرمتی کی گئی۔ اگر دیکھا جائے تو اس سانحے سے قبل سوشل میڈیا پرانہی ایکو چیمبرز اور پروپیگنڈا عناصرنے ایک منظم مہم چلا کر عوامی بغاوت برپا کرنے کی کوشش کی جس میں جھوٹی خبروں کی تشہیر ، ہائبرڈ وار اور دیگر طریقوں کی مدد سے وطن کی سا لمیت پر کڑے وار کیے گئے۔ایسے وقت میں ہماری عسکری قیادت نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ۔
اس ساری صورت حال میں سوشل میڈیا کے بے لگام 'جِن'کو قابو کرنے کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ دنیابھر میں ایسے قوانین موجود ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر جدید ترقی یافتہ ممالک نے سوشل میڈیا ، جھوٹی خبروں کے پھیلائو اور ففتھ جنریشن وار کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود نفرت اور اشتعال انگیز مواد پر قابو پانے میں جرمنی کی مثال ہم سب کے سامنے ہے۔وہاں یکم اکتوبر 2017ء کو Network Enforcement Act کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد جھوٹی خبروں ، نفرت انگیز تقاریر، اور ڈس انفارمیشن پر قابو پانا تھا۔ اس قانون کی رو سے تمام سوشل نیٹ ورک مہیا کرنے والی کمپنیوں کو پابند کیا گیا کہ وہ فوری طور پر غیر قانونی اور غیر اخلاقی مواد ڈیلیٹ کریں۔ حکومتی سطح پر یقینی بنایا گیا کہ اگر کوئی صارف یا کمپنی مروجہ قوانین کی پاسداری نہیں کرتی تو ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرتے ہوئے انہیں قرارواقعی سزا دی جائے۔ اس سلسلے میں نفرت انگیز تقاریر کے تدارک کے لیے جرمن وزیر برائے قانون و انصاف کی ایما پر Hate Speech Task Force کاقیام بھی عمل میں لایا گیا جس میں فیس بک، ٹوئٹر( X) اور گوگل کے نمائندوں کو شامل کر کے یقین دہانی کروائی گئی کہ ان پلیٹ فارمز پر موجود غیر قانونی اور غیر اخلاقی مواد کوفوری طور پر ختم کیا جائے گا۔اس قانون پر عمل کرتے ہوئے اگلے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر یوٹیوب نے 90فیصد،فیس بک نے 39فیصد اورٹوئٹر( X) نے ایک فیصد مواد ڈیلیٹ کر دیا ۔
سوشل میڈیا کے بے دریغ منفی استعمال کو قابوکرنے کے سلسلے میں روس کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات بھی لائق تحسین ہیں۔ نومبر 2019ء میں روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے انٹرنیٹ کے حوالے سے کئی اصلاحات متعارف کرائیں جن کی رو سے Digital Borders تخلیق کیے گئے۔اس سے مراد انٹرنیٹ کے حوالے سے قائم کردہ حدود و قیود تھیں جن پر بعد ازاں سختی سے عمل درآمد کروایا گیا۔ اس طرح ایک قومی نیٹ ورک کے ذریعے بے ہنگم معلومات کو کنڑول کر کے سوشل میڈیا پر کئی قدغنیں لگا دی گئیں۔واٹس ایپ کی طرح پیغام رسانی کی خاطر استعمال ہونے والی مشہور زمانہ ایپلیکیشن Telegram کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا تاکہ غیر ضروری مواصلات میں کمی لائی جا سکے۔ غلط معلومات کی ترسیل روکنے کے لیے روس کی پارلیمنٹ نے مارچ 2022ء میں دو وفاقی قوانین کا نفاذ کیا جن کی خلاف ورزی کرنے والوںکے خلاف سخت سزائوں کا تعین کیا گیا۔ قوانین میں خصوصی طور پر کہا گیاکہ کسی تنظیم ،گروہ ، فرد واحد یا ادارے کو روسی افواج اور ریاستی اداروں کے خلاف کسی قسم کی غلط معلومات کی تشہیر کی اجازت نہیں ہو گی۔بعد ازاں روسی عدالتوں کی طرف سے کورونا وائرس کے دوران دانستہ طور پر پھیلائی جانے والی غلط معلومات کے مجرموں کو سزائیں بھی دی گئیں۔قابل ذکربات یہ ہے کہ روس میں میڈیا تنظیموں پر بھی ضروری پابندیاں عائد ہیں اور جواب دہی کا احساس میڈیا کے اداروں اور صحافیوں کو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے عہدہ برآ کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق رواں برس الیکٹرانک کرائمزپر قابو پانے کے لیے روس میں 21کیس فائل کیے گئے جن میں بیرونی ایجنسیوں کو اہم خفیہ معلومات کی فراہمی کے مجرموں کو 20سال کی سزائیں سنائی گئیں۔
سوشل میڈیا اور جھوٹی خبروں پر قابو پانے کے لیے برطانیہ میں Online Safety Act 2023 موجود ہے ۔ اس کا مقصد برطانوی شہریوں بالخصوص بچوں کو انٹرنیٹ کی دنیا میں مکمل تحفظ فراہم کرنااور برطانیہ جیسے ملک کو آن لائن دنیا میں محفوظ ترین جگہ بنانا ہے۔اس بل کے تحت شہریوں کی حفاظت کی خاطر برطانوی حکومت تمام سوشل میڈیا اورپیغام رسانی پلیٹ فارمز پر صارفین کی طرف سے اپلوڈ کیے جانے والے مواد پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر سرکاری فون پر ٹک ٹاک چلانے پر پابندی عائد کرنے کی سفارشات بھی زیر غورہیں۔ ان قوانین پر عمل پیرا ہوتے ہوئے برطانوی ٹی وی ریگولیٹری اتھارٹی ،بھارت کے ہندی چینل ''ریپبلک بھارت'' پر پاکستانی عوام کے خلاف نفرت انگیز تقاریرنشر کرنے پر 20,000 پاؤنڈجرمانہ عائد کر چکی ہے۔اسی طرح بچوں کے متعلق ڈیٹا کے غلط استعمال پر ٹک ٹاک کو 12.7 ملین پائونڈ کاجرمانہ ہو چکاہے۔ یاد رہے کہ سکیورٹی ڈیٹا کی حفاظت کے خدشات کی وجہ سے برطانیہ میں تمام سرکاری فونز پر سوشل میڈیا ایپلی کیشنز کے استعمال پر پابندی عائد ہے۔
امریکی سرکاری حلقوںمیں Bipartisan Funding Billکی رو سے ٹک ٹاک پر پابندی عائد ہے جبکہ سرکاری عہدیدار وں کی بڑی تعداد سوشل میڈیا پر فیک تصاویر اور خبروں کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لیے نئے قوانین بنانے کی خواہاں ہے۔ کچھ عرصہ قبل فیس بک کے حوالے سے سرکاری سطح پر تحقیقات کا آغاز کیا تھا جس میں الزام لگایا گیا کہ فیس بک نے کروڑوں صارفین کے ڈیٹا تک ، ان کی اجازت کے بغیر دیگر کمپنیوں کو رسائی دے کر غلط استعمال کیا۔بعد ازاں جرم ثابت ہونے پر فیس بک پر جرمانہ بھی عائدکیا گیا تھا۔ مختصر یہ کہ امریکہ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے دھوکہ دہی کے طریقوں کا استعمال، نفرت انگیز مواد کی تشہر اور غلط معلومات کی ترسیل پر بے شمار قوانین موجود ہیں جن پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کروایا جاتا ہے۔
اس حوالے سے ہمسایہ برادر ملک چین کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ چین میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مکمل پابندی عائد ہے۔ حکومتی سطح پر گوگل اور فیس بک کی طرز پر کئی ایپلی کیشنز ایجاد کی گئی ہیں تاکہ عوام کو آن لائن مواصلات کی سہولتیں فراہم کی جا سکیں تاہم ان پر کڑا چیک اینڈ بیلنس بھی رکھا گیا ہے۔ چینی عوامGmailاور Hotmail کی بجائے خود ساختہ ای میل استعمال کرتے ہیں۔ چین میں جعلی معلومات آن لائن پھیلانابہت بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے جس پر قرار واقعی سزائیں دی جاتی ہیں۔ غلط معلومات پھیلانے کے خلاف قوانین نہایت سخت ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے امن عامہ میں بگاڑ پیدا کرنے کی سزا سات سال تک مقرر کی گئی ہے۔مزید برآں ٹیلی کام اور آن لائن فراڈ سے نمٹنے کے لیے ایک نیا قانون وضع کیاگیا ہے جس کا مقصدبڑھتے ہوئے آن لائن جرائم کا خاتمہ کرنا ہے ۔ ٹیلی کام آپریٹرز، مالیاتی اداروں اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کے لیے بھی قوانین موجود ہیں جن پر عمل نہ کرنے پر انہیں بھاری جرمانے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ ان ممالک کے ساتھ ساتھ ترکی ، جاپان ، ملائشیا سمیت دیگر کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے قوانین رائج ہیںجن کے ذریعے جھوٹی خبروں کی تشہیر اور ڈس انفارمیشن کو کنٹرول کیا جاتا ہے ۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے بھارت میں بھی قوانین موجود ہیں تاہم ان کی نوعیت باقی ممالک سے قدرے مختلف ہے۔زیادہ تر قوانین حکومتی ایما پر استعمال کیے جاتے ہیں جن کا مقصد مخالفوں کو جبراً قابو میں رکھنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات سوشل میڈیا کو استعمال کر کے مسلمان اور اسلام مخالف نفرت انگیز مواد کی تشہیر کی جاتی ہے۔بھارتی خفیہ ایجنسی ''را '' سوشل میڈیا پر بے شمار بوگس اکائونٹس کے ذریعے ہندوتوا کا پرچار کرتی ہے جبکہ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کے اراکین، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پرسوشل میڈیا کے استعمال پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ بھارتی آئی ٹی ایکٹ کا سیکشن 69Aحکومت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ بنا روک ٹوک کسی بھی سوشل میڈیا اکائونٹ کو بلاک کر سکتی ہے۔ بھارت میں آزاد میڈیا پر بھی پابندی عائد ہے۔ زیادہ تر میڈیا تنظیمیں بر سر اقتدار حکومتی پالیسیوں اور بیانیے کا پرچار کرتی نظر آتی ہیں۔ آزادی صحافت پر بھی کئی قدغنیں لگائی گئی ہیں۔
وطن عزیز میں سوشل میڈیا کے استعمال کے متعلق قوانین موجود ہیں ۔ نومبر 2020ء میں کچھ نئے ضوابط کا اطلاق کیا گیا جن کے مطابق سوشل میڈیا پرتوہین مذہب، مذہبی منافرت، پاکستان کے وقار، سلامتی، دفاع، وفاقی و صوبائی حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیز، نظریاتی، ثقافتی اور اخلاقی اقدار کے خلاف مواد بلاک کرنے کے لیے ٹیلی کام کمپنیوں کو پابند کیا گیا ۔ساتھ ہی کہا گیا کہ ان قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے متعلقہ سوشل میڈیا کمپنی یا ویب سائٹ کو مکمل طور پر بلاک کر دیا جائے گا۔ نئے قواعد کے تحت یقینی بنایا گیا کہ یوٹیوب، فیس بک، ٹویٹر(X)، ٹک ٹاک، گوگل پلس، لنکڈان سمیت سوشل میڈیا یا کسی بھی ویب سائٹ پر ہتک آمیز، گستاخانہ مواد، نازیبا تصاویر شائع کرنے پر پی ٹی اے کو شکایت درج کرائی جاسکتی ہے ۔ اسی طرح اسلام اور ملکی سلامتی کے خلاف مواد ، غیر اخلاقی مواد ، غلط مواد کی تشہیر پر بھی پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔
یہ قوانین اپنی جگہ درست مگرپھر بھی پاکستان میں سوشل میڈیا اور جھوٹی خبروں پر مکمل طور پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔حکومت،ریاست یا ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد جھوٹے اور غلیظ پروپیگنڈے کے تدارک کے لیے قوانین بنانے کے ساتھ ساتھ اگر نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے تو اس کے بہترین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔اسلامی تعلیمات کا پرچار اور اسلامی قوانین سے آگاہی کی بدولت بھی جھوٹی خبروں کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے۔تعلیمی نصاب میں ڈیجیٹل تعلیم پر مبنی ابواب کا اضافہ وقت کی ضروت بن چکا ہے ۔والدین اور اساتذہ کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو ڈس انفارمیشن کی آگاہی اور اس کے تدارک کے بارے میں تیار کریں۔ اعداد و شمار پر مبنی ویب سائٹس کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں موجود حقائق کو پرکھا جا سکے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا ادراک اور احساس ہو نا چاہیے تاکہ ہم کسی ایسے غلیظ پروپیگنڈے کا حصہ نہ بن جائیں جو ملکی وقار اور اعلیٰ اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے۔
تبصرے